طلاق کا کھیل اور ہمارے میڈیا کا شرمناک کردار
محترم عمران خان اور ریحام صاحبہ کی علیحدگی کی خبریں آج تمام تر ذرائع ابلاغ پر چھائی ہوئی ہیں۔ اہم ترین اخلاقی نکتہ اس سب معاملے پر دھڑلے سے بحث کرنے کے لیے یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ اگر یہ معاملہ نجی تھا تو پارٹی کے ترجمان سے اس کے بارے میں بیان کیوں دلوایا گیا۔ اور یہ رائے غالباً محترمہ شہلا رضا کا ٹویٹی اشقلہ تھا۔
دیکھیے، بے شک یہ معاملہ ان کا نجی معاملہ نہ سمجھیں لیکن تبصرہ کرتے ہوئے اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے کیوں چھوڑا جا رہا ہے۔ کیا جماعت کے ارکان ہوں، کیا جیالے، کیا نواز لیگ والے یا کیا لبرل بھائی، سب ہی ایسے عجیب وحشی لہجوں میں خوشی کا اظہار کر رہے ہیں گویا قوم کی سب سے بڑی دشمن ریحام خان تھیں اور اب راوی چین ہی چین لکھے گا۔
عارف نظامی صاحب بے شک یہ خبر دینے میں دونوں بار سبقت حاصل کر گئے لیکن جو تازہ ترین بیان اس حوالے سے اخباروں میں جاری ہوا ہے اس پر غور کیجیے۔ چند جملے آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔
ایک ٹی وی چینل 24پر گفتگو کرتے ہوئے عارف نظامی کاکہناتھاکہ طلاق باہمی رضامندی سے نہیں ہوئی ، دودن قبل جھگڑاہوااور ریحام نے عمران خان پر بھی ہاتھ اٹھایا، ریحام خان عمران خان کے مساوی کردار چاہتی تھیں اور خدشہ تھاکہ وہ عمران کو زہر ہی نہ دے دیں ۔عارف نظامی نے کہاکہ طلاق سیاسی نہیں ، ذاتی وجوہات پر ہوئی ، عمران خان شریف آدمی ہیں اور ان کیساتھ براہوا، وہ یہ بات دعوے کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ طلاق باہمی رضامندی سے نہیں ہوئی ، دونوں کےبچے اس شادی سے ناخوش تھے اور شادی کے معاملے میں شروع سے ہی گڑبڑہوگئی تھی ، ریحام کی جعلی ڈگری کا معاملہ سامنے آگیا۔ اُنہوں نے بتایاکہ جوڑے کی ازدواجی زندگی اجیرن ہوگئی تھی ،عمران خان اور ریحام خان میں دوروز قبل جھگڑا ہوا اور ریحام نے عمران پر ہاتھ بھی اٹھا لیا تھا۔
گویا تمام تر ذمہ داری صرف ریحام پر عائد ہوتی ہے۔ عمران خان شریف آدمی ہیں۔ انہوں نے جھگڑے میں ریحام صاحبہ کا ہاتھ اٹھنا گوارا نہیں کیا۔ وہ ہر وقت اس خوف میں رہے کہ کہیں انہیں نوبیاہتا کے ہاتھوں زہر نہ کھانا پڑ جائے۔ پھر جب ریحام خان کی ڈگری جعلی نکلی تو یہ ایک بہت بڑا دھچکا ثابت ہوا۔ بھئی عقل کو ہاتھ ماریں، عمران خان کو ولی ثابت کیا جا رہا ہے اور اتنی بڑی خبر کے لالچ میں ہر کوئی اسے من و عن چھاپ رہا ہے۔ کیا اس خبر کی زبان پر ذرا سا غور کرنے سے وہ چیز جسے صحافی اگلے زمانوں میں Angling کے نام سے جانتے تھے، آپ کو نظر نہیں آ رہی؟
اینگلنگ سے مراد یہ بتائی جاتی تھی کہ کسی بھی خبر کو جانب دار طریقے سے یا کسی ایک فریق کی طرف جھکاو کے ساتھ بیان کیا جائے۔
اس سے زیادہ جھکاو کیا ہو سکتا ہے بھئی۔ ہمارے خیال میں تو عارف نظامی صاحب کو اس تمام معاملے میں رائے عامہ ہموار کرنے کے غرض سے استعمال کیا گیا۔ انہیں خبر دینے والے جانتے تھے کہ شادی کی خبر چوں کہ انہی کی طرف سے بریک کی گئی تھی تو لامحالہ ان کے نئے بیان (طلاق) پر لوگ انہیں قرار واقعی اہمیت دیں گے، اور ایسا ہوا۔ خبر دینے والے پارٹی کو لائم لائٹ میں رکھنا چاہتے تھے، ایسا بھی ہوا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ فی الحال معاملہ سنبھل گیا ہے، ضمنی انتخابات کی وجہ سے، لیکن اگر بعد میں کسی برے وقت یہ خبر بریک ہوئی تو معاملات سنبھالنا مشکل ہوں گے۔ اس وجہ سے انہوں نے پوری ایک فضا بنائی اور وہ اس میں بھی کامیاب رہے۔ تمام تر ملبہ ریحام خان پر ڈالنا بھی یقیناً عمران خان صاحب کے مشیران گرامی کی سوچ تھی جس کے تحت علیحدگی کے لیے دس کروڑ مانگنے کا مطالبہ سامنے لایا گیا اور سودا دو کروڑ میں یوں پٹ گیا گویا پٹھان نے قالین بیچا ہے۔
اب آتے ہیں آٹھ کروڑ لینے کے الزام کی طرف جو ابھی عارف صاحب کے حالیہ بیان کے ساتھ ہی آیا ہے۔ مان لیا پیسے لیے گئے۔ لیکن یہ کیسے مان لیں کہ عمران خان اس سارے معاملے سے مکمل لاعلم تھے اور جب انہوں نے پوچھا تو ریحام خان ٹال گئیں۔ وہ انگریزی والوں کے بقول، گیٹ اے لایف مین! ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے ایسے واقعات ہو رہے ہیں اور فریق ثانی اتنے لاعلم ہیں۔ وائے تحیر۔
ایک وجہ یہ بھی پڑھنے میں آئی کہ محترمہ ریحام نے عمران خان صاحب کو اپنے ماضی کے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا اور جب انہیں معلوم ہوا تو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ دوستو، ایک عورت کی کردار کشی میں آپ کہاں تک جائیں گے۔ کیا ماضی تھا ریحام خان کا، اور مغربی ماحول کے پروردہ عمران خان صاحب کو اس پر کیا اعتراضات ہو سکتے ہیں، گوگل کیجیے اور خود ہی فیصلہ کیجیے۔
اس تمام سلسلے کا آغاز تب ہوا جب خان صاحب کے ایک ٹویٹ نے ریحام صاحبہ کی زندگی پر سیاست کے دروازے بند کر دئیے۔ یہ یقیناً ایک جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ تھا جس میں پارٹی کے تمام سینیر لوگوں کی ہلا شیری شامل تھی۔ وہ عورت جو اپنے اتنے بڑے بچوں کے ہوتے ہوئے دوبارہ شادی کرتی ہے، کیا صرف عمران خان کی شخصیت سے متاثر تھی، ہرگز نہیں۔ وہ ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کرنا چاہتیں تھیں اور یقیناً اس بات پر مثبت جواب ملنے کے بعد ہی انہوں نے شادی کا فیصلہ کیا ہو گا۔ یہ محض ایک قیاس ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی بڑی وجہ اس شادی کے پیچھے تلاش کرنے سے ہم قاصر ہیں۔
آخر میں آپ کی توجہ پھر اسی بات کی طرف مبذول کروانا چاہیں گے کہ جس دن یہ فیصلہ ہوا کہ ریحام صاحبہ سیاست سے باہر رہیں گی، اسی دن سے انتہائی منظم ڈھنگ سے ان کی کردار کشی شروع کی گئی اور نظامی صاحب سے یہ خبر بریک کروانا اسی مہم کا حصہ تھا۔
تو دوستو، ہم جو خواتین کو عزت، برابری اور حقوق دینے کی بات کرتے ہیں تو کہیں انجانے میں ہم ایک خاتون سے نامناسب سلوک تو روا نہیں رکھ رہے؟
حسنین جمال