میں ہوں عاصمہ شیرازی صحافت پیشہ نہیں،ایک شوق ہے
میں نے اپنے صحافی سفر کا آغاز اس وقت کیا، جب کالج میں پڑھ رہی تھی ۔ اس وقت میں ایف ایم ریڈیو اور ریڈیو پاکستان کے شعبہ حالات حاضرہ کے پروگراموں میں میزبان کے طور پر کام کرتی تھی۔ مجھے ’’پی ٹی وی نیوز‘‘ میں رپورٹر/پروڈیوسر کی حیثیت سے 2001ء میں کام کرنے کا موقع ملا اور 2002ء میں ایک نئے نجی چینل ’’جیونیوز‘‘ کی بنیاد رکھنے والی ٹیم کی رکن بنی۔ میں نے پارلیمینٹ، وفاقی کابینہ، الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کی کوریج کی اور اور مجھے پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کے لیے پارلیمینٹ کی کوریج کرنے والی پہلی خاتون نمائندہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بڑی قومی اور عالمی خبروں کی کوریج کے ساتھ ساتھ میں نے پاکستان کے صدر اور وزرائے اعظم سمیت کئی معروف عالمی رہنماؤں کے انٹرویوز بھی کیے۔ میں نے محاذ پر جاکر لبنان، اسرائیل جنگ کی کوریج کی اور جنگ سے تباہ ہونے والے لبنانی علاقوں سے لائیوپروگرام کیے۔ حزب اللہ کے کمانڈروں اور لبنان کے صدر ایمل لہوو سے انٹرویز لئے۔ بحرانوں کی میری کوریج میں پاکستان میں آنے والا 2005ء کا زلزلہ بھی شامل ہے۔ میں نے بالا کوٹ شہر سے زلزلے کی تباہ کاریوں سے پیدا شدہ صورت حال کے بارے میں 12 روز تک متواتر رپورٹنگ کی۔
جب سابق صدر جنرل پرویزمشرف نے ہنگامی حالت نافذ کی تو میں ان پانچ ٹیلی ویژن میزبانوں میں شامل تھی، جنہیں جنرل مشرف کے حکم پر اسکرین پر آنے سے روک دیا گیا تھا۔ میں نے 2010ء میں ایک عوامی شو ’’فیصلہ آپ کا‘‘ کے نام سے شروع کیا۔ پروگرام پاکستان کی سڑکوں، گلیوں اور بازاروں سے لائیو پیش کیا جاتا تھا اور اس میں حکام کو ان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے موقع پر ہی جوابدہ ہونا پڑتا تھا۔ اس کے بعد میں نے 2012ء میں ایک پرائم ٹائم پروگرام ’’فیصلہ عوام کا‘‘ کے نام سے شروع کیا۔ مجھے پاکستان کے تقریباً سبھی معروف نیوز چینلز میں رپورٹر ، اینکرپرسن اور تجزیہ کار کے طور پر کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا اور ان دنوں بھی ایک میڈیا گروپ کے ساتھ منسلک ہوں۔
جیساکہ میرے کیریئر سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحافت میرا شوق ہے ۔ میں نہ صرف سوالات کرتی ہوں بلکہ میں ان لوگوں کی آواز بھی آگے پہنچاتی ہوں ، جو پالیسیوں پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ میں سچ کی تلاش میں ملکی اور عالمی سطح پر خود کو منوانا چاہتی ہوں۔ میں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کچھ بہتر کرنا چاہتی ہوں۔ میری یہ بھی خواہش ہے کہ میں اس حقیقت کا پرچار کروں کہ خواتین ذرائع ابلاغ میں مشعل راہ (Role Model) ہیں اور کسی بھی دوسرے شعبے کی طرح خواتین تمام مشکلات پر قابو پاکر یہ ثابت کرسکتی ہیں کہ وہ ناقابل شکست ہیں۔
مجھے اپنے کام کی وجہ سے عالمی سطح پر پذیرائی ملی ہے۔ مثال کے طور پر میں پہلی پاکستانی خاتون صحافی ہوں ، جسے 2014ء کا ’’پٹیرمیکلر ایوارڈ برائے جرأت مندانہ و اخلاقی صحافت‘‘ (The Peter Mackler Award for Courageous & Ethical) ملا۔
باوجود مجھے ایک خاتون ہونے کے ناتے ذرائع ابلاغ میں اس قدر کامیابیاں سمیٹنے کے لیے ایک طویل سفر طے کرنا پڑا ہے اور یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ ابھی مجھے مزید آگے جانا ہے۔ کسی بھی شخص کے دل میں ’’سی این این‘‘ کی کرسٹین امان پور کی طرح عالمی سطح پر پہچان بنانے کی خواہش کروٹیں لے سکتی ہے لیکن اس کے لئے سخت محنت، لگن اور صحافیوں کے لیے حوصلہ افزا ماحول درکار ہوگا۔
پاکستان میں طالبان، فرقہ وارانہ تنظیموں اور دہشت گرد گروپوں کے نمودار ہونے کی وجہ سے صحافیوں کے لیے آزادی سے کام کرنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی دباؤ، اداروں کی سطح پر موزوں تربیت اور حمایت کے فقدان کی وجہ سے ضروری چھان بین کرنے اور صحافتی اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھنے کے حوالوں سے ہماری اہلیت اور زیادہ محدود ہوچکی ہے۔
پاکستان میں صحافت کو مسلسل بہت سے اطراف سے حملوں کا سامنا ہے۔ یہ نہ صرف خطرات سے پر ایک کام ہے بلکہ یہ ایک طرز زندگی کا نام ہے۔ اسے ایک پیشہ نہیں بلکہ شوق کہا جائے تو بجا ہوگا۔ جو خواتین صحافت کے متنوع خطرات سے نبردآزما ہونے کے لیے تیار ہوں، وہ اس شعبے میں کامیاب ہوسکتی ہیں کیونکہ اس کی گنجائش موجود ہے۔ انہیں صرف اعتمد اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ پھر وہ یہ ثابت کرسکتی ہیں کہ اپنے عزم و ہمت اور لگن میں کسی سے کم نہیں۔
فیکٹ رپورٹ