Published On: Wed, Jun 3rd, 2015

ایک تیر سے تین شکار، دنیا ٹی وی کی اسٹبلشمنٹ سے قربت کی خواہش، کامران خان پُل بنیں گے،کروڑوں کی فنڈنگ کا راز کھلنے والا ہے! صحافتی تنظیموں کے اتحاد کو توڑنے کی کوششیں، اہم انکشافات

Share This
Tags
بول کی بندش کا سکرپٹ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہے۔ تین بڑے میڈیا مالکان بول کی مکمل بندش اور ہزاروں کارکنوں کی بیروزگاری سے لاپرواہ ہو کر اپنے مقابلے میں آنے والے شعیب شیخ کو سبق سکھانے کےلئے متحد ہو چکے ہیں تاہم ان میں تین بڑے میڈیا مالکان سلطان لاکھانی ، میر شکیل الرحمان اور میاں عامر محمود میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے مفادات پیارے ہیں اور دو میڈیا مالکان کو دھچکا اس وقت لگا جب بول سے مستعفیٰ ہونے والے کامران خان نے اچانک دنیا گروپ جوا ئن کرنے کا اعلان کر دیا ۔دنیا ٹی وی نے کامران خان کو دنیا جوائن کروا کر ایک تیر سے تین شکار کھیلے۔ اس سے قبل پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ یہ اعلان کر چکی تھی کہ جس میڈیا گروپ نے بول سے مستعفی ہونے والے کامران خان ، اظہر عباس کو لیا تو اس میڈیا گروپ کا گھیرائوکیا جائے گا ۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر رانا عظیم ہیں جو دنیا گروپ سے ہی وابستہ ہیں ۔ ان کا یہ اعلان اب اُن کے ہی گلے پڑنے والا ہے کیونکہ اب سوال یہ ہے کہ کامران خان کے دنیا گروپ جوا ئن کرنے کے بعد کیا اب وہ اپنے ہی گروپ کا گھیرا ئو کریں گے؟آخری اطلاعات آنے تک انہوں نے اپنی ناراضگی مالکان تک پہنچا دی ہی تاہم ابھی تک استعفیٰ  نہیں دیا۔ کارکن صحافیوں کا دبائو ہی کہ وہ فوری طور پر استعفیٰ کا اعلان کریں۔
fact coverذرا ئع نے ’’  فیکٹ‘‘ کو بتایا کہ کامران خان کی اسٹبلشمنٹ سے قربت ڈھکی چھپی نہیں ۔ دنیا گروپ کے مالک بھی اسٹبلشمنٹ کے قریب رہے ہیں اور عسلری حلقوں سے تعلق کی بدولت ان کے چینلز کو کافی فوا ئد بھی حاصل ہو ئے ہیں۔مشرف دور میں دنیا ٹی وی کے اجراء کےلئے فوجی اسٹبلشمنٹ کی طرف سے کروڑوں روپے کی فنڈنگ بھی ایک بڑا راز ہے جوسامنے آ نے والا ہے۔( کچھ تفصیل راقم کی کتاب جرنیل بیتی میں پڑھی جا سکتی ہے۔)باخبر ذرائع نے ’’  فیکٹ‘‘کو بتایا کہ میاں عامر محمود کی اسٹبلسمنٹ اور خاص طور پر فوجی اسٹبلشمنٹ سے ٹوٹے ہو ئےتعلقات کی تجدید میں کامران خان اب پُل کا کردار ادا کریں گے ۔یہ تعلقات اُس وقت متاثر ہو ئے تھے جب دنیا ٹی وی اور میاں عامر محمود کی طرف سے 2008ء کے الیکشن کے بعد بر سر اقتدار آنے والی حکومت کی بے جا حمایت کی گئی تھی اور اس حمایت کے بدلے  م میںمیاں عامر محمود زرداری حکومت کے قریب ہو گئے۔ با خبر ذرائع کے مطابق اسی قربت کی بدولت زرداری کی طرف سے میاں عامر محمود کا نام ایک بار صدر پاکستان اور دوسری بار پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کےلئے بھی پیش کیا گیا تاہم حقیقت سامنے آنے بعد فوجی اسٹبلشمنٹ نے اس کی مخالفت کی ۔ کامران خان کو دنیا گروپ میں لانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ فوجی اسٹبلمشنٹ سے تعلقات کو بحال کروایا جا سکے۔

جیو اور ایکسپریس ٹی وی کی کوشش ہے کہ وہ بول سے مستعفیٰ ہونے والے دیگر بڑے ناموں کو ہائر کر لیں، تینوں بڑے میڈیا مالکان اس بات پر متحد ہیں کہ بول کو نشریات سے روکنے کے لئے صحافتی تنظیموں کے اتحاد کو توڑنا بہت ضروری ہے۔اس سلسلے میں میڈیا مالکان کی کوششیں جا ری ہیں۔

میڈیا گروپوں کی منافقت
یہ سب پیسے کمانے کی دوڑ ہے۔میڈیا گروپس بھی اخلاقیات بھلا کر پیسے کے پیچھے ہی باگ رہے ہیں ۔ پہلے تین بڑے میڈیا مالکان سلطان لاکھانی ، میر شکیل الرحمان اور میاں عامر محمود بولKamran Khan بند کروانے کےلئے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے پاس بھاگے بھاگے گئےتھے اور انہیں حکومت کی حمایت کی یقین دہانیاں کروائی تھی ۔ انہیں انداز نہیں تھا کہ بول کے حق میں صحافتی جماعتیں سڑکوں پر آ جا ئیں گی ۔ جب صحافتی جماعتوں کا اجتجاج زور پکڑا تو انہوں نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہو ئے صحافتی تنظیموں کی حمایت کا اعلان کر دیا ۔ پہلے بول کے خلاف پیش پیش سلطان لاکھانی نے اپنے اخبار ایکسپریس اور پھر دنیا ٹی وی کے مالک میاں عامر محمود نے اپنے اپنے اخبارات میں میں خبریں چھاپ کر صحافتی تنظیموں کو اپنی حمایت اور ورکرز کے ساتھ کھڑا ہونے کا یقین دلایا ۔ اب یہ بات سب جانتے ہیں کہ اس میں کتنی نیک نیتی شامل تھی ۔ یہ کہانی اس وقت کھل کر سامنے آ گئی جب اخباری مالکان کی تنظیم اے پی این ایس کی طرز پر بنی پاکستان میڈیا براڈ کاسٹرز ایسوی ایشن نے ایک پریس ریلیز جاری کر دیا جس میں کہا گیا کہ وہ بول چینل کے میڈیا پرو فیشنلز کو واپس لے لیں گے ۔اس سلسلے میں تنظیم نے ایک ای میل جاری کیا کہ واپسی کے خواہش مند صحافی اور ٹکنیکل سٹاف اس ای میل پر اپنی درخواست بھیجے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تنظیم بھی بول کی بندش کی خواہش مند ہے کیونکہ اس تنظیم میں بھی وہی مالکان بیٹھے ہیں جو اے پی این ایس کے رکن اخبارات کے مالکان ہیں ۔
صحافتی ذرائع نے ’’  فیکٹ‘‘کو بتایا کہ کامران خان کے دنیا ٹی وی میں جانے کے بعد جیو اور ایکسپریس ٹی وی کی کوشش ہے کہ وہ بول سے مستعفیٰ ہونے والے دیگر بڑے ناموں کا ہائر کر لیں جن میں اظہر عباس ، افتخار احمد، نصرت جاوید،عاصمہ شیرازی اور دیگر بڑے نام شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ بول سے اب تک وابستہ رہنے والے صحافیوں کو بھی آفرز کی جا رہی ہیں کہ وہ پرانی تنخواہوں پر واپس آ جا ئیں۔اس کے ساتھ ساتھ صحافتی تنظیموں میں بول کی حمایت ختم کروانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں ۔تینوں بڑے میڈیا مالکان اس بات پر متحد ہیں کہ بول کو نشریات سے روکنے کے لئے صحافتی تنظیموں کے اتحاد کو توڑنا بہت ضروری ہے۔اس سلسلے میں میڈیا مالکان کی کوششیں جا ری ہیں اور تینوں بڑے میڈیا مالکان صحافتی تنظیموں سے کے ذمہ داران سے رابطے میں ہیں۔
رپورٹ : مقبول ارشد
Displaying 3 Comments
Have Your Say
  1. رانا امجد فاروق says:

    یہاں سب سیل لگی ہے بڑے چینل کا کہنا ہے پیسا آنا چاہئے جدھر سے مرضی آئے یہاں سب بکتا ہے ۔بول آئے گا ہماری دعائیں بول کے ساتھ ہیں خدا بول کی حفاظت کرے آمین۔

  2. bo Ayega aur chha jayega inshallah aur baqi sab bhag jayenge
    bol ko bolne do

  3. rahan says:

    hello sir. very interesting story. keep it to exposed the corrupt mafia,s
    Rehan Gilgit

Leave a comment