چین کے صدر ڑی جن پنگ کا دورہ پاکستان اور 35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معمہ…….سیاسی عدم استحکام سے دوچار حکومت سے معاہدے نہ کئے جائیں، اسلام آباد سے بھجوائی جانیوالی چینی انٹیلی جنس رپورٹ نے تہلکہ مچا دیا
چین کے صدر ڑی جن پنگ نے دورۂ پاکستان پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کے باعث ملتوی کیا ہے ۔ چین کے اعلیٰ ترین حکام کمی طرف سے پاکستانی کو بتایا گیا ہے کہ چینی صدر کے دورے کے لئے پاکستان میں فضا سازگار نہیں ہے اور اب چینی صدر کے دورے کا امکان پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں بہتری کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ اسلام آباد میں موجود اعلیٰ ترین سفارتی ذرائع نے ’’ فیکٹ ‘‘ کو بتایا ہے کہ چینی صدر کے دورے کو ملتوی ہونے کا ملبہ حکومت پر ڈالا جائے یا دھرنوں پر لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی اس کے ذمہ دار ہیں ۔ حکومت اس سیاسی مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام رہی اور دھرنو ں کے ذمہ داران نے بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ۔ چین کے صدر ڑی جن پنگ کا دورہ چودہ سے سولہ ستمبر کو ہونا تھا لیکن پاکستان کے دورہ پر آئی ہوئی چین کی سکیورٹی ٹیم نے یہاں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد دورہ نہ کرنے کی سفارش کی ہے۔
بعض سفارتی ذرائع نے ’’ فیکٹ ‘‘ کو یہ بھی بتایا ہے کہ چینی سفارت خانے میں موجود چینی انٹیلی جنس نے بھی ایک رپورٹ بیجنگ بھجوائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے باعث حکومت کمزور ہے اور 35 ارب ڈالر کے منصوبوں کے معاہدوں پر دستخط اُس حکومت سے کئے جانے چاہیں جو سیاسی طور پر مضبو ط ہو۔یہ وہ رپورٹ تھی جس نے تہلکہ مچا دیا اور کہا جا رہا ہے کہ اسی رپورٹ کی بنیاد پر دورہ ملتوی کیا گیا اور ا ب جب تک چینی حکومت اس بات سے مطمئن نہیں ہو گی کہ حکومت کسی سیاسی عدم استحکام سے دوچار نہیں اس وقت تک چینی صدر پاکستان کا دورہ نہیں کریں گے ۔
چینی سکیورٹی ٹیم نے حکومت کی یہ تجویز بھی ماننے سے انکار کر دیا کہ اسلام آباد میں حالات بہتر نہ ہونے کی صورت میں چینی صدر کو لاہور لے جایا جائے اور وہیں ان کی ملاقاتیں کروائی جائیں۔ چین کی سیکیورٹی ٹیم کے اہلکاروں نے بتایا کہ لاہور ایک گنجان علاقہ ہے اس لیے وہاں پر چین کے صدر نہیں جاسکتے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ چین کے سفارتخانے نے سکیورٹی کلیئرنس کی رپورٹ اپنے ملک بھیجنے سے قبل وزیر خزانہ اسحاق ڈار ‘ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور (ق) لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کو اعتماد میں لیا۔ پاکستان میں چین کے سفیر شی لی فنگ نے حالیہ دنوں میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار ‘ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور (ق) لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین سے الگ الگ ملاقاتیں کر کے سکیورٹی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر دھرنے ختم ہو جاتے ہیں تو ان کے صدر پاکستان کا دورہ اعلان کردہ شیڈول کے مطابق کریں گے اگر دھرنے ختم نہیں ہوں گے تو سکیورٹی کلیئرنس کا ایشو بنے گا۔ اس حوالے سے بیجنگ رپورٹ ارسال کی گئی جس کی روشنی میں چینی صدر نے اپنا دورہ پاکستان ملتوی کر دیا۔ ایک ذریعے کے مطابق موجودہ حالات میں چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہونا اگرچہ بہت تکلیف دہ ہے مگر یہ بہتر فیصلہ ہے کیونکہ چینی صدر اگر پاکستان میں موجود ہوں اور دھرنوں کے باعث پیدا شدہ سکیورٹی کے خلا کے باعث دہشت گردی کی کوئی واردات ہو جائے تو یہ پاکستان اور چین کیلئے اچھی صورتحال نہیں ہو گی۔
پینتیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معمہ
چینی صدر کے دورے میں 35 ارب ڈالر کے منصوبوں کے معاہدوں پر دستخط ہونے تھے۔ چین کے تعاون سے پورٹ قاسم پر 2 کول پاور پلانٹ تعمیر کئے جانے تھے۔ گڈانی کا انفرا سٹرکچر بہتر بنانے کا معاہدہ بھی ہونا تھا۔ سندھ میں توانائی اوربہاولپور میں سولر پارک کے منصوبوں کو حتمی شکل دی جانی تھی۔ چین نے پاکستان میں ایٹمی توانائی کے مزید منصوبوں میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ پاکستان اور چین کے بنکوں میں کرنسی کو قابل قبول بنانے کا معاہدہ متوقع تھا۔ پاکستان چین اکنامک کوریڈور منصوبے کے معاہدے پر دستخط کئے جانے کا امکان تھا۔چینی صدر نے وزیر اعظم نواز شریف اور صدر ممنون حسین کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کے علاوہ گوادر کی بندرگاہ میں گہرے سمندر کی تین برتھوں کا افتتاح کرنا تھا۔ اس کے علاوہ مظفر گڑھ میں کوئلہ کے بجلی گھر کا افتتاح بھی متوقع تھا۔ ان ان تمام منصوبو ں کے مستقبل پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
ان معاہدوں کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ 35 ارب ڈالر کے منصوبے دراصل سرمایہ کاری نہیں بلکہ قرض ہیں جو عوام نے واپس کرنا ہے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کے ذمہ داران بھی عوام کو سچ نہیں بتلا رہے اور 35ار ب ڈالر کی سرمایہ کاری سے تعبیر کر رہے ہیں جو قابل افسوس بات ہے۔
رپورٹ : ایم ارشد