شہباز شریف کو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ذمہ دار قرار دینے والے لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس علی باقرنجفی کو قتل کی دھمکیاں، سکیورٹی میں اضافہ،رانا ثناء اللہ جج کیخلاف میدان میں،حکومت رپورٹ بے نتیجہ رکھنے کی خواہشمند
سابق وزیر قانون نے جسٹس علی باقر نجفی پر سنگین الزامات لگائے کیونکہ اعلیٰ عدلیہ کے اس معزز جج نے حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کی مرضی کا فیصلہ نہیں دیا تھا اور حقائق کے مطابق اپنی رپورٹ میں شہباز شریف اور ان کے رفقاء کو ذمہ دار قرار دیا، سابق وزیر کا سپریم جوڈیشل کونسل جانے کا اعلان
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ، سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور پنجاب حکومت کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار قرار دینے والے لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس علی باقرنجفی کو قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں ۔ قتل کی ان دھمکیوں کے بعد جسٹس علی باقر نجفی کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے ۔ انتہائی با خبر ذرائع نے ’’ فیکٹ ‘‘ کو بتایا کہ جسٹس علی باقرنجفی کی قتل کی دھمکیوں پر اعلیٰ عدلیہ کے ججز میں تشویش پائی جارہی ہے ۔اگرچہ ان کے سکیورٹی انتظامات میں اضافہ کر دیا گیا ہے لیکن انہیں احتیاط کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
جسٹس علی باقر نجفی پنجاب حکومت کی طرف سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے سربراہ تھے اور انہوں نے اپنی رپورٹ میں شہباز شریف اور ان کی حکومت کو اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ پنجاب حکومت نے اس رپورٹ پر عمل درآمد نہیں کیا ، بلکہ ابھی تک اس رپورٹ کو منظر عام پر بھی نہیں لایا گیا اور کہا جا رہا ہے کہ اصل رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجا ب میاں شہاز شریف دبا کر بیٹھے ہیں۔اس رپورٹ کے مندرجات منظر عام پر آنے کے بعد اخلاقی طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف پر استعفیٰ کے لئے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے جسے حکمران جماعت نواز لیگ کسی خاطر میں نہیں لا رہی ۔
اب اس معاملے میں ایک نیا رخ دس ستمبر2014ء کو اُس وقت سامنے آیا جب جسٹس علی باقر نجفی رپورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار قرار دےئے جانے والے سابق وزیر قانون رانا ثنا ء اللہ نے لاہور ہائی کورٹ کے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں ایک رکنی انکوائری ٹریبیونل کی تحریر کردہ رپورٹ پر ایک سنگین شکایت کے ساتھ سپریم جیوڈیشل کونسل جانے کا اعلان کیا ۔اس سے پہلے انہوں نے جسٹس علی باقر نجفی پر سنگین الزامات لگائے کیونکہ اعلیٰ عدلیہ کے اس معزز جج نے حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کی مرضی کا فیصلہ نہیں دیا تھا اور حقائق کے مطابق اپنی رپورٹ میں شہباز شریف اور ان کے رفقاء کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق رانا ثناء اللہ نے جسٹس علی باقر نجفی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے مقدمے کا ریفرینس بھیجنے کے لیے آرٹیکل 209(5) کو بنیاد بنایا ہے۔ رانا ثناء اللہ کی شکایت میں جن نکات کو بنیاد بنایا گیا ہے ، اس میں کہا گیا ہے کہ ٹریبیونل نے مکمل طور پر ایک انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ پر انحصار کیا ہے اور اس ایجنسی کی جانب سے پیش کیے گئے کچھ نکات تو ٹریبیونل کی رپورٹ میں لفظ بہ لفظ نقل کیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ رنا ثناء اللہ کی شکایت میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق جسٹس علی باقر نجفی 4 اگست سے 31 اگست تک رخصت پر تھے، اور ایک افسرِ قانون کا کہنا ہے کہ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ انکوائری رپورٹ پیش نہیں کریں گے، جب تک کہ بطور انکوائری ٹریبیونل کے چیئرمین کے ان کی تقرری کے خلاف ایک رٹ پٹیشن لاہور ہائی کورٹ کے سامنے زیرِ التواء ہے۔
اس حوالے سے رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ آئین ہر شخص کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اعلٰی عدالت کے ایک جج کے خلاف اپنی شکایات سپریم جیوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کرے۔آئین کے آرٹیکل 209(5) میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی ذرائع سے سپریم جوڈیشل کونسل یا صدر کو اس بات کی اطلاع ملے کہ سپریم کورٹ یا ایک ہائی کورٹ کے جج جسمانی یا ذہنی کم مائیگی کی وجہ سے اپنی ذمہ داریوں کی مناسب طریقے سے ادائیگی کے قابل نہیں رہے یا بداعمالی کے مرتکب پائے گئے ہیں تو صدر کونسل کو ہدایت دے گا یا کونسل اس معاملے کی انکوائری کے لیے ازخود اقدام کرسکتی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئین کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دو سب سے زیادہ سینئر ججوں اور دو ہائی کورٹس کے دو سینئر چیف جسٹس پر مشتمل ہوتی ہے۔ذرائع کے مطابق حکومت اس رپورٹ کو بے نتیجہ رکھنا چاہتی تھی، اور سپریم کورٹ کے سابق جج خلیل الرحمان خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی کے ذریعے اس کا تجزیہ کروانا چاہتی تھی۔
سرکاری طور پر یہ رپورٹ ابھی تک سامنے نہیں آ سکی اور نہ ہی اس کے سامنے آنے کا امکان ہے تاہم حکومت کی طرف سے اس رپورٹ پر عدم اطمینان کے اظہار کے بعدذرائع کا یہ کہنا ہے کہ حکمران جماعت کی مرضی سے رانا ثنا ء اللہ کو ایک ’’ سٹنٹ ‘‘ کے طور پر اتار گیا اور اس معاملے کو سپریم جوڈیشل کونس میں لے جانے مقصد صرف وقت ضائع کرناہے تاکہ شہباز شریف پر پڑنے والے اخلاقی دباؤ کی شدت کو کم کیا جا سکے ۔
رپورٹ: ایم ارشد
اس رپورٹ کے بعد شہباز شریف کے پاس وزارت اعلیٰ کے عہدے پر رہنے کا کو کوئی اور جواز باقی رہ گیا ہے؟ دراصل پاکستان میں یہ ایک گنے چنے خاندانوں اور لوگوں کا ایک مافیا ہے جو اپنے مفادات کیلئے اقتدار پر قابض ہے ۔ اب پہلی بار اس مافیا کو کسی نے للکارا ہے۔ اس لئے اس کرپٹ ، بے ضمیر اور ملک دشمن مافیا کو تکلیف تو ہو گی ۔
میان اک عرصے سے فیکٹ کو پڑھتا رہا ہوں۔ خوشی ہے کہ فیکٹ دوبارہ آن لائن ہو گیا ہے اور اس کا پرنٹ ایڈیشن بھی آنے والا ہے ۔ االلہ تعالیٰ آپ کو کامیاب کرے۔ آمین
مدثر علی، فیصل آباد