Published On: Mon, Jun 15th, 2015

گڈ گورننس ۔۔۔ریسکیو 1122 تباہی کے دہانے پر

Share This
Tags
Rescue1122 ادارے اچانک یا ایک دن میں تباہ نہیں ہوتے اس میں محنت اور وقت لگانا پڑتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ آج بھی جب ریسکیو 1122 کسی کی جان بچاتے ہیں تو بچ جانے والا پرویز الٰہی کو دعائیں دیتا ہے۔
پہلے 1122 ورکرز کی سالانہ ترقیاں روکی گئی پھر فنڈ میں کٹوتیاں شروع ہوگئیں۔ گاڑیاں پرانی ہونے کے باوجود استعمال ہوتی رہیں ۔ پرانی گاڑیاں ریٹائر کرنے کی بجائے دوسرے شہروں میں بجھوا دی گئیں۔ اور اب یہ حال ہوگیا ہے کہ دھکا لگا کر بھی سٹارٹ کرنی پڑتی ہیں۔ کبھی تیل ختم تو کبھی پانی نہیں ہوتا۔ اور اگر جائے حادثہ پر پہنچ بھی جائیں تو باقی آلات ناکارہ نکتے ہیں اور پھر حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ ریسکیو محمکہ چلانے کیلے عوام سے چندہ و صدقات کی اپیل کرنی پڑی۔ اس سے یہ سمجھا گیا کہ حکومت کے پاس شاید فنڈ کی کمی ہے نہیں نہیں ہر گز نہیں ۔ حکومت کو پتہ ہے لوگ چندہ عبادت سمجھ کر دیتے ہیں اور ریسکیو ادارے کیلے بھی فنڈ حکومتی خزانے سے دینے کی بجائے عوام کی جیب سے نکلوانے کا پلان بنایا گیا۔
نیچے دو تصویریں اکٹھی جوڑ کر لگائی گئی ہیں اور دونوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں سڑک پر چلنے والی گاڑیوں سے متعلق ہیں ۔
حکومت کے پاس فنڈ ہیں یا نہیں اس کا اندازہ دوسری تصویر دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔
ad
دوسری تصویر ایک شہر کی چالیس پچاس کلومیٹر کی ایک سڑک پر چند بسیں چلانے کیلے اربوں روپے کے میگا (مہنگا) پراجیکٹ کی مشہوری پر ہے۔
جب زندگیاں بچانے والے ادارے چندے اور صدقات سے چلانے کی نوبت آجائے جب میو ہسپتال جیسے ادارہ کا سربراہ دل کا دورہ پڑنے پر اپنے ہسپتال کی بجائے پرائیویٹ ہسپتال سے علاج کروانے پر مجبور ہو جائے کہ اس کے اپنے میو ہسپتال کی ECG مشین فنڈ نا ہونے سے خراب پڑی ہے تو میٹرو بس بنانے والوں کی نہیں اس کی تعریف کے پل باندھنے والوں کی عقل کو سلام فرض ہوجاتا ہے۔
اب آخر میں ایک لطیفہ بھی سن لیں۔
ایک بڑھیا نے کسی چھوٹی بچی سے اس کی خواہشات پوچھیں:
بچی بولی ” میں ماں بننا چاہتی ہوں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں شادی کرنا چاہتی ہوں اور بڑی ہونا چاہتی ہوں”
بڑھیا نے کہا بیٹا ” اللہ تمہاری سب خواہشیں پوری کرے مگر اپنی ترتیب سیدھی کرلو۔
فیکٹ رپورٹ

Leave a comment