Published On: Thu, Jun 23rd, 2011

پاک فوج میں میں بغاوت کا منصو بہ ناکام ہو گیا،اعلیٰ قیادت پریشان

حزب التحریر ایک عرصہ سے اسلامی خلافت کے قیام کی خاطر فوجی بغاوت کی راہ ہموار کرنے کے لیے فوجی افسران کو بھرتی کرنے کی خفیہ کوششیں کررہی ہے، فوج کا اعلیٰ ترین تفتیشی ادارہ سپیشل انوسٹی گیشن برانچ گرفتارافسروں کے اسلامی شدت پسندوں کے ساتھ روابط کی تفتیش کر رہا ہے

 

مقبول ارشد
پاک فوج کے طاقتور جرنیلوں کے لیے 2 مئی کے بعد شروع ہونے والے ایام ابھی تک تنقید کا باعث بنے ہوئے ہیں۔2مئی کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت ، کوئٹہ میں خروٹ آباد کا واقعہ، کراچی میں نیول بیس پر حملہ، صحافی سلیم شہزاد کے قتل اور کراچی میں رینجر کے ہاتھوں نوجوان کے قتل کی وڈیو سے سیکورٹی فورسز پر تنقید شدت اختیار کرگئی ہے ۔ یہی وہ واقعات تھے جس نے عام فوجی جوانوں کو بھی کرب و اضطراب میں مبتلا کر دیا اور فوج کے درمیانی سطح کے افسران میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی لیکن اس تمام صورتحال کے باوجود کسی نے یہ نہ سوچا کہ فوج کو عوام کے قریب لانے اور اس کا امیج بہتر بنانے کی کتنی ضرورت ہے۔
نتیجہ یہ نکلا ہے کہ فوج اور سکیورٹی اداروں پر تنقید میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔دو مئی کے واقعہ نے عام فوجیوں کے غم و غصے میں اضافہ کیا اور پھر رہی سہی کسر بعد کے واقعات نے پوری کر دی ۔فوج کی درمیانی سطح کی قیادت میں بھی کافی عرصے سے امریکا کے خلاف اس بات پر غصہ پایا جاتا ہے کہ امریکا پاکستان کی خودمختاری کو خاطر میں نہیں لا رہا اور نہ ہی فوج کی ہزاروں جانوں کی قربانی کو سامنے رکھ رہا ہے۔ اس دوران یہ اطلاعات بھی آئیں کہ نچلی سطح کے فوجیوں نے پاک فوج کی اعلیٰ قیادت (جرنیلوں ) کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا گیا اور جنرل کیانی کے علاوہ فوج کے باقی جرنیلوں پر بھی تنقید کی جا رہی ہے ۔
اس دوران پاک فوج میں دو طرح کی گرفتاریاں ہوئیں ۔ پہلی گرفتاریاں اس وقت ہوئیں جب دو مئی کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سے 35 سے 40 افراد کو امریکی سی آئی اے کے لئے جاسوسی کرنے کے الزام میں حراست میں لئے جانے کی اطلاعات سامنے آئیں ۔گرفتار کئے جانے والوں میں فوک کے بعض افسران بھی شامل تھے جن میں ایک میجر عامر کا نام نمایاں طور پر سامنے آیا ۔ عامر اسامہ بن لادن کی نگرانی اور بعد ازاں امریکا کی دو مئی کی خفیہ چھاپہ مار کارروائی میں ان کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں۔ میجر عامر کے زیر استعمال سیلولر فون کی سم سے ملنے والے ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ امریکی سی آئی اے سے رابطے میں تھے اور ان کے لئے جاسوسی کر رہے تھے۔ نیز زیر حراست فوجی افسر کے پانچ دیگر ہم وطنوں سے بھی رابطے تھے، جنہیں سیکیورٹی حکام نے گرفتار کر لیا ۔ گرفتار ہونے والے میجر عامر عزیز کا تعلق فوج کی میڈیکل کور سے ہے اور وہ ابیٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے اس مبینہ کمپاونڈ کے قریب ہی رہائش پذیر تھے کہ جس پر امریکی کمانڈوز نے دو مئی کو حملہ کیا اور انہیں ہلاک کر دیاتھا۔
پاک فوج کے ان افسران کی گرفتاری سے یہ بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ فوج میں امریکی اثر رسوخ کس حد تک بڑھ چکا ہے اور فوج کے افسران امریکی ڈالروں کے لئے کیا کچھ کر سکتے ہیں ۔
رہی سہی کسر فوج کے ایک بر یگیڈئیر ، کرنل اور چار میجر ز کی گرفتاری نے پوری کر دی۔ جنہیں بظاہر تو ایک کالعدم جمات حزب التحریر سے روابط رکھنے کے باعث گرفتار کیا گیا ۔لیکن اندرون خانہ کچھ اور واقعات بھی ہوں گے ۔ تاہم ان گرفتاریوں کی بابت یہ کہا جاتا ہے کہ فوج میں بغاوت کی ایک سازش کو ناکام بنا دیا گیا ہے ۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حزب التحریرگزشتہ 15 برس سے اسلامی خلافت کے قیام کی خاطر فوجی بغاوت کی راہ ہموار کرنے کے لیے فوجی افسران کو بھرتی کرنے کی خفیہ کوششیں کررہی ہے۔ ان فوجی افسروں کی گرفتاری بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔
کیا بریگیڈئیر علی بغاوت کے سرغنہ تھے ؟
تین دہاؤں سے پاک فوج میں خدمات انجام دینے والے بریگیڈئیر علی خان کا خاندان کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ بریگیڈئر علی کا پاکستانی فوج کے ساتھ دیرینہ تعلق ہی اصل میں پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے۔1958ء میں میانوالی کے ایک گاؤں کے غریب خاندان کے صوبیدار مہر خان کے گھر پیدا ہونے والے علی خان نے 1979ء میں پاکستانی فوج میں کمیشن حاصل کیا۔وہ اپنے گولڈ میڈل اور شاندار سروس ریکارڈ کے باعث پاکستانی فوج کے بہترین افسران میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے والد پاکستانی فوج میں جونئیر کمیشنڈ افسر تھے، ان کے چھوٹے بھائی فوج میں کرنل ہیں اور ملک کے ایک اہم انٹیلی جنس ادارے میں خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کے داماد اور صاحبزادے بھی فوج میں کپتان ہیں۔
بریگیڈئیر علی کو ڈیڑھ ماہ قبل حزب التحریر سے روابط کے الزام میں حر است میں لیا گیا تھا ۔ بریگیڈئر علی خان جنرل ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں ریگولیشن ڈائریکٹوریٹ میں قریباً دو برس سے تعینات تھے۔بریگیڈئر علی خان نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں مستقبل کے فوجی افسران کو تعلیم دیتے رہے ہیں۔ فوجی ترجمان کے مطابق فوج کے خفیہ اداروں کے نوٹس میں یہ بات آئی تھی کہ بریگیڈئر علی خان ایک کالعدم تنظیم کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ کچھ عرصے بعد جب یہ یقین ہو گیا اور یہ بہت زیادہ ملوث پائے گئے تو ان کی گرفتاری عمل میں آئی ہے اور تفتیش جاری ہے۔بریگیڈیئر علی خان کے خاندان کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ چھ مئی کی شام گھر نہیں لوٹے اور اعلیٰ فوجی حکام سے رابطہ کرنے پر ان کے اہلِ خانہ کو بتایا گیا کہ بریگیڈیئر صاحب سے کچھ سوالات کی غرض سے انہیں روک لیا گیا ہے اور وہ بہت جلد گھر لوٹ آئیں گے۔ایک اہم عہدے پر تعینات پاکستانی فوج کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ابھی تک بریگیڈیئر علی کے خلاف باضابطہ چارج شیٹ سامنے نہیں آئی ہے لیکن پاکستانی فوج کا اعلیٰ ترین تفتیشی ادارہ سپیشل انوسٹی گیشن برانچ (ایس آئی بی) بریگیڈیئر علی کے اسلامی شدت پسندوں کے ساتھ روابط کی تفتیش کر رہا ہے۔ایس آئی بی فوج کے اندر بہت سنگین نوعیت کے جرائم کی تفتیش کے لیے جانی جاتی ہے۔
ایک اہم فوجی ذریعے کے مطابق پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت بریگیڈیئر علی جیسے شانداراور فوج کے ساتھ تین نسلوں سے وفادار افسر کے بارے میں اس طرح کی اطلاعات پر خاصی پریشان رہی اور ان کی گرفتاری سے قبل فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دفتر میں اس معاملے پر بھی بات کی گئی اور اس بات چیت سے باخبر ایک افسر کے مطابق جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بریگیڈیئر علی کی گرفتاری کا ذاتی طور پر حکم دیا تھا۔کیونکہ پانچ جولائی کو جی ایچ کیو میں ایک کانفرنس کے دوران بریگیڈ یر علی نے ایبٹ آباد کے واقعہ کے بارے میں چند سوالات پوچھے تھے، اسی لیے ان کے ساتھ یہ ہورہا ہے۔اس معاملے سے با خبر کچھ اور ذرائع نے بتایا کہ بریگیڈئر علی خان رواں برس کے آغاز سے آئی ایس آئی اور ایم آئی کی نگاہ میں تھے۔ تقریباً 6 ماہ کی نگرانی کے بعد آئی ایس آئی اور ایم آئی نے 6 مئی کو بریگیڈئر علی خان کو ان کی رہائش گاہ کے باہر سے اٹھایا تھا۔ وہ اپنی رہائشگاہ پر مشتبہ افراد کی آمد و رفت کے باعث عسکری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نگاہ میں آئے۔ بعدازاں ان کے موبائل فون ریکارڈ سے شبہات کی تصدیق ہو گئی۔
حقیقت کچھ بھی ہو لیکن بریگیڈئیر علی کے بارے میں کچھ اور بھی حقائق ہیں جن سے فوک کی اعلیی قیادت کوش نہیں تھی ۔یہ سلسلہ جنرل کیانی کے دور سے نہیں بلکہ مشرف دور سے ہی شروع ہو گیا تھا ۔
کہا جاتا ہے کہ بریگیڈیر علی خان اس وقت کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج میں کورس میں شامل تھے جس کے بعد ان کی میجر جنرل کے عہدے پر ترقی تقریباً یقینی تھی۔ بری فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کوئٹہ پہنچے اورا سٹاف کالج سے خطاب کیا۔ سوال و جواب کی نشست شروع ہوئی۔ بریگیڈیر علی خان نے مائیک سنبھالا اور تقریر نما سوال داغ دیا۔ لب لباب اس جذباتی تقریر کا یہ تھا کہ جنرل مشرف کو وہ معاہدہ عوام کے سامنے رکھنا چاہیے جس کی بنیاد پر امریکا کے ساتھ فوجی تعاون کیا جا رہا ہے اور یہ کہ اس تعاون کی حدود و قیود کا واضح تعین ہونا چاہیے۔اس روز اسٹاف کالج میں موجود ایک سینئر افسر کے بقول جنرل مشرف نے اجلاس ختم ہونے کے بعد بریگیڈیر علی کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اس کے بعد بورڈ ہوا لیکن بریگیڈیر علی، بریگیڈیر ہی رہے۔ ان کے ساتھی ترقی پا کر پہلے میجر اور پھر لیفٹیننٹ جنرل بن گئے۔ان کے کورس کے ساتھیوں، سینئرز اور جونیئر افسران کو توقع تھی کہ فوج کا یہ سینئر ترین بریگیڈیر اب ریٹائرمنٹ لے لے گا لیکن علی خان نے سب کو حیران کر دیا یہ کہہ کر کہ وہ فوج میں رہتے ہوئے اپنا کام کرتے رہیں گے۔ بعد ازاں بریگیڈیر علی نے باقاعدگی سے اپنے ان سینئر افسران کے ساتھ خط و کتابت شروع کر دی جو فوج میں کلیدی عہدوں پر فائز تھے۔ مضمون میں تو فرق ہوتا تھا لیکن ان خطوط تک رسائی رکھنے والے ایک سے زیادہ افسران نے بتایا کہ بریگیڈیر علی کی ان تحریروں کا موضوع ایک ہی تھا خود انحصاری اور امریکی امداد سے نجات۔بریگیڈیر علی خان نے ان تحقیقی مقالات کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستانی فوج کا امریکا پر بڑھتا ہوا انحصار اس ادارے کی کمزوری اور درمیانی اور نچلے سطح کے افسران میں بے چینی اور بددلی کا باعث بن رہا ہے۔بریگیڈیر علی کی ماتحتی میں کام کرنے والے پاکستانی فوج کے ایک سینئر افسر نے جو اس وقت ایک کلیدی عہدے پر کام کر رہے ہیں نے بتایا کہ انہوں نے جب دیکھا کہ اس بار دوست اور سابق افسر کے خطوط کا سلسلہ طول پکڑتا جارہا ہے اور جنرل اشفاق پرویز کیانی اس سلسلے کے ختم ہونے کے خواہشمند ہیں تو انہوں نے دبے لفظوں میں علی خان کو باور کروانے کی کوشش کی کہ وہ یہ کام نہ کریں لیکن علی نے ہماری باتوں پر دھیان نہیں دیا۔ جب زیادہ اصرار کیا تو ان کی کہنا تھا کہ ان سے رائے مانگی جاتی ہے اس لیے وہ دیتے ہیں۔اس افسر نے کہا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو معلوم تھا کہ بریگیڈیرعلی کی رائے نہ طلب کی جاتی ہے اور نہ ہی زیر غور لائی جاتی ہے۔بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ علی خان نے صدر پاکستان آصف علی زرداری کو بھی انہی موضوعات پر ایک طویل مراسلہ لکھ دیا۔ اس میں بریگیڈیر نے 5 اقدامات تجویز کیے جن پر عمل کر کے ان کے بقول پاکستان کو ایک خود انحصار مملکت بنایا جا سکتا تھا اور امریکی غلامی سے نجات حاصل کی جا سکتی تھی۔اس میں اعلیٰ حکام کی مراعات میں کمی، جس میں ارکان پارلیمنٹ، سیاسی حکمران، بیورو کریسی اور فوجی افسران کو دی جانے والی مراعات بھی شامل تھیں۔ مختلف مراحل سے ہوتا ہوا یہ خط بھی فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی میز تک پہنچا۔پھر2 مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی کارروائی ہوئی۔ بریگیڈیر علی کے ساتھ کام کرنے والے بعض افسران کا کہنا ہے کہ اس روز سے بریگیڈیر علی سخت غصے کے عالم میں تھے اور انہیں اپنا یہ غصہ نکالنے کا موقع اس وقت ملا جب ان کے سابق شاگرد اور موجودہ کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال نے 5 مئی کو اپنے زیر کمان افسروں کا اجلاس طلب کر کے اس معاملے پر مشاورت کی۔جی ایچ کیو میں ہونے والی اس مشاورت میں ایک درجن سے زائد سینئر افسران شریک ہوئے۔ پاکستانی فوج میں نظم و ضبط کے ذمہ دار جنرل جاوید اقبال کا سوال یہ تھا کہ اس واقعے کی کن خطوط پر تفتیش کی جائے۔علی خان کی شمولیت سے پہلے تک گفتگو انہیں خطوط پر چلتی رہی جیسا کہ ’’باس‘‘کی خواہش تھی۔ پھر اس سینئر بریگیڈیر نے گفتگو کا رخ خود احتسابی کی طرف موڑ دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب اجلاس ختم ہوا تو 2کے سوا تمام افسران بریگیڈیر علی خان کے مؤقف کے حامی ہو گئے۔اگلے روز کور کمانڈرز کانفرنس تھی۔ جنرل جاوید نے یہ سارا معاملہ پاکستانی فوج کے اعلیٰ حکام کے گوش گزار کر دیا، جیسا کہ ان کے فرائض میں شامل تھا اور اسی شام بریگیڈیر علی کو حراست میں لے لیا گیا۔
بریگیڈیر علی کیخلاف حزب التحریر کے ساتھ روابط کے حق میں بعض واقعاتی شہادتیں جمع کر لی گئیں لیکن ان شہادتوں کو ثابت کرنے کے لیے گواہان دستیاب نہیں ہوسکے۔
بعض ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سارے معاملے کو ابھارنے کے لئے پاکستان میں خفیہ طریقے سے کام کرنے والی کالعدم جماعت حزب التحریرنے فوج کے افسران کو مخاطب کرتے ہوئے ایک خط بھی لکھا تھا جسے فوجی حلقوں میں تقسیم کیا گیا ۔ دسمبر 2010ء اور مئی 2011ء میں حزب التحریر نے عسکری قیادت کے نام دو خط لکھے ہیں اور ان خطوط کو بہت بڑی تعداد میں پورے ملک میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ان خطوط میں فورسز کو بغاوت پر ابھارا گیا ۔اس خط میں اب تک پیش آنے والے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے فوج کے افسروں اور جوانوں سے اپیل کی گئی تھی کہ سِول و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو ہٹاکر ملک میں اسلامی خلافت کا نطام رائج کیا جائے ۔
بریگیڈئیر علی خان کی گرفتاری کے حوالے سے حزب التحریر خاموش ہے ۔حالانکہ اپنے کسی کارکن کی گرفتاری پر فورا مذمتی پریس ریلیز جاری کرنا ان کا معمول ہے ۔ مگراس واقعے پر نہ صرف یہ کہ حزب التحریر نے کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کیا بلکہ ان کی ویب سائٹ پر بھی کوئی بیان نہیں آیا۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ بھی کہ حزب التحریرے اس معاملے اپنے آپ کو علیحدہ رکھنا چاہتی ہے۔اس معاملے پر بریگیڈئر علی خان کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام رحیم کا کہنا ہے کہ یہ الزامات بالکل بے بنیاد ہیں اس لیے کہ بتیس سال ان کی سروس ہو چکی ہے۔ بتیس سال تک کو الزام کسی نے نہیں لگایا اب جولائی میں وہ ریٹائر ہو رہے تھے اور اس بارے میں ان کو ایڈوانس نوٹس دو ماہ پہلے مل چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ پانچ جولائی کو جی ایچ کیو میں ایک کانفرنس کے دوران انہوں نے ایبٹ آباد کے واقعہ کے بارے میں چند سوالات پوچھے تھے، اسی لیے انہیں کے ساتھ یہ ہورہا ہے۔
یہ وہ صو رتحال ہے جس کے باعث پاک فوج کی اعلیٰ قیادت پریشان ہے ۔جنرل کیانی کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ فوج میں انتہا پسند موجود ہیں۔ یہ فوج کے سربراہ کے لئے ایک ایسا وقت ہے جب انہیں نہ صرف فوج کا امیج بہتر بنانا ہے بلکہ فوج میں جڑ پکڑنے والے انتہا پسندی کے خطرے کو بھی اکھاڑ پھینکنا ہے ۔ ذرائع کہتے ہیں کہ جنرل کیانی کی اپنی پوزیشن کو کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی فوج کے اعلیٰ حکام میں کوئی تشویش موجود ہے تاہم جنرل کیانی دباؤمیں ضرور ہیں۔ مغربی سفارت کار وں کے مطابق جنرل کیانی اس بات سے متفق نہیں کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی پاکستان کے مفاد میں ہوگی۔ امریکا اور اپنے فوجیوں کی تنقید کے بعد کیانی کو پاکستانی عوام کی جانب سے بھی تنقید کا سامنا ہے جس میں حزب اختلاف کے سیاستدانوں ، سول سوسائٹی اور صحافی شامل ہیں۔
آئندہ ہفتے اس بات کو واضح کریں گے کہ جنرل کیانی ادارے کی ساکھ کو بحال کرنی،امریکا کے ساتھ اتحاد رکھنے ،اپنے جونےئر افسران کی حمایت حاصل کرنے اور پاکستان کی جمہوریت کو چلانے میں کتنا کامیاب ہوتے ہیں۔
***
حزب التحریر خلافت کی حامی یا
یہاں یہ بات بتاتے چلیں کہ حزب التحریر 1953ء میں مقبوضہ بیت المقدس میں مفتی تقی الدین نے قائم کی تھی اور مسلمانوں کیلئے خلافت کی بحالی کا نعرہ دیا۔ اس تنظیم کا مؤقف یہ ہے کہ خلافت شعائر اسلام میں سے ہے اور اس کے لیے جدوجہد مسلمانوں پر فرض ہے ۔اس مقصد کی خاطر ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں ’’اہل قوت ‘‘ کو ساتھ ملا کر وہاں خلافت قائم کی جائے اور پھر پورے عا لم اسلام کو اس جھنڈے تلے جمع کیا جائے گا۔مقامی صحافی سیف اللہ خالد کے مطابق حزب التحریر اس وقت دنیا کے 40ممالک میں کام کر رہی ہے اس کاسربراہ عالمی سطح پر صرف ایک ہوتا ہے ۔ مختلف ممالک میں اس کے ترجمان کام کرتے ہیں اور یہ تنظیم ممالک کے بجائے ’’ ولایہ ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتی ہے ۔اس تنظیم کا پورا نیٹ ورک ایک زیر زمین تنظیم کی طرح منظم کیا جاتا ہے ۔جس میں بالائی سطح سے از خود زیریں سطح پر رابطہ کیا جاتا ہے اور ارکان ایک دوسرے کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں رکھتے ۔حزب التحریر لٹریچر،لیکچرز اور لابنگ کے ذریعے اپنا کام کرتی ہے ۔ جمہوریت کو کفر قرار دیتی ہے اور اہل قوت کے ذریعے خلافت کے قیام کو ہی واحد تبدیلی کا راستہ خیال کرتی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ غیر مسلح اور عدم تشدد کے باوجود اسے خطرناک خیال کیا جاتا ہے ۔ بعض حلقے الزام عائد کرتے ہیں کہ حزب التحریر دراصل برطانوی انٹیلی جنس کے زیر اثر ایک تنظیم ہے جسے 1953ء میں آزادی فلسطین کی تحریک کو کمزور کرنے اور عرب ممالک میں قیادت کا جھگڑا پیدا کر کے کمزور کرنے کی خاطر کھڑا کیا گیا ۔مگر حزب التحریر کی قیادت اس لزام کی سختی سے تردید کرتی ہے ۔اور ان کا دعویٰ ہے کہ اگر یہ الزام درست ہوتا تو ان کے بانی قائد کو ایک طویل عرصہ جیل میں نہ گزارنا پڑتا۔حزب التحریر پر الزام یہ بھی ہے کہ یہ 1968ء میں شام اور 1974ء میں مصر ناکام بغاوت کی منصوبہ بندی میں ملوث رہی ہے  حزب التحریر کے ایک منحرف رہنما ماجد نواز اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے 2000ء میں برطانیہ میں کورس پر آئے ہوئے پاکستانی فوجی افسروں پر کام کیا اور انہیں قائم کر کے پاکستان میں بغاوت پر آمادہ کر کے بھیجا مگر وہ یہاں آکر پکڑے گئے ۔
***
حزب التحریر کا لکھا گئے اس خط کا متن جس میں فوج کے افسران کو قیادت کے خلاف بغاوت پر اکسایا گیا ہے۔
اے افواجِ پاکستان میں موجود مخلص افسران!
سِول و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو ہٹاؤ، کرو فرض پورا، خلافت کو لاؤ
ایبٹ آباد حملے کرنے کے دوران پاکستان کی فضائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزی کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے 18مئی2011ء کوامریکی ڈیفنس سیکرٹری رابرٹ گیٹس نے کہاکہ ’’اگر میں پاکستان کی جگہ ہوتا، تو میں کہہ سکتا تھا کہ میں پہلے ہی اسکی قیمت بھگت چکا ہوں۔ مجھے یعنی پاکستان کو ذلیل کیا گیا۔ مجھے یہ دکھایا جاچکا ہے کہ امریکی یہاں آسکتے ہیں اور بلا خوف و خطر کاروائی کرسکتے ہیں۔‘‘
یہ سِول اور فوجی قیادت کی ذمہ داری تھی کہ وہ امریکیوں کے ہاتھوں مزید کسی نقصان سے مسلمانوں کا تحفظ کرنے کے لیے متحرک ہوتے۔ یہ اْن پر لازم تھا کہ وہ اْن تمام امریکی فوجیوں کو ملک سے نکال باہر کرتے ، جو جی ایچ کیوGHQ،فوجی اڈوں اور دوسری تنصیبات میں گھومتے پھر رہے ہیں، اورآزادی سے وہاں کی جاسوسی کررہے ہیں اور مختلف کمزوریوں کا کھوج لگا رہے ہیں۔ یہ سِول اورفوجی قیادت کی ہی ذمہ داری تھی کہ وہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پرائیویٹ عسکری تنظیموں کو نکال باہر کرتے ، جو تنظیمی لحاظ سے کمزور طالبان کی صفوں میں لوگوں کو گْھس کر بم دھماکے اورحملے کرواتی ہیں، جیسا کہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے اور دیگر واقعات سے واضح ہے۔ سِول اور فوجی مقامات پر کئے جانے والے یہ حملے فتنے کی فضا پیدا کرنے کے لیے ہیں تاکہ قبائلی علاقوں میں امریکی صلیبی جنگ کو حق بجانب ثابت کیا جاسکے۔ لیکن مسلمانوں کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات اْٹھانے کی بجائے سول وفوجی قیادت میں موجود یہ غدار امریکہ کے دفاع کے لیے دوڑتے پھرتے ہیں ،کہ کسی طرح عوام اور پاکستان کی مسلح افواج میں موجود آپ جیسے مخلص افسران کے غم و غصے کو ٹھنڈا کیا جائے۔ اِس لیے یہ اِتنی حیرانی کی بات نہ تھی کہ 22اور 23مئی کو کراچی میں مہران نیول ائیر بیس پر حملے کے دوران مسلمان ایک بار پھر اپنے لوگوں کی لاشیں گنتے رہے۔ اور یہ بات عین متوقع ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو مزید ہلاکتوں کا سامنا کرناپڑے گا کیونکہ امریکی کرم ایجنسی اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے پاکستان کی مسلح افواج پرمسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں۔
مزید برآں اِن غداروں کی غداری نے امریکیوں کو دیدہ دلیر بنا دیا ہے۔ امریکی صدر اوبامہ نے 22مئی 2011ء کویہ کہتے ہوئے پاکستان پر مزید حملوں کی نوید سنائی : ’’ہم نے کسی بھی اور جگہ کی نسبت پاکستان کی سرزمین پر سب سے زیادہ دہشت گرد قتل کئے ہیں133تاہم ابھی مزید کام کرنا باقی ہے‘‘۔ آج امریکی بالکل اْسی طرح بات کررہے ہیں جیسے ماضی میں اِیسٹ انڈیا کمپنی اسلامی برصغیر پر قبضہ کرنے سے قبل بات کیاکرتی تھی کہ اْسے اپنے تجارتی مفادات کے تحفظ کے لیے مضبوط آرمی کی ضرورت ہے۔ 22مئی 2011ء کو امریکی ڈیفنس سیکرٹری رابرٹ گیٹس نے اس خطے میں ایک مضبوط امریکی فوج کی ضرورت کے لیے یہ جواز پیش کیا ’’ تجارتی رستوں اور توانائی کی ترسیل کی حفاظت کے لیے اور آئندہ کے کسی دشمن کو ایسے غلط اندازے لگانے سے پیشگی روکنے کے لیے، جو کئی مرتبہ جنگ کا باعث بن جاتے ہیں۔‘‘
اے افواجِ پاکستان میں موجود مخلص افسران!
اِن غداروں کو پاکستان، مسلم علاقوں، مسلمانوں اور اسلام کی کوئی پرواہ نہیں۔ اِن کی پہلی اور واحد ترجیح اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کرنااور اپنے آقا امریکہ کی حمایت کو اپنے لیے برقرار رکھنا ہے۔ یہ غدارآپ کے ارادوں کو متزلزل کرنے کے لیے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ امریکہ کے بغیر تو مسلمان فاقوں مرجائیں گے، تاکہ آپ لوگ کسی طرح اْن کی غداری کو قبول کرلیں۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ کے بغیر دراصل یہ غدار اپنی ذاتی دولت سے محروم ہوجائیں گے اور امریکہ امتِ مسلمہ کے بے حساب وسائل لوٹنے کی قابلیت کھو بیٹھے گا،جبکہ امت تو امریکہ کے بغیرسکھ کا سانس لے گی اور اس کی خوشحالی لوٹ آئے گی۔اور وہ قرضے جو امریکہ اور مغرب کی طرف سے پاکستان کودیے جاتے ہیں تو ان کی اصلیت یہ ہے کہ یہ مغربی سودی قرضے نہ تو ہمارے لیے امداد ہیں اور نہ ہی ہمیں فائدہ پہنچاتے ہیں بلکہ یہ قرضے ایک معاشی بوجھ اور ہمارے استحصال کا ذریعہ ہیں۔ سود کی وجہ سے پاکستان جیسے درجنوں ممالک قرض کی اصل رقم کئی بار واپس کرنے کے باوجودبدستور قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ مزید برآں یہ قرضے ایسی شرائط سے مشروط ہوتے ہیں جو اس ملک کی معیشت کا گلا گھونٹ دیتی ہیں ، چنانچہ ملکیتِ عامہ جیسے انرجی ، معدنیات ، نیزٹیکسوں اور کرنسی سے متعلق شرائط کے نتیجے میں بنیادی ضروریات کی چیزوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے اور شدید افراطِ زرکی وجہ سے ایک ملک اپنی اصل معاشی صلاحیت کو استعمال میں لانے سے محروم رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ وسائل کے حامل مسلم ممالک کی حیثیت یہ ہو چکی ہے کہ مغرب ’’ترقی پذیر‘‘ دنیا کہہ کر ان کا تمسخر اڑاتا ہے، اگرچہ یہ سرمایہ دارانہ قرضے اْنہیں کبھی بھی ’’ترقی یافتہ‘‘ نہیں بننے دیں گے۔جہاں تک غداروں کا تعلق ہے تو یہ ایک کھلا راز ہے کہ پچھلے پچاس سال کے دوران یہ غدارقرض اور ٹھیکوں میں سے فنڈز کو ہڑپ کرتے رہے ہیں، اور اس خیانت میں امریکہ کی مرضی بھی شامل ہوتی ہے۔ یہ حقیقت اقتدار میں آنے سے قبل اور اقتدار چھوڑنے پر ان کی ذاتی دولت میں ہوشربااضافے سے نہایت واضح ہے۔ تو کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیاکہ اِس نام نہاد معاشی امداد کو مسترد کیا جائے اور اسلام کو نافذ کیا جائے اور امتِ مسلمہ کی اصل طاقت کو بروئے کار لایاجائے؟ وہ امتِ مسلمہ کہ جس کے موجودہ وسائل کے سامنے مغربی اقوام کے وسائل کچھ حیثیت نہیں رکھتے اور وہ امتِ مسلمہ جو اسلام کے نفاذ کی وجہ سے دنیا میں ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک واحد معاشی سپر پاور تھی۔
اے افواجِ پاکستان میں موجود مخلص افسران!
یہ جھوٹے غدار آپ کے سامنے اِس بات کا بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ فوجی اتحاد کیے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دراصل یہ غدار امریکہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ،جبکہ پاکستان کی ترقی توامریکہ سے نجات حاصل کرنے سے ہی ممکن ہے۔ مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننا پاکستان کے لیے محض تباہی وبربادی کا باعث بنا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو دسیوں ارب ڈالر کا نقصان اْٹھانا پڑا، لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے یا پھر اْنہیں نقل مکانی کرنا پڑی ، ہزاروں کی تعداد میں فوجیوں کے ساتھ ساتھ کئی ہزار عام لوگ بھی اِس جنگ کا لقمہ بن گئے۔ گویا دشمن توپاکستان پر پہلے سے ہی حملہ آور ہے! اور جہاں تک امریکہ سے ملنے والی فوجی ٹیکنالوجی کا تعلق ہے تو امریکہ یہ ٹیکنالوجی صرف اْسی قدر فراہم کرتا ہے کہ ہم بہرحال اس کے مرہونِ منت رہیں اور وہ کبھی بھی ایسی ٹیکنالوجی فراہم نہیں کرے گا کہ جس کے بل بوتے پر مسلمانوں کی مسلح افواج امتِ مسلمہ کے حقیقی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے آزادانہ قدم اٹھا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ پاکستان کو 25سال پرانے F۔16 طیارے فراہم کرتا ہے جبکہ اوبامہ کا نمائندہ جان کیری اپنے سٹیلتھ ہیلی کاپٹر، جو ایبٹ آبادمیں تباہ ہوگیا تھا، کا ملبہ تک واپس لے گیا ، اور تو جیح یہ پیش کی کہ امریکہ کو ڈر ہے کہ کہیں چین اِس ٹیکنالوجی کو حاصل نہ کرلے حالانکہ چین کے پاس ایسی ٹیکنالوجی پہلے ہی موجود ہے۔ حقیقت میں اسے خوف مسلمانوں سے ہے کہ کہیں وہ یہ ٹیکنالوجی حاصل نہ کرلیں!!جہاں تک امریکہ کے غیض وغضب کا سامنا کرنے کی بات ہے تو استعمار ی کفارظاہری طورپر مضبوط نظر آتے ہیں لیکن وہ اندر سے نہایت کمزور اور بزدل ہیں۔ اْن کے پاس جدید ہتھیار تو ہیں مگر بہادر لوگوں کی کمی ہے۔ بہادرلوگوں کے بغیر یہ ہتھیارمسلم امت کے سامنے غیر مو?ثر ہیں کہ جس امت کے ہتھیار اپنے دشمنوں کے ہتھیاروں سے یکسر مختلف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ گزشتہ دس سالوں سے افغانستان میں انتہائی قلیل ہتھیاروں سے لیس مجاہدین کا سامنا کررہا ہے لیکن پھر بھی وہ افغانستان پر اپنا قبضہ مستحکم نہیں کرپایااور اب وہ فوجی انخلاء اور مذاکرات کی راہ اپنانے پر مجبور ہوچکا ہے۔ اگر صرف پاکستان ہی اپنی فوجی مدد سے ہاتھ کھینچ لے ،امریکہ کو مہیا کردہ فوجی اڈوں کو بند کردے اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کو جانے والی سپلائی لائن کاٹ دے تو امریکہ کی اصل طاقت بے نقاب ہوجائے گی۔ مزید برآں امریکی قوم جن کا مطمع نظر صرف یہی زندگی ہے ، کیا یہ قوم ایک گرتی ہوئی معیشت کے ہوتے ہوئے افغانستان میں موجود اپنے ایک لاکھ فوجیوں کاشدید نقصان، یا اپنے تیل کی سپلائی کی بندش یا پھر بحیرہ عرب میں اپنے تجارتی جہازوں پر حملوں کو برداشت کرپائے گی؟ اور کیا امریکہ اللہ پرایمان رکھنے والی اور ایٹمی قوت کی حامل دنیا کی چھٹی بڑی فوج سے لڑائی مول لینے کی طاقت رکھتا ہے؟ یہی وجہ تھی کہ 11مارچ 2009ء کو چیئرمین امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیکل مولن سمیت اوبامہ انتظامیہ کے اہم عہدیداروں کے سامنے اپنی پری زینٹیشن کے دوران ’افغانستان اِنٹر ایجنسی پالیسی ریویو‘کے چیئرمین بروس رِڈل نے کہا کہ ہم نے پاکستان پر حملہ آور ہونے کی انتہائی آپشن کو بھی سامنے رکھا اور ظاہر ہے کہ اِس آپشن کو فوراً مسترد کردیا کیونکہ ایک ایسے ملک پر حملہ کرنا جس کے پاس درجنوں ایٹمی ہتھیار ہوں پاگل پن سے بھی آگے کی چیز ہے۔ اور اس پر سب نے اتفاق کیا۔اے محترم افسران، کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیاکہ اِن غداروں کو ہٹا کر امریکہ کے ساتھ اِس نام نہاد اتحاد کو ختم کردیا جائے اور اِس کی جگہ خلافت کو نافذ کیا جائے؟ وہ خلافت جو ماضی میں بین الاقوامی سیاست اور عالمی فیصلوں میں بنیادی کردار اداکیاکرتی تھی ، جس کی فوج کوناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھااور جس کا سامنا کرنے سے اس وقت کے شہنشاہ اور بادشاہ گھبرایا کرتے تھے۔ یہ خلافت توپوں سے لے کر تارپِیڈو تک تمام ہتھیار خود تیار کرتی تھی، جن کا اپنے زمانے میں کوئی ثانی نہ تھا۔ اور مستقبل قریب میں رونما ہونے والی خلافت بھی مسلمانوں اور اسلام کے تحفظ کے لیے آزادانہ فیصلے کرے گی، کیونکہ خلافت فوجی سازوسامان کے حوالے سے دوسروں پر انحصار نہیں کرے گی بلکہ ایسی طاقتور انڈسٹری کھڑی کرے گی کہ جس کی وجہ سے مسلمان ایک بار پھر فوجی ٹیکنالوجی میں دنیا کی قیادت کریں گے۔
اے افواجِ پاکستان میں موجود مخلص افسران!
آج ،تیونس سے لے کر انڈونیشیا تک اور سوڈان سے لے کر ازبکستان تک پوری امت، اسلام اور اسلامی ریاستِ خلافت کامطالبہ کررہی ہے۔ خلافت کا قیام ہی وقت کی ضرورت ہے جو امتِ مسلمہ کو دنیا میں سب سے زیادہ وسائل کی حامل واحد ریاست میں تبدیل کردے گی۔ اِس وقت جب آپ لوگ مسلمانوں کی اہانت ، کسمپرسی اور تباہی وبربادی کو دیکھ رہے ہیں،تو دوسری طرف اْمتِ مسلمہ بھی مسلمانوں کی سب سے زیادہ طاقتور مسلح افواج کے مخلص افسران ہونے کی بنا پرآپ کی طرف دیکھ رہی ہے، کہ آپ ہی وہ لوگ ہیں جوپاکستان کو ریاستِ خلافت کا نقطہ آغاز بناسکتے ہیں۔ کیا اب وقت نہیں آ گیاکہ ظالم امریکہ جس نے شمالی امریکہ سے لے کر شمال مشرقی ایشیا تک اقوام کو تباہی وبربادی سے دوچار کیا ہے، کو اس کی اصل وقعت تک پہنچایا جائے اور اسے تاریخ کے سیاہ کوڑے دان میں پہنچا دیا جائے ،جیسا کہ روم اور فارس کی جابر سلطنتوں کے ساتھ ماضی میں ہوچکا ہے۔ کیا یہی وہ وقت نہیں کہ یہ امت بنی نوع انسان کی قیادت کے طور پر اپنا اصل منصب سنبھال لے جیسا کہ ماضی میں ایک ہزار سال تک اسے یہ مقام حاصل تھا، وہ اسلام کے لیے علاقوں کو فتح کرتی تھی اور لوگوں کو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے ظلم سے نجات دلاتی تھی۔ کیا آپ یہ عظیم سعادت حاصل نہیں کرنا چاہیں گے جو اْس دن آپ کے مرتبے کو بلند کرے گا جس دن آپ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونگے۔ چنانچہ اسلام کے نفاذ کے لیے اور ریاستِ خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے حزب التحریر کو مددونصرت دیں، جو ظالموں کو سزا دے گی اور مومنوں کے دلوں کو راحت پہنچائے گی۔
قارئین یہ وہ خط تھا جو فوج کے جوانوں اور افسران کو لکھا گیا اور جس میں ان کے جذبات کو ابھارنے کی کوشش کرتے ہوئے ملک کی سول و فوجی قیادت کو ہٹانے کی ترغیب دی گئی تھی ۔
Displaying 4 Comments
Have Your Say
  1. rahman says:

    یہ واقعی بہت اچھی سٹوری ہے ۔ میں نے اس بارے میں اتنی اچھی انفارمیشن کہیں نہیں پڑھی۔ جتنی جلدی ہوسکے اسے پرنٹ میں بھی شروع کریں کیونکہ ایسے حقائق کو منظر عام پر ضرور آنا چاہیے۔
    لیاقت علی ، سویڈن

  2. abbas says:

    if this is true story then pak army loss his discipline. any body can entered a no1 muslims no 1 army and convivenc to faour tailban, hizb ul tahreer and other terrorist org.
    Ali Abbas Sialkot

  3. ali says:

    very good and story, please keep it up good work.

  4. zafar iqbal says:

    Aaj jo zillat musalman utha rahe hain aour amrikan hakumat jis tarah musalmanon ko dunya bhar mainqatal kar rahi hai aour tamam ghair muslim hakumatain amrika ka sath de rahi hain bahz beghairat musalman hukamran tabqa bhi amrika aour ghairmulims ka poora poora sath de raha hai is se najat ka wahid zariha hazib ut tahrir ka falsafa hai mujh par basiat musalman hizab k paigham ko aage barhana hai.zafar iqbal gulyana Rawalpindi.

Leave a comment