آئی ایس آئی کے اغوا ہونے والے اعلیٰ افسر کی اچانک رہائی
راولپنڈی سے ڈھائی برس قبل اغوا ہونے والے ملک کے اعلیٰ ترین انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی سے وابستہ ریٹائرڈ فوجی افسر بریگیڈیئر طاہر مسعود گھر واپس پہنچ گئے ہیں۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ طاہر مسعود کو 11 اکتوبر سنہ 2012 کی صبح ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے فیز ٹو میں اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ اپنے دفتر جانے کے لیے گھر سے باہر آئے تھے۔
مزاحمت کرنے پر اغوا کاروں نے ان کے ڈرائیور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ریٹائرڈ بریگیڈیئر کے قریبی ذرائع کے مطابق ان کی واپسی دو ماہ قبل ہوئی تاہم ان کے اغوا کی طرح ان کی رہائی کے محرکات بھی پوری طرح واضح نہیں ہیں۔
اس واقعہ کی تفتیش سے متعلق بعض پہلوؤوں سے آگاہ ایک فوجی افسر کے مطابق بریگیڈیئر طاہر مسعود کو اغوا کر کے پاکستان کے بعض شہری علاقوں، قبائلی علاقہ جات اور افغانستان میں مختلف مقامات پر رکھا گیا تھا۔ان کی رہائی کے لیے مذاکرات اسلام آباد میں ہوئے اور انھیں افغانستان سے پاکستان لا کر رہا کیا گیا ہے۔ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ بریگیڈیئر طاہر مسعود کی رہائی تاوان کی رقم کی ادائیگی کے بعد ہوئی ہے یا بعض افراد کو ان کے بدلے رہا بھی کیا گیا ہے۔
بریگیڈیئر طاہر فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد آئی ایس آئی کے ریسرچ سیل سے وابستہ ہو گئے تھے۔ اپنے فوجی کریئر میں وہ ملٹری انٹیلی جنس سمیت متعدد اہم فوجی عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔
ان کے اغوا کے بعد کئی مہینوں تک آئی ایس آئی اور پولیس یہ طے نہیں کر سکی تھی کہ ان کے اغوا کے پیچھے کیا محرکات تھے۔واقعے کی تحقیق کرنے والے بعض پولیس افسروں کا خیال تھا کہ اس اغوا کا تعلق ان کے خاندان میں جاری جائیداد کے تنازعے سے بھی ہو سکتا ہے۔
اغوا کاروں کی مہارت اور سفاکی نے البتہ فوجی تفتیش کاروں کو اس کے بعض دیگر پہلوؤں پر بھی غور کرنے پر مجبور کیا تھا۔
تفتیش کاروں کے لیے اغوا کی یہ گتھی کئی ماہ بعد اس وقت ایک حد تک سلجھی تھی جب اغوا کاروں نے افعانستان سے فون کر کے اس ریٹائرڈ فوجی افسر کی رہائی کے لیے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔
بریگیڈیئر طاہر مسعود نے گھر واپسی کے بعد سے لوگوں سے ملنا جلنا یا دفتر جانا شروع نہیں کیا ہے۔
لاہور/فیکٹ انٹیلی جنس یونٹ