ایم ایف حسین کاچارآنےسےکروڑوں کمانےکاسفراختتام پذیر
ہندو دیوی دیوتاؤں کی عریاں تصاویر بنائینے سے وہ یکایک متنازعہ حیثیت اختیار کرگئے،
مادھوری ڈ کشت کی خوب صورتی اور حسن کے دلدادہ تھے
وسیم اے صدیقی کی تحریر
17 ستمبر 1915 کو بھارت کے ایک چھوٹے سے علاقے میں پیدا ہونے والے عظیم مصور مقبول فدا حسین دنیا کی ان شخصیات میں سے ایک تھے جنہوں نے زندگی میں تو شہرت پائی ہی مرنے کے بعد بھی برسوں تک لوگ انہیں نہیں بھولیں گے ۔ایم ایف حسین کو قدرت نے برش اور رنگوں کے ذریعے شاہکار تراشنے کا وہ فن عطا کیا تھا جس کیلئے انگنت لوگ دن رات دعائیں کرتے ہیں۔ اپنے انتقال سے صرف چار روز پہلے ہی ان کا ایک شاہکار،جس کا نام انہوں نے ہارس اینڈ وومن رکھا تھا ،لندن میں ایک کروڑ تیئس لاکھ روپے میں فروخت ہواجبکہ جس دور میں وہ فلمی پینٹرہوا کرتے تھے اس وقت چھ بائی دس فٹ کے پوسٹر بنانے کے انہیں صرف چار آنے ملتے تھے۔ اس پر بھی تنگ دستی کا حال یہ تھا کہ ایک بار معاشی حالات کی بہتری کیلئے انہیں ایک فیکٹری میں مزدور کی حیثیت سے کام کرنا پڑا۔ اس فیکٹری میں کھلونے تیار ہوتے تھے۔
ایم ایف حسین نے چار آنے سے ایک کروڑ تیئس لاکھ روپے کمانے تک کا سفر یوں ہی اور آسانی سے طے نہیں کرلیا بلکہ برسوں کی محنت اور اپنے کام سے لگن کی بدولت وہ اس مقام تک پہنچے۔ سچ پوچھئے تو ایک مصور کی حیثیت سے ان کی پہچان 1940 میں ہوئی تھی جبکہ ان کی بنائی ہوئی تصاویر کی پہلی باقاعدہ نمائش 1947ء میں ہوئی تھی۔ پچاس کی دھائی سے وہ ترقی پسند فنکاروں کی صف میں شامل ہوئے۔ ساٹھ کے عشرے سے انہیں بھارت کا نہایت منجھا ہوا اور تجربہ کار مصور شمار کیا جانے لگا۔ ان کی شہرت کو گویا پر لگے ہوئے تھے۔ جب یہ شہرت بھارت کی سرحدوں سے نکل کر بیرون ملک پہنچی تو انہیں بھارت کا پکاسوکہہ کر پکارا جانے لگا۔ اسی اثناء میں راگ مالا سیریز کیلئے بنائی گئی ان کی ایک تصویر لندن کے کرسٹیز نیلام گھر میں لاکھوں ڈالرز میں فروخت ہوئی۔ انہوں نے بیرون ملک بھارت کی ثقافت ،کلچراور مذہبی روایات کواپنے انداز میں متعارف کرایا۔ وہ بھارت کے ان چند عظیم مصوروں میں سے ایک تھے جن کے بنائے ہوئے شاہکار کی بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں آسمان چھوتی ہیں۔
ستر کی دہائی میں ان کی شہرت نے ایک نیا موڑ لیا۔ وہ یکایک متنازعہ حیثیت اختیار کرگئے۔ انہوں نے کچھ ہندو دیوی دیوتاؤں کی عریاں تصاویر بنائیں جس کا جواز ان کے پاس یہ تھا کہ اجنتا اور ایلورا کی تاریخی وادیوں میں بھی اسی طرح کے دیوی دیوتاوں کے مجسمے ہیں لہذا اگر انہوں نے اپنے کینوس پر انہیں اتارا ہے تو اس میں کیا حرج ہے لیکن ان کا جواز کسی طرح قابل قبول نہ ہوا۔ سپریم کورٹ سمیت مختلف عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات قائم کر دیئے گئے۔ انہیں قتل کی دھمکیاں دی جانیں لگیں۔ ایک تنظیم نے ان کے سر کی قیمت گیارہ اعشاریہ پانچ ملین روپے مقرر کی جس کے بعد وہ دو ہزار چھ میں جلا وطنی پر مجبور ہوگئے۔
2007میں کیرالا کے ہائی کورٹ نے فدا حسین کو ایوارڈ دینے پر پابندی عائد کردی۔ کیرالہ حکومت نے اس سال مصوری کا معروف ’’راجہ روی ورما ایوارڈ، فداحسین کو دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
2008 میں ہندوستان کی سپریم کورٹ نے مقبول فدا حسین کی ایک متنازعہ پینٹنگ کے سلسلے میں فنکار کے کام کا دفاع کرتے ہوئے فن کا نمونہ قرار دیا اور ان کے خلاف دائر درخواست خارج کر دی گئی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ملک میں لاتعداد فحش مجسمے اور تصویریں عام ہیں، ان سے لوگوں کے جذبات کیوں مجروح نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ نے بھی ان کے خلاف دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی پینٹنگ فحش نہیں۔
ایم ایف حسین شارٹ فلمیں بنانے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ مادھوری ڈ کشت کی خوب صورتی اور حسن کے وہ دلدادہ تھے۔ انہوں نے مادھوری کے ساتھ گج گامنی کے نام سے ٹیل آف تھری سیریز بنائی جس میں انہوں نے مادھوری کو اس قدر خوب صورتی کے ساتھ پینٹ کیا کہ نئی نسل میں ان کی وجہ شہرت ہی مادھوری کی پینٹنگس بن گئیں۔ انہیں مادھوری کے فن سے دیوانگی کی حد تک لگاؤ تھا۔ انہیں مادھوری کی ایک فلم ’’ ہم آپ کے ہیں کون ‘‘ اس قدر پسند تھی کہ 70 مرتبہ اسے دیکھا۔
اس سے قبل 1967ء میں انہوں نے برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اپنی دستاویزی فلم ‘تھرو دی آئیز آف اے پینٹرکے لئے گولڈن گلوب ایوارڈحاصل کیا۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی شارٹ فلمیں بنائیں۔ وہ اپنی لگن اور زبان دونوں کے بڑے پکے تھے۔ نڈر تھے ، کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ان کی آپ بیتی بھی شائع ہوچکی ہے۔
ان کا اپنا مخصوص لائف اسٹائل تھا۔ وہ نگے پاؤ ں رہاکرتے تھے۔ اپنی گاڑی کو بھی انہوں نے اپنی پسند کے مختلف رنگوں میں خود پینٹ کیا ہوا تھا۔ انہیں بھارت کے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا گیا جس میں پدم بھوشن بھی شامل ہے۔ انہیں پارلیمنٹ کے لئے بھی نامزد کیا گیا۔ جس قدر ایوارڈز انہیں ملے ،ان کا شمار بھی ایک مشکل امر ہے۔
مقبول فدا حسین فلمی دنیا کو اپنی طرف سے دبئی میں ہندی فلموں کا ایک نہایت وسیع میوزیم بطور تحفہ دینا چاہتے تھے جس کے لئے وہ آخری وقت تک کام بھی کرتے رہے۔ گو کہ فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کام کس حدتک مکمل ہوا لیکن ان کے چاہنے والوں اور ان کے جانشینوں کو یہ کوشش ضرور کرنی چاہئے کہ ان کا یہ خواب ضرور پورا ہو۔ وہ دنیا کے بیشمار ممالک میں بھارت کی پہچان بنے مگرانہیں آخری سانسیں لندن میں آئیں۔ وہ دوبئی میں بھی رہے اور قطر نے تو انہیں اعزادی شہریت دے رکھی تھی۔