میں نے خود کش بمباروں کی تربیت گاہ میں کیا دیکھا؟
یہ سرائی درپہ خیل کے اندر ایک چھوٹی گلی کے آخری سرے پر موجود عمارتوں میں سے ایک تھی۔گلی کے باہر موجود ایک گارڈ نے ہمیں بتایا کہ ‘پہلے ہم سیدھا جائیں پھر بائیں جانب ایک دروازہ آئے گا۔لیکن اس رہنمائی کے باوجود ہمیں بجلی کے ایک ٹرانسفارمر اور ایک بھاری بھرکم جنریٹر کی مخالف سمت میں وہ آہنی دروازہ ڈھونڈنے میں مشکل پیش آئی۔
خود کش بمباروں کی اس تربیت گاہ یا مرکز کے بارے میں صرف اطراف میں رہنے والوں کو معلوم تھا جبکہ کسی اجنبی کے لیے یہ عمارت غیر معمولی نہیں تھی۔
عمارت کے اندر داخل ہوں تو ایک صحن اور بڑے ستون نظر آتے ہیں۔ یہاں قالین بچھے ہوئے تھے جبکہ ایک طرف بستروں کا ڈھیر تھا۔ ایک زینہ ہلکے کریم اور بھورے رنگ کی بالائی منزل کو جا رہا تھا۔
ایک دیوار پر چسپاں سفید بینر پر کلمہ اور امارات اسلامیہ افغانستان تحریر تھا۔
مقامی افراد اب بتاتے ہیں کہ یہ سرائی درپہ خیل میں حقانی نیٹ ورک کے پانچ ایسے مراکز میں سے ایک ہے، جہاں ممکنہ خود کش بمبار یا استشایدی آتے تھے۔ ان کی اکثریت افغان اور محسود قبیلے سے تھی لیکن اورکزئی اور مہمند سے بھی لڑکے یہاں آتے رہتے تھے۔
ان لڑکوں کی تربیت اور ان کے ذہنوں اور سوچ کو بدلنے والے اساتذہ اور مرکز چلانے والے خال ہی اس عمارت کے آہنی دروازے سے باہر دیکھے جاتے۔
سرائی درپہ خیل میں کسی کو نہیں معلوم تھا کہ یہ لوگ کون ہیں، ماسوائے اس کے کہ یہ خود کش بمباروں کی تربیت گاہ ہے۔
حتی کہ ‘شہادت’ کے لیے مرکز میں لائے جانے والوں کو بھی دو مہینے کی لازمی رہائش کے بغیر یہاں سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔
داخل ہونے والے تمام ‘استشاہدیوں ‘ کے لیے ایک حلف نامہ پْر کرنا لازمی تھا۔
حلف نامے پر استشہادی کی رنگین تصویر، نام، فرضی نام، والد کا نام، عمر، پتہ، تعلیم، ذاتی فون نمبر، اہل خانہ کا فون نمبر، خاندانی پیشہ، دوستوں اور ساتھیوں کے نام، والد کی ماضی اور موجودہ سیاسی وابستگیوں کی تفصیلات، اہل خانہ کی تعداد اور ان کی ماہانہ آمدنی اور عسکری سرگرمیوں کا تجربہ پوچھا جاتا تھا۔
استشادی ساتھیوں کو اپنی زندگی سات سخت اصولوں کے تحت گزارنا لازمی تھی۔
حلف نامے کے تحت انہیں موبائل فون کے استعمال کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی اس کا استعمال ضروری سمجھا جاتا تھا۔
اسی طرح، یہاں داخل ہونے والوں کو دو مہینوں تک باہر جانے کی اجازت نہیں تھی، اگر جانا ضروری ہو تو اس کی پیشگی اجازت لازمی تھی۔
انہیں دوسرے ‘ فدائی بھائیوں’ کے علاوہ کسی سے دوستی کرنا منع تھا۔
اسے اپنی ذاتی استعمال کی چیزیں مرکز کے نگران کو دینا لازمی ہے اور اگر اسے کوئی ضرورت ہے تو وہ نگران سے رابطہ کرے گا۔
مقامی افراد کے مطابق، ان سب چیزوں کے علاوہ مرکز میں عبادت، روحانی اور مذہبی تربیت، کھانا پکانے کے حوالے سے سختی برتی جاتی تھی۔
ایک مقامی شخص نے بتایا کہ جب وہ اپنے بیٹے کا اتا پتہ پوچھیو مرکز آئے تو منتظم نے انہیں واپس بھیج دیا لیکن آخر کار ادھر ادھر رابطے کرنے پر مرکز نے ہچکچاتے ہوئے لڑکے کو جانے دیا۔
سرائی درپہ خیل سے کچھ دور مرکزی میران شاہ بازار آئیں تو ایک دو منزلہ عمارت نظر آتی ہے۔ یہ کبھی لڑکیوں کا سرکاری سکول ہوا کرتا تھا۔جب شدت پسند یہاں پہلی مرتبہ آئے اور انہوں نے سکولوں کو بموں کے ذریعے تباہ کرنا شروع کیا تو اس سکول کو خالی کرنا پڑا۔ بعد میں ہر طرح کے جنگجوؤں نے اس عمارت پر قبضہ کرتے ہوئے اسیتربیت گاہ اور لڑائی یا ڈرون حملوں میں مارے جانے والوں کی لاشیں رکھنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔کچھ عرصے بعد اس سکول کی 450 سے 500 لڑکیوں کو تعلیم جاری رکھنے کے غرض سے میران شاہ کے فوجی کنٹونمنٹ میں واقع ایک ڈگری کالج بھیج دیا گیا۔ حیران کن طور پر عسکریت پسندوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔
اقبال جہانگیر