Published On: Wed, Jun 22nd, 2011

ایٹمی پروگرام پرحملہ کی صورت میں دشمن کے’’استقبال‘‘ کی تیاریاں

ماضی میں کم از کم 5مرتبہ دشمن نے پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات پر حملہ کی منصوبہ بندی کی مگر کامیابی نصیب نہیں ہو سکی، ایٹمی اثاثہ جات اسامہ کی طرح کسی حویلی میں نہیں پڑے ،یہ جہاں بھی ہیں وہاں ’’گن فری‘‘ پالیسی کا اطلاق ہوتا ہے، جوہری پروگرام کے نگرانوں کی گفتگو

 


وسیم شیخ/سیف اللہ خالد
امریکہ پاکستان کو ایک ناکام اور ناقابل اعتماد ریاست کا درجہ دے کر اس کے ایٹمی اثاثہ کا کنٹرول چاہتا ہے ۔اس حوالے سے مشرف دور میں باقاعدہ انسپکشن سے مشترکہ کنٹرول کی بات بھی کی جاچکی ہے جس کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔جس کے بعد امریکہ نے اس پلان کی منظوری دی جس کے تحت امریکہ جب بھی محسوس کرے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات خطرے میں ہیں تو فوری طورپر اپنے چھاتہ بردار کمانڈوز ان کی حفاظت کی خاطر اتار سکتا ہے۔تاہم پاکستان کی سکیورٹی کے ذمہ داران اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہیں اور وہ اس سلسلے میں پوری طرح متحرک ہیں ۔
گذشتہ دنوں ایرانی صدر احمدی نثرادکے اس بیان نے بھی دنیا میں کھلبلی مچا دی کہ امریکہ ، پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تاہم اس کے اس بیان سے دنیا تو ضرور چونک گئی تاہم پاکستانی سکیورٹی ذمہ داران اور ایٹمی پروگرام کے ذمہ داران کو کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ وہ ان تمام منصوں سے اچھی طرح واقف ہیں جو امریکہ اس حوالے سے بنا رہا ہے ۔
ذمہ دار ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات امریکہ ہی نہیں بھارت اور اسرائیل کی طرف سے بھی خطرے کی زد میں ہیں اور ایس پی ڈی کو اس حوالے سے مکمل ادراک ہے اور وہ مکمل اختیارات رکھی ہے کہ ان اثاثہ جات کا دفاع کس طرح کرنا ہے۔ آئی ایس آئی اور ایٹمی پروگرام کی حفاظت پر مامور ادارہ ا یس پی ڈی کا انٹیلی جنس کا شعبہ اچھی طرح اس بات سے آگاہ ہے کہ امریکی کہاں، کہاں اور کیا، کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ایس پی ڈی ،ان تمام معلومات کے پیش نظر ہی اپنی حکمت عملی کو روزانہ کی بنیاد پر دیکھتی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ایس پی ڈی نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا ایک شعبہ ہے ۔جس کی ذمہ داری ان معاملات کا تحفظ ہے جو نیوکلیئر سے متعلق ہیں۔ایس پی ڈی کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ وہ قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے پوری طرح محفوظ ہیں ۔ان تک پہنچنا اور ان کو سپوتاژ کرنا آسان کیا ممکن بھی نہیں۔انہوں نے تسلیم کیا کہ خطرات ہیں،ہم جانتے ہیں کہ دشمن اپنی پوری توانائی صرف کر کے بھی انہیں تلاش کرنے کی کوشش میں ہے۔مگر الحمداللہ ہمارے پاس اپنا تیار کردہ ایسا حفاظتی نظام موجود ہے کہ باہر سے کوئی ان اثاثہ جات تک نہیں پہنچ سکتا۔ا یک بات بہت کلیئر ہے کہ یہ اثاثہ جات اسامہ کی طرح کسی حویلی میں نہیں پڑے ہوئے ۔یہ جہاں بھی ہیں وہاں ’’گن فری‘‘ پالیسی کا اطلاق ہوتا ہے ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ اس علاقہ میں آنے والے کسی بھی طیارہ ،ہیلی کاپٹر یا کسی بھی شے کو دیکھتے ہی اڑا دینے کا حکم ہے ،چاہے وہ طیارہ یا ہیلی کاپٹر پاکستانی ہی کیوں نہ ہو اور اس پر کوئی کتنا ہی اہم آدمی سوار کیوں نہ ہو۔لہذا ان اثاثوں کے قریب پہنچنے سے قبل ہی بھرپور جنگ شروع ہو جائے گی ۔کیونکہ پہلے شوٹ پھر سوال کی پالیسی اختیار کی جاچکی ہے۔دوسرا یہ کہ اثاثہ جات کے لیے کئی مراحل پر مشتمل حفاظتی انتطام موجود ہے ۔جس میں ایئر فورس اور پاک آرمی بھی شامل ہے اور الیکٹرانکس کوڈ کا بھی پورا ایک نظام ہے جس کے بغیر کوئی ان تک رسائی نہیں کر سکتا۔
جوہری پروگرام کی نگرانی سے واقف ذرائع نے مزید بتایا کہ پہلے دن سے یہ امر طے تھا کہ امریکہ،بھارت اور اسرائیل اس کے دشمن ہیں لہٰذا ان کی دشمنی کوپیش نظر رکھتے ہوئے حفاظتی نظام تخلیق کیاگیا ہے اور ایس پی ڈی کی اپنی انٹیلی جنس اور کاؤنٹر انٹیلی جنس کے سبب ہر شخص خواہ ،وہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو اس کی نگرانی کی جاتی ہے ۔اس لیے یہ کہ کوئی دہشت گرد یہاں تک رسائی حاصل کرے گا، اس کا سوال ہی پید انہیں ہوا اور اگر امریکہ یا کسی دوسرے ملک نے کوئی ایڈونچر کرنے کی کوشش کی تو انہیں بہت مہنگا پڑے گا۔
جوہری ہتھیاروں سے متعلقہ ذمہ دار ایک شخصیت نے بتایا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان نے جوہری ہتھیار صرف ڈیٹرنس کے لیے بنایا ہے۔بلکہ ہتھیار صرف استعمال کے لیے بنایا جاتا ہے اور تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر بنایا جاتاہے۔میزائل تجربات یہ بتانے کو کافی ہیں کہ پاکستان اپنے اثاثہ کو استعمال میں کس قدر محتاط اور سنجیدہ ہے اس لیے اس معاملہ میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان نے ایک سے زائد بار بھارت ،اسرائیل ،امریکہ سمیت پوری دنیا کو بتادیا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف کوئی چھیڑ چھاڑ سنگین جواب کا پیش خیمہ ثابت ہو گی ۔ایس پی ڈی کو خطرات کا احساس بھی ہے اور ان پر نظر بھی ہے جس کا وقتاً فوقتاً اظہار کیا جاتا ہے تاکہ دشمنوں کو پتہ رہے کہ ہم جانتے ہیں ۔اس سوال پر اگر دشمن بیک وقت حملہ کرکے تباہ کردے تو ؟ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں ۔ہمارے انتظامات الحمداللہ اتنے جاندار ہیں کہ حملہ آور واپس نہیں جاسکتے ۔ادھر سے جواب لازماً آجائے گا اور وہ اتنا تباہ کن ہو گا کہ جس کی مثال نہیں دی جاسکتی۔ایس پی ڈی اور دیگر اتھارٹیز اس معاملہ میں بہت واضح پالیسی رکھتے ہیں اور دنیا کو اس پالیسی سے آگاہ بھی کر دیا گیا ہے۔ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے ایک ذمہ دار کا دعویٰ ہے کہ اب تک امریکہ ہماری کسی جگہ کو بھی تلاش نہیں کر سکا۔اصل مقامات کے علاوہ بعض ڈمی انسٹالیشنز بھی ہیں۔ان کی سکیورٹی بھی اتنی ہی سخت ہے کہ کسی کو ڈمی تک رسائی ممکن نہیں ہے ۔ایس پی ڈی کے ایک ذمہ دار نے جن کا تعلق پاک فضائیہ سے ہے ،بتایا کہ خطرات کا وجود ہے اور جس قدر ایرانی صدرنے بتایا اس سے زیادہ ہے مگر ہم بے خبر نہیں۔آرمی چیف اور ائیر چیف کی سطح پر بھی اور نچلی سطح تک بھی اس سلسلے میں بار بار ،ہر پہلو سے ملنے والی اطلاعات اور خطرات کے حوالے سے معاملات زیر بحث بھی آتے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ پالیسی میں تبدیلی اور بہتری بھی لائی جاتی ہے۔ہم پورے وثوق اور رب پر یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ کوئی ہدف ریڈار پر نظر آئے یا نہ آئے ،وہ جیسے ہی ہمارے حساس دائرہ میں داخل ہو گا گن کی زد میں آئے گا اور مار گرایا جائے گا۔یہ بعد میں دیکھا جائے گا کہ وہ کس کا تھا اور اس کا مقصد کیا تھا ،اس پالیسی میں کوئی ابہام نہیں ہے۔اس سوال پر کہ امریکی الیکٹرانک کوڈ ز جام کر سکتے ہیں ؟انہوں نے کہا کہ کہانیوں اور فکشن کی بات دوسری ہے ۔حقیقت کی دنیا سے اس کا تعلق نہیں ۔اگر یہ سب کچھ اتنا ہی آسان ہوتا تو امریکی کب کا کرچکے ہوتے ۔انٹیلی جنس سے متعلق ایک ذمہ دار نے انکشاف کیا ہے کہ ماضی میں کم از کم 5مرتبہ دشمن نے پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات پر حملہ کی منصوبہ بندی کی مگر کامیابی نصیب نہیں ہو سکی بلکہ جرات بھی نہیں ہوئی ۔ایک اور ذمہ دار نے بتایا کہ ممکنہ طور پر اگر کسی نے ایڈونچر کرنے کی کوشش کی تو خطرہ ہے کہ افغانستان ،بھارت اور سمندر میں کھڑے بحری بیڑے استعمال ہو سکتے ہیں ۔پاکستان کی متعلقہ فورسز نے اس سلسلے میں نہ صرف پوری تیاری کر رکھی ہے بلکہ حفاظتی اقدامات کی ریہرسل بھی بار بار جاری رہتی ہے ۔اس لیے خطرات کے باوجود پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ آگاہ رہنے اور پراعتماد رہنے کی ضرورت ہے۔عسکری ماہرین کا اتفاق ہے کہ امریکہ پسپائی کے دوران کوئی بھی فریق ایڈوانچر کی کوشش کر سکتا ہے ،اس کے استقبال کی تمام تر تیاریاں مکمل ہیں۔
Displaying 5 Comments
Have Your Say
  1. Muzaffar Ul - Hassan says:

    I am very happy to read this artical. Some time I afraid when I reamber 1971, we srunder in East Pakistan, INSHA ALLAH we must not repeat that. Because
    PAKISTAN HAMMARY JAN……………….PAKISTAN PAINDABAD………
    I love my PAKISTAN….may ALLAH bless our PAKISTAN…(amin

  2. MUHAMMAD NADEEM BAJWA says:

    WE ARE GLAD AFTER KNOWING ABOUT OUR SECURITY SYSTEM OF OUR NUCLEAR ASSETS. OUR FORCES ARE CAPABLE TO DO EVERY TASK ASSIGNED BY OUR NATION………
    ONE THING MORE WE SHOULD GO AHEAD ON CONTINENTAL MISSILE SYSTEM AND AMERICA ALSO SHOULD BE IN OUR RANGE IF WE WANT TO BE DEALT EQUALLY BY STUPID AMERICANS.

    MAY LIVE LONG PAKISTAN. MAY LIVE LONG PAK FORCES.

  3. Jahangeer Khan says:

    Wah Masha Allah read kar kaa aik jazba peda ho gaya kaa pakistan kaa atomic weapons ki security Allah S W T ki madad saa bahot sahe hands mein haie. ager kabhe dushman naa aesa karna ki koshish ke tu In Shaa Allah Allah S W T ki madad saa puri Nation apni security Forces kaa saath khari ho ge, Aur dushman ko tabah-o-barbad kar dein gaa.
    paistan Zindabad
    Pakistan army great

  4. pak army zindabad i am very happy but so afraid kher agr ye sab jo bataya gya k prog bohat save he to darna kya inshallah jo b ay ga wapis na jay ga marna to sab ny aik din he to kyu na sher ki mot maren ALLAH sab ka humara or prog authorty ka hami o nasir ho in ko bohat himat hosla ata kary geb se madad farmay amen

  5. Masood ul haq says:

    Hope so k aisa hi ho jaisi is article maen optimism ko paint kia gaaya haa.Lakin ground realities ko agar mad-e-nzar rakhaan tou kia is article maen zaib-e-dastan kuch zayada nahin.?

Leave a comment