Published On: Sat, Sep 12th, 2015

دانش میڈیا لاجکس اور پیرا ٹروپراینکرز۔۔۔۔

Share This
Tags
جب چور آپس میں لڑنا شروع ہو جائیں تو چوری کا مال برآمد ہو جاتا ہے تو کیا پاکستان کے برقی ذرائع ابلاغ (الیکٹرانک میڈیا) کی تاریخ میں ہونے والی سب سے بڑی ڈکیتی اور جعل سازی کرنے والے میڈیا اداروں کی باہمی لڑائی کے نتیجے میں اب چوری کا مال برآمد ہونے کو ہے؟ یہ وہ سوال ہے کہ جو اب بیشتر اذہان میں کلبلا رہا ہے جونو گیارہ کے بعد پاکستان کے ابلاغی منظرنامے پر کھمبیوں کی طرح ابھرنے والے ٹی وی چینلز کی تعداد، مقدار اور معیار پر انگشت بدنداں رہے ہیں۔
آپ کو نو گیارہ کے بعد امریکی کانگریس کے سامنے کی جانے والی امریکی صدر بش کی وہ تاریخی تقریر تو یاد ہی ہو گی جس میں ان کے دہن سے ’’کروسیڈ‘‘ کا لفظ پھسلا تھا۔ ہم اس لفظ ’’کروسیڈ‘‘ (عیسائی جہاد ) میں ہی پھنس کر رہ گئے حالاں کہ موصوف نے اس تقریر میں یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ اتنے کھرب ہا ڈالر مسلم معاشروں پر خرچ کرنے کے باوجود ان معاشروں میں ہم اپنے لئے قبولیت کیوں پیدا نہیں کر سکے؟ یہ پتہ چلانے کی ضرورت ہے کہ مسلم معاشروں میں ہمارے خلاف نفرت کیوں موجود ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان معاشروں کو براہِ راست بتائیں کہ امریکہ نے ان کے لئے کیا کچھ کیا ہے، اس لئے مسلم معاشروں میں نجی میڈیا کی سرپرستی اور مدد فراہم کرنے کے لئے ایک بلئن ارب ڈالر کا ریوالونگ فنڈ قائم کیا جا رہا ہے‘‘۔ ریوالونگ فنڈ کا مطلب تھا کہ جیسے ہی پہلا ارب ڈالر ختم ہو گا اس میں نیا ارب ڈالر ڈال دیا جائے گا، اور پھر پوری مسلم دنیا میں ٹی وی چینلز کھمبیوں کے طرح اگے، بس الجزیرہ سے لے کر پاکستان میں آنے ہر ٹی وی چینل تک، سب کو یار کیجئے ، سوچئیے اور سر دھنیئے۔
ِاِس وقت ایکسپریس ٹی وی کے مالک جناب سلطان لاکھانی کی طرف اپنے اخبار اور ٹی وی پر ایک گردان کی جارہی ہے کہ ان کو ’’میڈیا لاجکس‘‘ نامی ادارے کے مالک جناب دانش سلمان کی جانب سے بلیک میلنگ کا سامنا ہے، کیوں کہ ایکسپریس گروپ جنابِ دانش کو پنتالیس کروڑ روپے کی رقم ناجائز طور پرادا کرنے سے انکاری ہیں، جناب دانش سلمان اس بات سے انکاری ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے ادارے کے ملازمان کو رشوت دے کر ایکسپریس نے جعلی ریٹنگز حاصل کیں جن کے نتیجے میں ایکسپریس نے اربوں روپے کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ اب ہو سکتا ہے کہ دانش صاحب نے انہی ارب ہا روپوں میں سے اپنا حصہ مانگا ہو جو ایکپریس نے جعلی ریٹنگز سے کمائے تھے۔
ٹی وی ریٹنگز کیا ہے؟ ریٹنگ سے مراد یہ ہے کہ ایک وقت میں پورے ملک میں کسی بھی ٹی وی کو کتنے افراد دیکھ رہے ہیں؟ طریقہ کار اس کا مبینہ طور پر یہ ہے کہ پورے پاکستان میں مختلف گھروں میں لگائے گئے ٹی وی چینلز پر ایک آلہ نصب کیا جاتا ہے جسے پیپلز میٹر کہا جاتا ہے اور جو یہ حساب کتاب رکھتا ہے کہ صاحبِ خانہ اور ان کے پورے خاندان نے پورے دن کے دوران کب اور کون سا ٹی وی دیکھا۔ یہ آلہ ہر ہر لمحے کی خبر ایک مرکزی نظام کو دیتا ہے جو ہر چوبیس گھنٹے میں ہرچینل کے بارے میں ریٹنگز جاری کرتا ہے کہ کون سا ٹی وی کتنا دیکھا گیاہے۔ اسی بنیاد پر اشہار دینے والے ادارے کسی بھی ٹی وی کو اشتہار دینے اور ان اشتہارات کے نرخ طے کرتے ہیں۔
سب سے پہلی غلطی اس میں اُس وقت پکڑی گئی کہ جب بھی الطاف بھائی یا ان کی پارٹی کے افراد ٹی وی پر آ کر کوئی بات یا تقریر کرتے اور جو جو ٹی وی اس کو دکھاتے ان کی ریٹنگز آسمان سے باتیں کرنے لگتیں۔ اب حیرت کی بات یہ تھی کہ پاکستانیوں کی حس لطیف اس قدر بھی نہیں بگڑی تھی ، کہ الطاف بھائی کی تقاریر پر جوق در جوق ٹوٹ پڑیں، اور اگر لسانی عصبیت اور گروہی تعصب میں ایسا تھا بھی تو دس کروڑ آبادی سے زائد کے صوبے پنجاب میں الطاف بھائی کے اس قدر چاہنے والے کہاں سے پیدا ہو گئے؟
editor picتحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ شہرِ کراچی میں لگائے گئے پیپلز میٹر جن گھروں میں لگائے گئے تھے، یا تو وہ متحدہ کے عہدیداروں کے تھے یا پھر ان کی ’’دسترس ‘‘ میں تھے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ ابتدا میں ان پیپلز میٹر کا اسی فی صدصرف کراچی میں ہی لگایا گیا تھا۔ اس کا میڈیا لاجکس کی انتظامیہ کے پاس یہ جواز تھا ملک کی سب سے بڑی شہری آبادی کے مرکز میں پائے جانے والے رحجانات کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب اس پر تنقید بڑھی تو پھر پورے پاکستان کے بائیس شہروں میں پیپلز میٹر لگانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن آج تک یہ بات کسی کو معلوم نہ ہو سکی کہ کس شہر میں کتنے پیپلز میٹر ہیں ؟ یقینناً یہ اس ادارے کا فرض بھی تھا اور حق بھی کہ وہ کسی کو پتہ نہ چلنے دے لیکن یہ میٹر کہاں کہاں لگے ہوئے ہیں، لیکن ان کی تعداد کے بارے میں جس مبالغے سے کام لیا جاتا رہا اس کا بھانڈہ ، میڈیا لاجکس کی ایک سابق ملازمہ نے کچھ یوں پھوڑا کہ ایکسپریس ٹی وی پر آ کر کہہ دیا لاہور میں اور اسلام آباد میں کسی طور پر تین تین سو زائد میٹر نہیں لگے ہوئے جب کہ میڈیا لاجکس پورے ملک کے ان بائیس شہروں میں ہزاروں میٹر لگانے کا دعویدار رہا ہے۔
ریٹنگز ناظرین کے بارے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ ہوا کرتی ہے ،اور دنیا بھر میں تحقیق کا بنیادی اصول ہے کہ اس کے نتائج دینے سے پہلے محقق اپنی تحقیق کے طریقہ کار کے بارے میں تفصیلی طور پر واضح کرتاہے۔ جدید طریقہ ہائے ریسرچ کے ایک طالب علم کے طور پر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر کسی ریسرچ کی بنیاد کے بارے میں محقق یہ نہ بتا سکے کہ اس تحقیق کے لئے اس نے کون سا طریقہ تحقیق اپنایا ہے ، تو ایسی ریسرچ کو اٹھا کر تاریخ کے نہیں بلکہ لائبریری کے کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ترقی پسند جاہلوں کے علاوہ ڈارون کی تحقیق کو کوئی بھی محقق ایک سقہ بند تحقیق ماننے کو تیار نہیں کیوں کہ موصوف اپنی زندگی میں ہی اپنی تحقیق کا طریقہ کار کبھی بھی واضح نہیں کر پائے۔
لیکن اس سے بڑھ کر ایک اور مجرمانہ کام یہ ہوا کہ جناب دانش سلمان صاحب نے مختلف اینکرز حضرات کے ساتھ جو بلیک میلنگ اور سودا بازی کر کے ان کی ریٹنگز کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور اگلے اداروں میں کروڑوں میں تنخواہوں پر جانے کی راہ ہموار کرنے کے عوض کتنا اور کیا کیا کچھ لاہور کے جم خانہ میں بیٹھ کر وصول کیا ، اس سودا بازی کے دلال اور گواہ دونوں ہمارے پاس موجود ہیں اور بوقت ضرورت ان کو حلف دے کر اگلوایا بھی جا سکتا ہے۔ بس اتنا جان لیجئے جہاز والے اینکر ، جو اپنی ایک ساتھی خاتون اینکر کے ہمراہ ، پراپرٹی ٹائیکون ریاض ملک ٹھیکیدار سے کئے گئے انٹرویو کے وقفے کے دوران گل کھلاتے پائے گئے تھے ، وہ انہی دانش سلمان صاحب کی بدولت ہی بدولت دنیا ٹی وی میں متمکن ہوئے تھے۔
لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ دانش سلمان صاحب، پاکستان تحریکِ انصاف کے راہنما ، جناب عمران خان صاحب کے سگے بھانجے بھی ہیں۔ رشتے والی یہ بات ہمارے علم میں آنے سے پہلے ہمیں یہ بات ہضم نہیں ہوتی تھی کہ ستر لاکھ ووٹ لینے والے عمران خان کی ٹی وی ریٹنگز ایک کروڑ چالیس لاکھ ووٹر لینے والے میاں نواز شریف سے دگنی تگنی کیسے ہو جاتی ہے؟ عمرا ن خان تو ایک طرف ان کی پارٹی کا دوسرے اور تیسرے درجے کا راہنما جو مرضی بولے ، اس کی ریٹنگز شہباز شریف اور نواز شریف یا کسی بھی قومی سطح کے راہنما سے زیادہ کیسے ہو جاتی ہیں؟ لیکن اگر دانش صاحب جہاز والے اینکر سے چند مالی اور ذاتی مفادات کے لئے ان کی ریٹنگز کو چار چاند لگا سکتے ہیں توپھر ماموں کے لئے پورے پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کو ماموں کیوں نہیں بنا سکتے؟
اب آئیے موجودہ قضیئے کی بنیاد کی طرف!
جناب سلطان لاکھانی نے اس ریٹنگز کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے ڈی جی میڈیا کے نام سے ایک ادارہ کھڑا کیا جس میں اپنے ایک ملازم جناب نعیم الدین کو حصے دار اور سربراہ کے طور پر متعارف کروایا۔ لاکھانی صاحب نے اس ادارے کے لئے ابتدائی طور پر تین ارب روپے کا سرمایہ بھی فراہم کیا تاہم وہ سامنے نہیں آئے۔ اس ادارے کو دانش صاحب نے تمام تر پیشہ ورانہ اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان تمام گھروں اور ان کے مالکان اور سربراہان کی فہرست فراہم کی جہاں پیپلز میٹر لگے ہوئے تھے۔ لہٰذا نعیم الدین صاحب نے پورے پاکستان کے ان بیس شہروں میں جہاں پیپلز میٹر نصب تھے ، وہاں انہوں نے ایسے تمام گھروں کے مالکان تک رسائی حاصل کی، اور ان میں سے جو جو راضی ہوا اس کو پانچ سے پندرہ ہزار روپے کا ماہانہ لگایا کہ ہر وقت اپنے گھر میں ایکسپریس ٹی وی ہی دیکھا کریں ۔ ان میں سے کئی لوگ تو وعدے کے اس قدر پکے نکلے کہ وہ سوتے وقت بھی ایکسپریس ہی لگا کر سو جایا کرتے۔ بس یہیں پر غلطی ہو گئی۔ لہٰذا دیکھتے ہی دیکھتے ایکسپریس کے تمام چینل میڈیا لاجکس کی ریٹنگز کے مطابق پورے پاکستان کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ٹی وی چینلز بن گئے۔ لیکن دوسرے میڈیا مالکان جب یہ دیکھتے کہ ایکسپریس کی ریٹنگز پورے چوبیس گھنٹوں میں کسی ایک لمحے بھی کم نہیں ہوتی تو وہ بھی سوال اٹھاتے کہ کیا ان گھروں میں لوگ سوتے نہیں ہیں؟ تو اس کے لئے جناب دانش سلمان صاحب کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔
ہمارے اس دوران ذاتی طور پر جناب دانش سلمان صاحب سے کوئی تین ٹاکرے مختلف سیمینارز اور کانفرنسوں میں ہوئے اور ان تینوں ٹاکروں میں یہ سیمینار چھوڑ کر بھاگ جاتے رہے کیوں کہ ان کے پاس ہمارے اُٹھائے گئے کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا، ویسے بھی ان کا مکروہ دھندہ چل رہا تھا، سگریٹ فروش، تعلیم فروش ، گھی فروش، وطن فروش ، تمام قسم کے میڈیا مالکان ان کی بنائی اور گھمائی ہوئی ٹوپیاں خوشی خوشی پہنتے رہے، اور عمران خان کا یہ بھانجا سب کو ماموں بناتا رہا۔
یہ گندہ دھندہ جاری رہتا اگر دوسرے میڈیا مالکان نے اس ریٹنگز کے بارے میں شوروغوغا بلند نہ کرتے۔ آخر کار اس کھلی بد دیانتی کی براہِ راست ذمہ داری سے بچنے کے لئے موصوف نے اپنے کچھ ملازمین پر الزام لگا دیا کہ انہوں کہ انہوں نے ڈی جی میڈیا کو اس حساس معلومات تک رسائی دی ہے اور انہوں نے اشک شوئی کے لئے ان ملازمین کو نوکری سے نکال کر ان کے خلاف ایک مقدمہ بھی درج کروا دیا لیکن حیرت ہے کہ جو پولیس والا ملازمین سے تحقیق کرنے کے لئے عمران خان نیازی کے بھانجے نے ڈھونڈا، وہ بھی ایک نیازی ہی تھا، سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے۔
اس دوران ہوا کچھ یوں کہ جیو گروپ کی فوج کے ساتھ لڑائی ہو گئی ، اس سے قبل جیو جناب عمران خان صاحب کے زیرِ عتاب بھی رہ چکا تھا۔ادھر ہمارے اداروں نے بڑی سرعت کے ساتھ اپنے زیر انتظام رہائشی علاقوں میں جیو کا داخلہ بند کر دیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس صورت میں میڈیا لاجکس کے مطابق سب سے زیادہ دیکھا جانے والا ایکسپریس ٹی وی پاکستان کا نمبر ایک چینل بن جاتا لیکن ایسا نہ ہو سکا اور یہ اعزاز جیو کی غیر موجودگی میں سماء کے حصے میں آ گیا۔ جعل سازی تو بہرحال جعل سازی ہی ہوتی ہے ناں!
ادھر جناب نعیم الدین صاحب ، نے جو ڈی جی میڈیا کی سربراہی کے ساتھ ساتھ ایکسپریس گروپ کے ڈسٹری بیوشن یعنی اسکے چینلز کو مقامی کیبلز پر چلوانے کے ذمہ دار ملازم بھی تھے ، اور ڈی جی میڈیا کے سربراہ کے طور پر ایک بھاری تنخواہ بھی اینٹھا کرتے تھے، ان کو بول ٹی وی نے اپنے ہاں ملازمت کی پیش کش کر دی اور وہ  بول سدھار گئے۔ بول ٹی وی بوجوہ ابھی تک نہیں آ سکا، اس دوران اس ملک کے سب سے بڑے ’’جوہری‘‘ کی نظر اس ہیرے پر پڑ گئی اور یوں میر شکیل الرحمن صاحب ان کو منہ بولے داموں پر اپنے ہاں لے آئے، اور کچے دھاگے سے چلیں آئیں گے سرکار بندھے کے مصداق جناب دانش سلمان صاحب بھی جا کر جیو کی گود میں بیٹھ گئے۔ اور اب ہو رہی ہے ایکسپریس گروپ پر چاند ماری کہ اللہ تیری یاری۔
ایکسپریس گروپ کے اندر کی اطلاع کے مطابق جناب نعیم الدین صاحب بول جانے کے بعد نہ صرف ڈی جی میڈیا کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے بلکہ ان کو ایکسپریس گروپ کے پے رول سے بھی نہیں ہٹایا گیا اور ان کو ادارے کی طرف سے دی جانے والی وہ تمام مراعات جاری رہیں جو ان کو وہاں پر فرائض کی انجام دہی کے دوران حاصل تھیں اور شائد یہ ابھی تک جاری ہیں۔ ان اطلاعات کو ماننے کو دل نہیں چاہتا کیوں کہ میر شکیل الرحمن کبھی بھی مشکوک وفاداری کے حامل گھوڑوں کی پشت پر ہاتھ نہیں رکھتے۔ پورے قضیئے کی بس یہی ایک کڑی ہے جس کا پتہ نہیں چلتا۔
یہی وجہ رہی کہ پاکستان میں جدید سائنسی تحقیق کے نتیجے میں شروع کئے جانے والے بھی تمام ٹی وی چینلز اس لئے ناکامی سے دوچار ہوتے رہے کہ ان کو جانچنے کے معیارات میں کجی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور جو ان چینلز کے لئے ایمپائر بنے ہوئے تھے وہ کسی اور طرف دیکھ کر انگلی کھڑی کر رہے تھے۔ جعل سازی کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ چکی، اب آپ نے ایسے تمام اینکرز پر نظر رکھنی ہے جو سلمان دانش صاحب کی حمائت میں اپنے اپنے دہن پھاڑیں گے، یہ بھی وہی دھوکے باز ہوں گے جو سلمان دانش کی جعل سازی سے کسی نہ کسی سطح پر مستفید ہوتے رہے ہیں یا ہو رہے ہیں۔

رضوان الرحمٰن رضی

Leave a comment