Published On: Thu, Aug 28th, 2014

ایروم شرمیلا، آندھی میں چراغ کی مثال، ڈیڑھ دہائی سے بھوک ہڑتال جاری

Share This
Tags
بھارت میں ایک دو سال نہیں پوری ڈیڑھ دبائی سے ایک خاتون بھوک ہڑتال پر ہے۔ بھارتی حکومت کی پابندی زمانے کی نصیحت اور حالات کی سختی کوئی بھی اس کے حوصلوں کی پست اور ارادوں کو تبدیل نہیں کر سکا۔ اب تو عدالت نے بھی کہہ دیا کہ ایروم شرمیلا کی بھوک ہڑتال غیر قانونی نہیں ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ جس واقعے کے بعد شرمیلا بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہیں اس میں ان کے گھر کا کوئی بھی فرد ہلاک نہیں ہوا ،وہ صرف اپنی ریاست کے عوام کے لئے تن تنہا اپنی جا ن جو کھم میں ڈالے ہو ئے ہیں ۔ایروم کی کہانی سن کر معلوم ہوتا ہے، تن من دھن کی لئے تن تنہا اپنی جان جو کھم میں ڈالے ہوئے ہیں۔ ایروم کی کہانی سن کر معلوم ہوتا ہے کہ تن من دھن کی قربانی کسے کہتے ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کا ہی یہ واقعہ ہے کہ ایک خاتون گزشتہ ۱۴ سال سے بھوک ہڑتال پر ہے۔ دنیاکی طویل ترین بھوک ہڑتال کرنے والی اس خاتون کے مطالبات کو تسلیم کر نے کے بجائے حکومت نے اسے قید کر رکھا ہے۔قید کرنے کا جواز بلکہ بہانہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ ایروم شرمیلا کو زندہ رکھنے کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے اور اپنے اس بہانے کو تقویت د ینے کے لئے حکومت نے ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کر رکھا ہے۔ان پر یہ الزام عائد ہے کہ وہ خودکشی کی کوشش کر رہی ہیں اور خودکشی کرنا جرم ہے۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ جس حکومت کی نظر میں ایک خاتون کا بھوک ہڑتال کرنا جرم ہے ،وہ کیسے مر سکتی ہے، اسی حکومت کی نظر میں فوج کا بے iromگناہ لوگوں کو گولیوں سے بھون دینا کوئی جرم نہیں ہے۔
ایروم شرمیلا کی کہانی اس طرح شروع ہوئی کہ حکومت ہند نے دہشت گردی کا شکار ریاستوں میں ایک قانون نافذ کر رکھا ہے،آرمڈفورس اسپیشل پاور ایکٹ جسے افسپا بھی کہتے ہیں ۔اس قانون کی رو سے ان ریاستوں میں تعینات مسلح فوجی اگر کسی کو گولی مار کر ہلاک کر دے تو اس کے خلاف کو ئی انکوائری نہیں کی جا سکتی ۔مقدمہ چلانا اور سزا دینا تو بہت دور کی بات ہے۔
یہی قانون کشمیر میں نافذ ہے اور مٹی پور میں بھی فوج کا احترام اپنی جگہ لیکن فوج میں فرشتے کام نہیں کرتے انسان ہی کام کرتے ہیں اور ہندوستان میں تو کسی شعبے میں سیاسی دباؤ سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اس قانون کا غلط استعمال ہونا ہی تھا اور یقیناًہوا۔ کشمیر میں ایک عرصے سے لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس قانون کو ختم کیا جائے۔
2000ء میں فوج کے ہاتھوں منی پور میں 14 مسافر کاایک ساتھ قتل ہوا جس کے بارے میں لوگون کا کہنا تھا کہ یہ تمام بے گناہ تھے۔ فوج نے انہیں بلاوجہ قتل کیا ہے۔ ان 14 لوگوں مین ایک 62 سالہ بزرگ شخص بھی تھا۔ حکومت نے معاملے کی تحقیقات سے انکار کر دیا کیونکہ ایسا کرنا اے ایف ایس پی اے کے خلا ف تھا۔ اس قانون سے عوام پہلے ہی ناراض تھے۔ سماجی کارکنان اس کے خلاف آواز اٹھاتے رہے تھے۔، اس واقعے نے احتجاج کو اور ہوا دی۔ جب حکومت کسی طرح ٹس سے مس نہ ہوئی تو ایروم شرمیلا جو ایک سماجی کارکن تھیں اور اس سے پہلے بھی کئی مظاہروں میں حصہ لے چکی تھیں، جمہوریت میں عوام کے سب سے کارگر ہتھیار کا استعمال کرنے پر آمادہ ہو گئیں۔انہوں نے بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ جب کبھی حکومت دہشت گردی کے خلاف کوئی قانون بناتی ہے تو اس کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز سے ملک دشمن نظر آتی ہے۔ اس بات کا کوئی سوال ہی نہیں تھا کہ حکومت اے ایف ایس پی اے قانون واپس لے لیتی۔
لیکن وہ ایروم شرمیلا کو یوں مرنے ے لیے چھوڑ بھی نہیں سکتی تھی ورنہ اسے قانونی طور پر عدالت کو جواب دینا پڑتا۔ اس کے علاوہ اگر شرمیلا کو کچھ ہو جاتا تو ریاست میں حکومت کے خلاف ناراضگی اور شدت اختیار کر جاتی اور ممکن تھا کہ یہ ناراضگی ملک گیر صورت اختیار کر لیتی۔ لہٰذا حکومت نے شرمیلا کو خود کشی کی کوشش کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ انہیں گرفتار کر کے اسپتال میں رکھا گیا۔ جہاں ٹیوب کے ذریعے ناک کے راستے جبراً غذا نہیں پہنچائی جاتی رہی۔ انسان اسپتال میں ہو یا جیل میں لوگوں کو اس سے ملاقات کا حق حاصل ہے۔ مگر شرمیلا کو اس حق سے بھی محروم رکھا گیا۔ حکومت نے ان سے ملاقات کے لیے داخلہ سیکرٹریٹ کے اجازت نامے کو ضروری قرار دیا۔ معاملہ عدالت میں پہنچا۔ سوال یہ ہے کہ اگر عام آدمی پارٹی شرمیلا کو ٹکٹ دینا چاہتی تھی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے ایماندار سمجھتی ہے اور وہ عوام میں مقبول بھی پھر وہ اسی کے موقف کی تائید کیوں نہیں کرتی؟
شرمیلا کی اس خاموش جنگ نے اتنا طول کھینچا کہ ان کا نام سب سے طویل بھوک ہڑتال کرنے کے باعث گنیز بک ورلڈ ریکارڈ میں درج کیا گیا۔ (ہندوستان میں مظلومیت کے بھی ریکارڈ بنتے ہیں) لیکن ’’دھونی نے بال کٹوائے‘‘ جیسی خبر کو بریکنگ نیوز بنانے والا میڈیا اس سے غافل رہا۔ ایشو ریہ رائے نے اپنے سسر (امیتابھ بچن) کے پیر چھوئے، اس کو خبر کا درجہ دینے والے نیوز چینل نے کبھی شرمیلا تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ کشمیر ہو یا منی پور یا پھر دہشت گردی سے متاثر کوئی اور ریاست ٹی وی پر جب کبھی مباحثہ ہو تو اس میں حکومت کے نمائندے، ان ریاستوں کے سیاسی لیڈر جو کسی نہ کسی پارٹی سے وابستہ ہوتے ہیں اور ماہرین کے نام پر ریٹائرڈ فوجی افسران شریک ہوتے ہیں جو کبھی زمین پر نہیں اترتے۔ وہاں کے عوام کی اس میں کوئی حصے داری نہیں ہوتی۔
حالانکہ ہر خبر کے پس منظر میں کسی کہانی کو تلاش کرنے والے میڈیا کے لیے ایروم شرمیلا کی زندگی کے ہر صفحے پر ایک الگ کہانی موجود تھی لیکن میڈیا نے اس سے بھی بے اعتنائی برتی۔ جس زمانے میں انہوں نے بھوک ہڑتال شروع کی تھی اس وقت ان کی عمر 28 سال تھی اور ان کا ایک برطانوی نوجوان سے معاشقہ چل رہا تھا۔ دونوں شادی کرنے والے تھے۔ لیکن شرمیلا کی بھوک ہڑتال نے اس قدر طول کھینچا کہ انہیں شادی کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ یہ محبت آج بھی قائم ہے اور دونوں آج بھی شادی کرناچاہتے ہیں لیکن شرمیلا کی لڑائی کے سبب آج بھی ممکن نہیں ہے۔ دل کو چھولینے والی محبت کی یہ داستان کسی فلمی کہانی سے کم نہیں ہے جو دنیا کی نظروں سے آج بھی اوجھل ہے۔
19اگست کو امپھال کی ایک عدالت نے ایروم شرمیلا گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں فوراً رہا کرنے کے لیے کہا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ انہیں بھوک ہڑتال کا حق حاصل ہے۔ شرمیلا کو رہا کر دیا گیا لیکن 22 اگست کو د وبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ ایک بار پھر ان پر یہی الزام ہے کہ وہ خودکشی کی کوشش کر رہی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر عدالت نے یہ کہہ دیا ہے کہ ان کی گرفتار غیر قانونی ہے اور انہیں بھوک ہڑتال کا حق ہے تو پھر انہیں خودکشی کرنے کی کوشش کے الزام میں کیسے گرفتار کیا جا سکتا ہے؟ لیکن پولیس نے انہیں قانونی کارووائی کے بعد گرفتار کیا ہے۔ یعنی یہ معاملہ ایک بار پھر عدالت میں زیر بحث ہو گا۔
ان کی اس رہائی اور گرفتاری کے سبب منی پور کے لوگوں میں قانون سے امیدیں اور حکومت سے ناراضگی بڑھ گئی ہے۔ یہ بھی امید ہے کہ اب معاملہ فیصلہ کن موڑ پرآئے گا اور اگر عدالت نے ان کی بھوک ہڑتال کو غیر قانونی قرار دیا تو قانونی طور پر ان کی بھوک ہڑتال ختم کروانی ہو گی لیکن جہاں تک قانون کا سوال ہے کسی مطالبے پر بھوک ہڑتال کرنا کسی بھی صورت میں غیر قانونی نہیں ہے۔ شرمیلا تو ایک عام شہری ہیں۔ خود دہشت گردی کے الزام میں قید ملزموں کی بھوک ہڑتال کو بھی کسی عدالت نے کبھی غیر قانونی نہیں کہا۔

 

Leave a comment