Published On: Thu, Aug 27th, 2015

آخر سیلاب پاکستان میں ہی کیوں آتا ہے؟

Share This
Tags
موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والے سیلاب پاکستان کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر بارشوں کے دورانیے اور معمول میں آنے والی تبدیلی کے باعث پاکستان ایک مرتبہ پھر سیلاب سے دو چار ہے۔چترال سے لے کر راجن پور تک سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔دریائے سندھ کے میدان میں سیلابی ریلوں کی آمد کوئی نئی بات نہیں لیکن ان کے تواتر میں اضافہ ماحول میں انسانی مداخلت کے باعث ہے۔
یونائیٹڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام پاکستان کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے سب سے متاثرہ ملکوں میں سے ایک ہے۔ ان اثرات کے باعث ہی 2010کا تباہ کن سیلاب بھی آیاتھا جس کے اثرات ابھی تک باقی ہیں۔
پاکستان میں آزادی کے بعد سے اب تک اکیس بڑے سیلاب آچکے ہیں موجودہ 2015کا سیلاب اکیسواں سیلاب ہے۔سال2010 سے 2015 تک مون سون کی بارشوں میں شدت دیکھی گئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال شدید سیلاب آرہے ہیں۔ پاکستان کی ایک بڑ ی آبادی زراعت سے جڑے لوگوں کی ہے جن کی کاشتکاری کا زیادہ تر انحصار دریائی پانیوں پر ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے پانی کے یہ ذرائع پاکستان میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔یونائیٹڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام پاکستان کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے سب سے متاثرہ ملکوں میں سے ایک ہے۔ ان اثرات کے باعث ہی 2010کا تباہ کن سیلاب بھی آیاتھا جس کے اثرات ابھی تک باقی ہیں۔
سیلاب اور موسم سے متعلق سرکاری محکمہ کی رپورٹ کے مطابق 1950 سے لے کر 1959تک پانچ سیلاب آئے تھے لیکن 1973کے بعد تو سیلابوں نے غیرمعمولی شکل اختیار کی اور 2015تک 16سیلاب آچکے ہیں۔فیڈرل فلڈکمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق2010 تک آنے والے سیلابوں میں11239لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں599459مربع کلومیٹر کاعلاقہ سیلاب کی زد میں آیا ۔39ارب روپے کا قومی نقصان ہوا اور 180234گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ رواں برس بھی دریائے چناب اور سندھ میں سیلاب آیا ہوا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب مسلسل متاثرہ علاقوں کا دورہ کررہے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق اب تک 69 اموات ہوچکی ہیں۔پانچ لاکھ کے قریب لوگ متاثر ہوئے جنہیں سیلاب کے پیش نظر دوسرے علاقوں میں محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑا جس میں سب سے بڑی تعداد چترال کے لوگوں کی ہے ۔
Residents carry their belongings through a flooded road in Risalpur in Pakistan's Northwest Frontier Provinceسیلاب کے پانی سے جنوبی پنجاب کے شہر، لیہ، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازیخان، راجن پور اور رحیم یار خان میں وسیع رقبہ زیر آب آگیا ہے۔ چترال کی وادی اس وقت 90 فی صد پانی میں ڈوبی ہوئی ہےاور باقی علاقوں سے چترال کا رابطہ منقطع ہے۔چترال کے لوگ محصور ہوکر رہ گئے ہیں ۔سیلاب کے پانی سے جنوبی پنجاب کے شہر، لیہ، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازیخان، راجن پور اور رحیم یار خان میں وسیع رقبہ زیر آب آگیا ہے ،ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگیں ،لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ابتدائی معلومات کے مطابق رحیم یار خان کی 4تحصیلوں میں 56 ہزار افراد سیلاب سے متاثر ہوئے،66 مواضعات زیر آب آئے،41 ہزار 396 ایکڑ رقبے پر فصلیں متاثر ہوئیں۔لیہ کی 2تحصیلوں میں 50 ہزار افراد سیلاب سے متاثر ہوئے،66 مواضعات وچکوک زیر آب آئے،31 ہزار 288 ایکڑ رقبے پر فصلیں متاثر ہوئیں۔ ڈیرہ غازیخان کی تین تحصیلوں میں 30 ہزار افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ، 32 مواضعات میں پانی آیا، جھکڑامام شاہ کے مقام پر حفاظتی بند ٹوٹ گیا اور 300 ایکڑ رقبہ پر کاشت شدہ فصلیں زیر آب آگئیں ۔مظفر گڑھ ضلع میں بھی سیلاب کی وجہ سے تباہ کاری ہوئی ہے اور 35 ہزار لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ اسی طرح 22 مواضعات میں سیلابی پانی داخل ہوا ہے اور250 ایکڑ رقبہ پر کھڑی فصلیں زیر آب آگئی ہیں ۔ راجن پور میں اب تک 40 ہزار کے قریب لوگ متاثر ہوئے ہیں او ر 299 ایکڑ رقبہ کاشت شدہ فصلیں زیر آب آئی ہیں ۔
Family members, displaced by floods, use a tarp to escape a monsoon downpour while taking shelter at a make-shift camp for flood victims in the Badin districtسیلاب سے پیشگی خبردار کرنے کا نظام اور دریائے سندھ سمیت تمام دریاؤں پر پانی ذخیرہ کرنے کے بڑے منصوبوں پر فوری کام کرنے کی ضرورت ہے
جنوبی پنجاب سے سیلاب کا پانی سندھ میں داخل ہوچکا ہے۔ بارشوں کے مزید تیز ہونے کی پیشگوئی ہے۔ سیلاب کا خطرہ بڑھا ہے ٹلانہیں۔ بدقسمتی سے حکومتی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والی آفات اور اس معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں۔ اور آفات سے نمٹنے اور نقصانات کو کم سے کم تک لے جانے کے لیے کوئی قومی پالیسی مرتب نہیں دی جا سکی اورنہ ہی کوئی لائحہ عمل بنایا جا سکا۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے کے لیے قومی پالیسی جاری کرتے ہوئے اس پر عمل کرکے آنے والے سالوں میں نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکتاہے۔تاہم اس کے لیے بھی فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے، پہلے ہی بہت دیر کردی گئی ہے مزید تاخیر کا ہمارا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ سیلاب سے پیشگی خبردار کرنے کا نظام اور دریائے سندھ سمیت تمام دریاؤں پر پانی ذخیرہ کرنے کے بڑے منصوبوں پر فوری کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس دوران کچھ ادارے بنے بھی ہیں لیکن ان کی کارگردگی بھی غیر تسلی بخش ہےاور وہ سیلاب سے بچاؤ میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ 2010 کے ہولناک سیلاب کے بعد ضروری تھا کہ سیلاب سے بچنے کی تدابیرکرتے ہوئے کوئی لائحہ عمل تیار کیا جاتالیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ کیا اب بھی ہزاروں مظلوم لوگوں کو جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنا پڑے گی،پانی،بسکٹ کے ایک ڈبے،دودھ اور مٹھی بھرخشک چنوں کے لیے اپنی عزت نفس کا جنازہ خود ہی اٹھانا ہوگا؟

Leave a comment