وزیر داخلہ بمقابلہ تبلیغی جماعت
وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک کے تبلیغی مرکز رائے ونڈ کو دہشت گردی کا مرکز قرار دینے پر موصوف کی شر انگیزی ایک مرتبہ پھر بے نقاب ہوگئی۔ لندن میں آئی آئی ایس ایس میں ’’جنوبی ایشیاء میں انتہا پسندی کے انسداد‘‘ پر انہوں نے ہرزہ سرائی کرتے ہو ئے کہا کہ ’’رائے ونڈ کا تبلیغی مرکز انتہا پسندی کی پرورش گاہ ہے۔ پاکستان میں گرفتار کیے جانے والے تمام انتہا پسندوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ وہ تبلیغی مرکز جاتے تھی، ان کے قریبی عزیزوں نے افغان جہاد میں حصہ لیا اور انہوں نے پاکستان میں 25 ہزار اسلامی مدرسوں میں سے کسی ایک میں تعلیم حاصل کی۔‘‘ عبدالرحمن ملک نجی سیکورٹی تھنک ٹینک کی دعوت پر نجی دورے پر لندن گئے لیکن موصوف گزشتہ ایک صدی سے جاری دعوت و تبلیغ کی تحریک کے متعلق اچھے الفاظ کہنے یا دنیا بھر میں اصلاحی کام جاری رکھنے پر انہیں سراہنے کے بجائے اْلٹا برس پڑے۔ کراچی میں جاری قتل و غارت گری کو 70 فیصد شوہر بیوی، محب و محبوب کے اختلافات کا شاخسانہ قرار دینا بھی ان ہی کو زیب دیتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انہیں کراچی میں دہشت گردی، لاقانونیت و بربریت، بدامنی، ماورائے عدالت قتل اور ٹارگٹ کلنگ میں بہتا ہوا بے گناہوں کا لہو نظر نہیں آرہا؟ کیا کبھی انہوں نے اس کھیل کے ’’اصل کھلاڑیوں‘‘ کو بھی دہشت گرد کہنے کی جرأت کی ہی؟ کیا صوبہ سندھ اور کراچی ان کی ماتحتی میں شامل نہیں؟ کیا انہوں نے یہاں امن قائم کردیا؟ کیا یہاں کے لوگ خوف و ہراس کی فضا میں سانس لینے پر مجبور نہیں؟ یا سیاسی مفاہمت کے نام پر اقتدار کے مزے لینے کے لیے عبدالرحمن ملک نے غیر اعلانیہ طور پر دہشت گردوں کے لیے شہریوں کا خون بہانا جائز قرار دے دیا ہی؟ وفاقی وزیر داخلہ نے اسی خطاب کے بعد ایم کیو ایم کے حوالے سے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہاں الطاف حسین سے ملاقات نہیں کی، کیونکہ انہیں اس کی ہدایت نہیں دی تھی، سوال یہ ہے کہ جب وہ کسی سیاسی رہنما سے ہدایت ملے بغیر ملاقات نہیں کرسکتے۔ تو پھر رائے ونڈ کے تبلیغی مرکز کے خلاف اتنا غیر ذمہ دارانہ بیان دینے پر موصوف کو کس نے ہدایت کی؟ کیا یہ عالمی طاقتوں کے اسلام دشمن ایجنڈے کا حصہ ہی؟ کیا یہ غیروں کی آشیر واد حاصل کرنے کی کوئی کوشش تو نہیں؟ کیا اس اقدام سے یہ نہ سمجھا جائے کہ وزیر داخلہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ دوسروں کے سر ڈالنے کے لیے یہ سب کچھ کررہے ہیں؟ افسوس کہ سیاسی مصلحتوں کی آڑ میں حکمرانی کرنے والوں نے اس قسم کے منفی پروپیگنڈوں سے اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن وزیر داخلہ یاد رکھیں! کہ پاکستان کے 17 کروڑ عوام میں ابھی دینی غیرت باقی ہے اور وہ سروں پر کفن باندھ کر بھی اپنے اس مرکز کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ قومی سلامتی کے بارے میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے مذکورہ بیان پر آئندہ اجلاس میں وزیر داخلہ سے وضاحت طلب کرلی ہی، جبکہ علماء کرام سمیت سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے عبدالرحمن ملک کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ ’’رائے ونڈ تبلیغی مرکز کی طرف کوئی میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ کری، اس کے دفاع کے لیے ہم اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیں گے کیونکہ تبلیغی مراکز اسلام کے مراکز ہیں ان کا دفاع کرنا ہمارا فرض ہے۔‘‘ وفاق المدارس کے رہنماوں نے وزیر داخلہ کے بیان کو انتہائی غیر ذمہ دارانہ، غیر دانشمندانہ اور حقائق کے خلاف قرار دیتے ہوئے صدر، وزیراعظم سے اس بیان کا فوری نوٹس لینے کی اپیل کی۔ جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ وزیر داخلہ کو خانہ کعبہ میں بھی دہشت گرد نظر آتے ہیں۔ جے یو آئی ف کے قائد مولانا فضل الرحمن نے بھی شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دینی مدارس اور تبلیغی جماعت کے حوالے سے حکومت کے عزائم اچھے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ پھر سازشوں کا آغاز کیا جارہا ہی، لیکن جے یو آئی پارلیمنٹ کے اندر او رباہر ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی۔ تبلیغی جماعتیں اپنے مشن اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کے لیے دنیا بھر کا سفر کرتی ہیں، یہ جماعتیں امریکا، یورپ اور روس میں بھی دعوت و تبلیغ کا کام کرتی ہیں لیکن کبھی کسی ملک کی حکومت نے اس جماعت کے ارکان کی سرگرمیوں کو منفی قرار نہیں دیا اور نہ ہی ان جماعتوں کی اپنے ملکوں میں آمد پر کبھی پابندی لگائی۔۔۔ اس جماعت کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کبھی اپنے اجتماعات کے لیے اشتہاری مہم نہیں چلاتی، کبھی میڈیا سے مدد نہیں لیتی اور نہ ہی کبھی بیان بازی میں حصہ لیتی ہی، لیکن اس کے باوجود ان کے اجتماع میں بلامبالغہ لاکھوں افراد جوش و خروش سے شرکت کرتے ہیں، اجتماع میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے لوگ جوق در جوق آتے ہیں اور پھر پْر امن طور پر منتشر ہوجاتے ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں ہر سال ان کے اجتماعات ہوتے ہیں لیکن آج تک کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا، ماضی میں ملک کے صدر، وزرائے اعظم، گورنر اور وزرائے اعلیٰ سمیت اعلیٰ سویلین و فوجی افسران رائے ونڈ کے اجتماعات میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ پاک فوج کے کئی تھری اسٹار جنرل دوران سروس اجتماعات میں عملی طور پر حصہ لیتے رہے ہیں۔ یہ جماعت جو دنیا بھر میں دین اسلام تبلیغ و اشاعت کا کام کررہی ہے اس پر کسی نے آج تک کبھی انگلی نہیں اٹھائی لیکن عبدالرحمن ملک نے اس کے مرکز کو دہشت گردی کی آماجگاہ قرار دے کر اسلام دشمن قوتوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ عبدالرحمن ملک اب لاکھ کہیں کہ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا لیکن یہ ان سیاست دانوں کا روایتی طرز عمل ہے کہ کسی بھی بات سے مکرنے کے لیے یہ لوگ یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اگر اس جماعت کا ہیڈ کوارٹر انتہا پسندوں کا مرکز ہے تو وزیر داخلہ صاحب! پھر اسی جماعت کے رہنما کراچی میں امن و امان کی انتہائی خراب صورت حال کی روک تھام کے لیے کردار ادا کرنے پر کیوں راضی ہوئی؟ وہ صرف اسی مقصد کے لیے کیوں کراچی آئی، شہر قائد میں جاری دہشت گردی کے خاتمے اور عوام میں محبت و بھائی چارے کی فضا قائم کرنے کے لیے علماء کرام ہی میدان عمل میں ہیں۔ جامعہ بنوریہ کے مہتمم مفتی محمد نعیم کی دعوت پر دعوت و تبلیغ کی عالمگیر تحریک سے وابستہ معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کراچی پہنچ چکے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ صاحب! اگر یہ دہشت گردوں کی سربراہی کرتے توکیا قیام امن کے لیے اس طرح کے اقدامات کرتی؟ عبدالرحمن ملک صاحب نے اپنے بیان میں کیے جانے والے دعوے کا حسب سابق کوئی ثبوت پیش کیا اور نہ ہی دلائل سے کام لیا۔ وزیر موصوف سے ہماری گزارش ہے کہ اس قسم کی بیان بازی سے پہلے وہ اپنے گریبان میں جھانکیں تو سہی۔۔۔! وفاقی وزیر داخلہ پہلے تو دہشت گردی کی ہر واردات کو طالبان اورکالعدم لشکر جھنگوی کے ذمہ لگاکر اپنے فرائض سے بری الذمہ ہوجایا کرتے تھے لیکن جب سے ان کے آقا امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی خبریں آنا شروع ہوئی ہیں اور کالعدم لشکر جھنگوی کے ملک اسحٰق کو عدالت نے رہاکیا ہے تو ملک صاحب نے اب طالبان اور لشکر کے خلاف بیان بازی بند کردی ہے ہماری دعا ہے کہ اللہ ملک صاحب کو ایک سہ روزہ لگانے کی توفیق دے۔ اس سے انہیں دو فائدے حاصل ہو ں گے ایک، تبلیغی جماعت کے متعلق صحیح معلومات مل سکیں گی اور دوسری، انہیں سورہ اخلاص یاد ہو جائے گی۔
aisa wazeer e dakhla ko phansi pur lutka dana chahya. bad security responsible. Mr. Rahman Malik. maian agar PM bana to tum pur case chulwa kur phansi lagwaoon ga. inshallah.
Mustafa
Rahman Malak is English boy. agar Rahman malak k ghar may koi Bachaa Peda ho jaye tu wo kahay ga, “is may be Dehshat Gardoo ka Haath hay” hehehe hheheheh
in main in logo ki be qosoor hain jo malak jasi logo ko vote deten hain.
unko Rehman malak ki nam si nahee bulana chahye,ye aik pak nam hay.
unki chehri si, bayan si, aur andaz si, ye zahir hota hay kih ye khud dishat gardee main mulawis hay.
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
کوئی نہیں ہے جو اس شیطان کو عملا بتائے کہ دہشت کون ہے؟؟
ریمنڈ دیوس یہاں کیا کر رہا تھا۔؟ وہ تیرا کیا لگ رہا تھا ؟ اسے کیوں چھوڑا؟
۔
یہ بھی حقیحت ہے کہ اگر ان لوگوں کا راستہ نہیں روکوگے تو وہ مسلط ہی رہیں گے اب تو تقریبا فرض
ہو گیا ہے کہ سیاست میں آکر ان گندوں کا راستہ روکا جائے۔
اٹھو کہ یہی وقت کا فرمان جلی ہے۔
Ager wazir nay such bola tu logo ko takleef ku hoti such sat