اداریہ
قومی قیادت پارلیمینٹ کی قرار داد پر عملدرآمد یقینی بنائے!۔
شمالی وزیرستان میں نیٹو ہیلی کاپٹروں کی طرف سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی اور فوجی چوکی پر فائرنگ کا واقعہ عین اس وقت رونما ہوا ہے جب واشنگٹن اور اسلام آباد باہمی تعلقات میں پیدا ہونے والی مشکل صورتحال پر قابو پانے کی کوششیں کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس سے قبل امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین جان کیری نے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں اور ایوان صدر سے جاری کئے گئے ایک مشترکہ اعلامیے میں دہشت گردوں کے خلاف تعاون جاری رکھنے ،پاک امریکہ رابطوں کا نئے سرے سے جائزہ لینے اور پاکستان کے اندر کسی بھی اہم ہدف کے خلاف دونوں ممالک کی طرف سے مشترکہ کارروائی کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔ مگر جس دن اسلام آباد میں یہ ملاقاتیں جاری تھیں عین اسی روز شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں امریکی جاسوس طیاروں کے دو میزائل حملوں میں 10افراد لقمہ اجل بنا دیئے گئے جبکہ اگلے روز یعنی منگل کے دن افغانستان میں موجود نیٹو افواج کے ہیلی کاپٹروں نے شمالی وزیرستان کے علاقے میں کئی کلومیٹر اندر تک آ کر ایسی کارروائی کی جسے نرم سے نرم الفاظ میں بھی اشتعال انگیزی کہا جا سکتا ہے۔ پاک فوج نے فوری کارروائی کرتے ہوئے اگرچہ فضائی خلاف ورزی کے مرتکب ہیلی کاپٹرز کو مار بھگایا ہے اور نیٹو سے شدید احتجاج کرتے ہوئے فلیگ میٹنگ بلانے کا مطالبہ بھی کیا ہے مگر اس پوری مشق کو نتائج کے اعتبار سے ایک سفارتی ضرورت کی تکمیل سے زیادہ سمجھنا شاید خوش فہمی ہو گی۔ کیونکہ برسوں کے تجربات کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلا کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے والے پاکستان کو غیر معمولی جانی ومالی نقصانات کے باوجود الزامات ، شکوک اور ’’ڈومور‘‘ کے مطالبات کا ہی سامنا ہے جس کے لئے بعض اوقات دباؤ ڈالنے کے نت نئے حربے سامنے آتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں جو لوگ القاعدہ اور طالبان کے بعض گروپوں کی سرگرمیوں کے پیچھے امریکی حکمت عملیوں کی موجودگی کی دلیلیں پیش کرتے ہیں ان کے موقف کو جنگجو عناصر کی طرف سے دوست ملکوں سے تعلقات خراب کرنے کی کوششوں، ہلاک ہونے والے بعض عسکریت پسندوں کی لاشوں سے سامنے آنے والے شواہد ،امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی رنگے ہاتھوں گرفتاری اور بلیک واٹر کے مسلح افراد کی سرگرمیوں سے تقویت ملتی ہے۔ تاہم سینیٹر جان کیری کے واشنگٹن واپس پہنچنے کے بعد ان کی پیش کردہ، رپورٹ اور پاکستانی قیادت سے ملاقاتوں کے حوالے سے امریکی ذرائع نے جو باتیں میڈیا تک پہنچائی ہیں ان کے مطابق اسلام آباد پر واضح کیا گیا ہے کہ امریکہ پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں اتنا کمزور بھی نہیں دیکھنا چاہتا کہ وہ خطے میں ایک ’’لاغر‘‘ ملک بن کر رہ جائے۔ اس سے پہلے سینیٹر جان کیری نے اسلام آباد میں پاکستانیوں کو یہ پیشکش کی کہ وہ اپنے خون سے یہ تحریر دینے کے لئے تیار ہیں کہ امریکا ہمارے ایٹمی اثاثوں پر حملہ نہیں کرے گا مگر ساتھ ہی یہ بھی جتا دیا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ اثاثے مناسب کمانڈ اینڈ کنٹرول کے تحت محفوظ ہوں‘‘ اسی بیان میں مزید واضح کیا گیا تھا کہ ’’پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے واشنگٹن میں تشویش پائی جاتی ہے۔
امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام پر مزید پیش رفت کو روکے ‘‘۔ ان جملوں کے پیچھے جو پیغام مضمر ہے اس کی سنگینی پاکستان کا ہر وہ غریب آدمی سمجھ رہا ہے جو روز بسوں میں دھکے کھاتا ،دن بھر مزدوری کرتا اور اس کے بعد بھی آدھے پیٹ روٹی کھاتا ہے مگر ہر طرح کی مراعات اور آسائشوں کے حامل ارباب اختیار کے رویے سے بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ ملک اپنی بقا و سلامتی کے حوالے سے نازک مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ان حالات میں کیا ہی اچھا ہوکہ حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام سیاسی قوتیں پارلیمینٹ کی 13مئی 2011ء4 کی متفقہ قرارداد کو قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کا ذریعہ بناتے ہوئے اس پر عملدر آمد کو یقینی بنانے کی تدبیر کریں۔ اس باب میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ ڈرون حملوں کی صورت میں پارلیمینٹ کی اس قرار دادا کی تضحیک کی گئی ہے جس میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ جاسوس طیاروں کے حملے بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ اس نوع کے واقعے کا اعادہ ہونے کی صورت میں نیٹو کی سپلائی بند کر دی جائے گی۔ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد چوہدری نثار کے الفاظ میں’’قرارداد کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ ڈرون حملے شروع ہو گئے۔ ‘‘ بلاشبہ یہ ایک سنگین صورتحال ہے اور اس پر حکومتی ردعمل فوری طور پر سامنے آنا چاہئے تھا مگر اس بارے میں ان حلقوں کو مورد الزام ٹھہرانا شاید زیادہ مناسب نہیں ہو گا جو حکومتی احکامات اور پالیسی فیصلوں کے تابع ہیں۔یہ بات سیاستدانوں سمیت تمام محب وطن حلقوں کے لئے تشویش کا باعث ہونی چاہئے کہ پارلیمینٹ کی متفقہ قرارداد کی منظوری کے چند دن کے اندر اندر جاسوس طیاروں کے میزائل حملوں، مغربی سرحدوں سے نیٹو افواج کی فضائی خلاف وزیوں،مشرقی سرحدوں پر بھارتی افواج کی بلا اشتعال گولہ باری اور امریکہ کی طرف سے ’’پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں بہت زیادہ کمزور نہ کرنے‘‘ کے خیالات سامنے آ چکے ہیں۔ واشنگٹن کی طرف سے پاکستان پر ممبئی حملوں کی تحقیقات کے مطالبات بھی اس عرصے میں ایک سے زائد بار دہرائے گئے ہیں۔
ان سب باتوں کو محض اتفاق سمجھناٹھیک نہیں ہو گا۔ اس لئے ہماری قیادت کو پارلیمینٹ کی بالادستی کے زبانی وعدوں سے آگے بڑھ کر اس کا عملی اظہار بھی کرنا چاہئے۔ پارلیمان کی 13مئی 2011ء کی قرار داد کا حشر اگر 2008ء میں منظور کردہ متفقہ قرارداد جیسا ہوا تو عوام کا سیاسی قیادت پر رہا سہا اعتمادبھی ختم ہو جائے گا۔اس لئے بہتر ہے کہ قومی تاریخ کے اس نازک لمحے کو نہ تو کسی حلقے کی طرف سے سیاسی فوائد کے حصول کا ذریعہ بنایا جائے، نہ ہی کسی کو یہ معاملہ اتنا سہل جاننا چاہئے کہ سیاسی جوڑ توڑ اور اللے تللوں کے طور طریقوں سمیت معمول کی مصروفیات تو جاری رکھی جائیں مگر جن امور پر فوری ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت ہے،ان پر بے حسی اور بے عملی کا تاثر ابھرے۔حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام سیاسی قوتوں یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ 13مئی کی قرار داد کی منظوری کے بعد ان کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں جس کیلئے پارلیمینٹ کے اندر اور باہر کی تمام جماعتوں میں مشاورت کا ایک مستقل طریقہ کار وضع کیا جانا چاہئے۔ہماری دردمندانہ گزارش ہے کہ ہمارے تمام رہنما وقت کی نزاکت کو محسوس کریں اور قومی اسمبلی کی متفقہ قرار داد پر عملدرآمد سمیت ملکی سلامتی و بقا کے تقاضوں کو ہر چیز پر مقدم رکھیں۔
Dear fact .es mulk kai gdar or chor jitne bri tadad mai parliment mai bethay hai .itnai ap ko khe or nhe milay gai .es liay parliment sai iltaja krna bykar hai .khuda es mulk ke hifazt frmay .
Pakistan should utilize its nuclear weapons against nato forces.