سیاسی جماعتوں کے ٹی وی چینل، پاکستانی میڈیا برائے فروخت
ٹی وی چینلز کی بہتات نے اگرچہ لوگوں کو عمدہ تفریح کے مواقع فراہم کئے ہیں اورناظرین کو 24گھنٹے فوری خبربریکنگ نیوز کی شکل میں حالات سے فوری آگاہ بھی کیا جا رہا ہے لیکن پیشہ ورانہ اخلاقیات کی پیروی نہ کرنے کے باعث نیوز چینلز دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے بس چند ہی گھنٹوں میں انقلاب کا اعلان ہونے والا ہے اور عوام کو نیا پاکستان دیکھنے کو مل جائے گا۔گزشتہ دنوں چینلز پر عمران خان کی پریس کانفرنس اور وزیراعظم کا قوم سے خطاب دیکھنے کے بعدسے ذہن عبا کشمکش میں مبتلا ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔انقلابی مارچ کے اعلان کے بعد سے ہر چینل پر تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کے تبصرے جاری ہیں،ہر چینل اس انقلاب اور وزیر اعظم کی پریس کانفرنس اور قوم سے خطاب کے مختلف معنی اور مطالب پیش کررہا ہے،یو ں محسوس ہونے لگا ہے کہ تمام سیاسی فیصلے ٹی وی چینلز کے ذریعے سے ہو رہے ہوں۔ان چینلز سے وابستہ تجزیہ نگار اور تبصرہ نگار حکومت اور حزب اختلاف کے حق اور مخالفت میں تبصرے اور تجزیہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں مسئلہ بس ناظرین کا ہے جو یہ دیکھ کر مزید انتشار خیالی (Confusion) کا شکار ہورہے ہیں۔
انسانی حقوق کی پامالی، ریاستی جبر، شدت پسندی اور خواتین کو درپیش مسائل جیسے بہت سے ایسے موضوعات ہیں جن کی نشاندہی کرکے مثبت تبدیلی اور بہتری لائی جا سکتی ہے لیکن ریاستی سنسر کے باعث بلوچستان ، اقلیتوں کے خلاف جرائم اور شدت پسند گروہوں کی سرگرمیوں جیسے مسائل کی بجائیغیر اہم موضوعات کو اہم بنانا چینلز کا مشغلہ بن چکا ہے۔
چینلز کی بہتات سے عوامی رہنمائی اور شعور و آگہی میں اضافہ کی جو امید تھی اس کے برعکس آج چینلز نے ہمارے ذہنوں کو منقسم اور منتشرکررکھاہے۔ ان چینلزکے براہ راست مباحثوں (Live Talk Shows) میں قومی سیاستدان ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے اور بدکلامی میں مصروف نظر آتے ہیں اور اینکر حضرات انہیں مزید اشتعال دلانے کے لئے ایسے سوالات کئے جاتے ہیں جو مزید اشتعال دلانے کا باعث بنتے ہیں۔جب چینلز اور معلومات تک رسائی کے ذرائع کم تھے تب لوگوں میں برداشت اور رواداری پر مبنی ثقافت زندہ تھی لیکن ذرائع ابلاغ کے ذریعہ معلومات کے تیز تر پھیلاو کے اس دور میں ہماری مثبت تہذیبی اقدار عدم برداشت اور تشدد جیسے منفی اور تخریبی رجحانات میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ اگر میڈیا چینلز کو پاکستان کے مسائل اجاگر کرنے ہوں تو انسانی حقوق کی پامالی، ریاستی جبر، شدت پسندی اور خواتین کو درپیش مسائل جیسے بہت سے ایسیموضوعات ہیں جن کی نشاندہی کرکے مثبت تبدیلی اور بہتری لائی جا سکتی ہے لیکن ریاستی سنسر کے باعث بلوچستان ، اقلیتوں کے خلاف جرائم اور شدت پسند گروہوں کی سرگرمیوں جیسے مسائل کی بجائیغیر اہم موضوعات کو اہم بنانا چینلز کا مشغلہ بن چکا ہے،جس کی بڑی وجہ میڈیا مالکان کا کاروباری رویہ ہے جنہیں اپنے کاروبار کو وسعت دینی ہے۔ٹی وی چینلز کی نشریات کے معیار کا جائزہ لینے پر محسوس ہوتا ہے جیسے ذرائع ابلاغ کا انتظام کاروباری حضرات کے ہاتھوں میں ہے جوصحافتی اقدار اور پیشہ ورانہ اخلاقیات سے محروم ہیں اور ان چینلز کو تجارتی اصولوں پر چلا رہے ہیں۔ میڈیا مالکان کے ساتھ ساتھ بعض زرد صحافی پریس کارڈ کو آمدنی کا ذریعہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ٹی وی چینلز کے اس رویہ کے پاکستانی معاشرہ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا البتہ موجودہ زمانے میں اسکے اثرات کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔سیاسی جماعتوں، کاروباری حلقوں اور صحافیوں کے اس گٹھ جوڑ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک معروف صحافی کو حکومت کی جانب سے پی سی بی کی سربراہی بخش دی جاتی ہے، سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لئے کروڑوں اربوں کے اشتہارات سرکاری خزانے سے چینلز کو بخشے جاتے ہیں۔ کچھ سیاسی جماعتیں بھی اپنے مخصوص سیاسی ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لئے اشتہارات کے ذریعے چینل مالکان کے کاروبار کو مزید توانائی بخشنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ مخصوص سیاسی جماعتوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے پہلے سے طے شدہ پروگرامز کے چلن کے باعث انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو جتوانے میں چینلز کاکردار اہم ہو گیا ہے۔ غیر جانبداریت اور معروضیت کے فقدان کے باعث ٹی وی چینل سیاسی جماعتوں کے سیاسی چینل بن چکے ہیں۔
شبیر رخسانی