بول ٹی وی کی معطلی، حکومت کا ایک انتہا ئی غلط فیصلہ
پیمرا کا ایگزیکٹ کے خلاف تحقیقات جاری رہنے تک بول ٹی وی کی نشریات بند رکھنے کا فیصلہ عجیب اور پریشان کن ہے۔یہ بات درست ہے کہ ابتدائی شواہد اور تحقیقات کی روشنی میں ایگزیکٹ کو کئی سوالات کے جوابات دینے ہیں لیکن تحقیقات کوئی باضابطہ قانونی چارج نہیں ہوتا اور ٹرائل کے دوران کسی کو مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایگزیکٹ بڑی قانونی مشکلات کا شکار ہے تاہم بول ایک الگ ادارہ ہے جس کے خلاف کسی قسم کی کارروائی سے قبل یہ بات ثابت ہونی چاہیے کہ اسے فنڈ کرنے والی رقم ناجائز طریقے سے کمائی گئی۔
بظاہر بول کے خلاف کارروائی سے قبل پیمرا کی جانب سے درست طریقہ کار استعمال نہیں کیا گیا۔ نوٹیفیکیشن تو پیمرا نے ہی جاری کیا تاہم یہ کہنا غلط ہوگا کہ اس نے یہ کارروائی آزادانہ طور پر کی تھی۔ وفاقی حکومت پہلے ہی فیصلہ کرچکی تھی کہ بول کو نشر نہیں ہونے دیا جائے گا۔
ایک خودمختار ادارےمیں اس طرح کی مداخلت یقینی طور پر پسندیدہ عمل نہیں۔ ایسے اقدام غلط روایات ڈالتے ہیں، شاید اگلی بار حکومت کی مداخلت کسی سیاسی معاملے یا اپنے مفاد میں بھی ہوسکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایگزیکٹ کے خلاف الزامات سے قطع نظر، بول کا معاملہ ملک میں میڈیا کی آپسی اور بڑھتی ہوئی لڑائی کا حصہ ہے۔ کئی سالوں سے متعدد میڈیا ہاؤسز ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں اور بول کا معاملہ بھی اسی جنگ کا حصہ ہے۔
نیوز رپورٹ کرنے کے بجائے میڈیا کے کچھ حلقے اسے تشکیل دینے میں مصروف ہیں جبکہ مبینہ طور پر نجی طور پر حکومت پر ایگزیکٹ کو ختم کرنے اور بول کو بند کرنے کے لیے دباؤ بھی ڈال رہے ہیں۔
اس مایوس اور پریشان کن صورت حال میں تمام حلقے کچھ نہ کچھ سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ ادارتی اختیار چھن جانے اور مالکان اور صحافیوں کے درمیان دیوار گر جانے سے پہلے ہی میڈیا میں متعدد سانحے ہوچکے ہیں۔
وفاقی حکام ایگزیکٹ کے خلاف سنجیدگی اور بظاہر بغیر کسی مداخلت کے کام کررہے ہیں اور غالباً ایگزیکٹ کے خلاف کوریج بہترین صحافتی اصولوں کے مطابق ہوگی۔ پاکستان کو متحرک اور آزاد میڈیا کی ضرورت ہے۔ اسی میڈیا نے ملک کی تاریخ کے اہم لمحات کے دوران مثبت کردار ادا کیا ہے۔
اب بھی میڈیا میں بہترین صحافی اور اخلاقی مالکان موجود ہیں۔ اگر موقع دیا جائے تو مثبت تبدیلی جلدی آسکتی ہے۔