پاکستان کا اقتصادی شہ رگ اجڑ رہا ہے،حکمرانوں کوہوش کب آئے گا؟
کراچی ٹارگٹ کلنگ، ایجنسیوں کی تحقیقاتی رپورٹ نے سیاسی جماعتوں کی حقیقت کا پول کھول دیا
14ٹارگٹ کلرز کا تعلق ایم کیو ایم ،3کا ایم کیو ایم حقیقی،5کا لشکر جھنگوی اور2کا سپاہ صحابہ
سے تعلق ثابت ہو گیا ، اب حکومت کارروائی کیوں نہیں کر رہی؟
وسیم شیخ
کراچی ، پاکستانی کا اقتصادی شہ رگ ان دنوں سیاسی جماعتوں کے درمیان قبضے کی جنگ میں اپنی تمام سرگرمیاں ماند کر چکا ہے ۔سیاسی جماعتوں کے ٹارگٹ کلرز چن چن کر اہنے اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے اتحادیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں خود حکومت کا دھڑن تختہ ہو سکتا ہے۔حکومت نے اب تک کی کارروائیوں میں ملوث 26ٹارگٹ کلرز گرفتار کئے ہیں جنہوں نے دوران تفتیش بہت سے انکشافات کئے ہیں لیکن اس سے پہلے ذرا بتا دیا جائے کہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے گذشتہ مہینہ کیسا رہا؟
مارچ کا خونی مہینہ، 200 گھرانوں کے چراغ گل، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مقامی رہنماؤں سمیت درجنوں کارکنان کو بھی موت کی ابدی نیند سلا کر ا ختتا م پذیر ہو ا ہے۔،ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے افراد میں پیش امام، پولیس افسران، اہلکار، وکیل اور انجینئر بھی شامل تھے جبکہ دہشت گردوں نے خون کی ہولی کے دوران کم سن بچوں، خواتین بوڑھوں کو بھی نہیں بخشا۔ مسلح ملزمان نے شہر کے مختلف مقامات اور مختلف اوقات میں خون کی بدترین ہولی کھیلتے ہوئے 200 کے لگ بھگ افراد کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے علاوہ سینکڑوں افراد کو لہو لہان بھی کیا۔ گذشتہ ماہ جن اہم افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا ناشانہ بنایا گیا ان میں 5 مارچ کو نامعلوم مسلح ملزمان نے خواجہ اجمیر نگری کے علاقے میں اہلسنت و الجماعت کے رہنما مولانا احمد مدنی کے بیٹے مولانا ابوبکر سمیت 21 مارچ کو میٹروول سائٹ میں عوامی نیشنل پارٹی کے مقامی رہنما اور صوبائی وزیر محنت کے کوآرڈینیٹر ایڈووکیٹ حنیف خان، 25 مارچ متحدہ قومی موومنٹ کے سابق یو سی ناظم محمد عمران عرف جنگی اورنگی ٹاؤن میں جامع مسحد حناء کے پیش امام قمر الہدیٰ اشرفی سمیت مارچ کو مہینے میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے درجنوں کارکنان، پولیس افسران و اہلکاروں کو چن چن کر ہدف کا نشانہ بنایا۔ ا
قتل و غارگ گری کے دلدادہ افراد نے شہر میں معصوم و کم سن بچوں، خواتین اور بوڑھوں کو بھی نہیں بخشا اور انہیں بھی خون میں لت پت کر کے موت کی ابدی نیند سلا دیا۔ مارچ کے مہینے میں نا معلوم دہشت گردوں نے 23 مارچ کو یعنی یوم پاکستان والے روز ملیر کالا بورڈ کے علاقے میں واقع جامع مسجد مصطفیٰ پر یکے بعد دیگر 2 راکٹ لانچر داغے جن میں سے ایک مسجد کی دیوار شہید کرنے کا باعث بنا جب کہ دوسرا خالی گراؤنڈ میں جا گرا، علاوہ ازیں مذکورہ ماہ کے دوران بزنس روڈ پر واقع متحدہ کے سیکٹر آفس، رنچھوڑ لائن میں یونٹ آفس سمیت دیگر مقامات پر دستی بموں سے حملے کیے گئے۔
کراچی میں مسلسل کشیدگی اور قتل و غارت کی گہری لپیٹ میں رہنے والے علاقوں کے درجنوں مکین ان علاقوں سے شہر کے دیگر محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی کر گئے ہیں اور اس رجحان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ٹارگٹ کلرز کون ہیں ؟
اب جائزہ لیتے ہیں کہ یہ ٹارگٹ کلرز کون ہیں ؟ ان کے مقاصد کیا ہیں ؟اور یہ کیوں ایسا کر رہے ہیں ؟
سب سے پہلے یہ بتا دیا جائے ۔ یہ کراچی کے حالات خراب مسلسل خراب رکھنا دراصل ایک عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے ۔کراچی کی سیاست کے تین بڑے ’’ سٹیک ہولڈرز ‘‘ ہیں ۔ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم اور اے این پی۔ان تینوں جماعتوں کا کراچی کے مختلف علاقوں پر کنٹرول ہے ۔ ایم کیو ایم یہ کسی صورت برداشت نہیں کر سکتی کہ کوئی باہر سے آ کر اس کے علاقوں میں کنٹرول کرے ، اسی طرح اے این پی بھی یہ نہیں چاہتی کہ پختونوں کے علاقے میں ایم کیو ایم کو کنٹرول ہو ۔ پیپلز پارٹی کسی صورت بھی اپنے علاقے کھونا نہیں چاہتی۔
پیپلز پارٹی چونکہ اقتدار میں ہے اسلئے سب کچھ اس کے پاس ہے۔ اس لئے ٹا رگٹ کلنگ کے حوالے سے پیپلز پارٹی بچی ہوئی ہے۔ اصل لڑائی ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان ہے ۔ کچھ اور فیکٹر ایم کیو ایم حقیقی فرقہ ورانہ بھی ہیں ۔
یہاں اس رپورٹ کا حوالہ بہت ضروری ہے جو سندھ کے محکمہ داخلہ نے تیار کی ہے اور جس میں آئی ایس آئی ، پولیس آئی بی اور رینجرز کے افسران نے ایک جوائنٹ انٹیروگیشن کے ذریعے گرفتار تارگٹ کلرز کے منہ کھلوائے ۔
کراچی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے ہونے والی 2010ء میں تحقیقات اور اس سلسلے میں 26ملزمان کی گرفتاری اور تمام اہم سرکاری ایجنسیوں کی مشترکہ تحقیقاتی سرکاری رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں گرفتارشدگان میں سے اکثریت کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ جبکہ دیگر ایم کیو ایم حقیقی ، لشکر جھنگوی ،سپاہ محمد ، عوامی نیشنل پارٹی اور سپاہ صحابہ پاکستان سے تعلق رکھنے کے دعویدار ہیں۔یہ خوفناک رپورٹ بیانات ، اعترفات، انکشافات، گرفتار ہونے والے ٹارگٹ کلرزکی جرائم کی تاریخ سمیت جنوبی افریقا سے روابط پر مشتمل ہے۔
وزارت داخلہ سندھ کی جانب سے تیار کی گئی یہ رپورٹ کسی بم کے گولے سے کم نہیں ہے اور اسے صدر ،وزیراعظم ، وزارت داخلہ اور صوبائی و وفاقی حکومت میں تمام متعلقین کو بھیج دی گئی ہے۔اس سلسلے میں معروف صحافی انصار عباسی نے بھی ایک رپورٹ شائع کی ۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے اعتراف کرنے والوں کی اکثریت عادی مجرم اور معمول کی قاتل ہے۔متعدد کاماضی مجرمانہ سرگرمیوں سے بھرا ہوا ہے، ان کو جیل بھی ہوئی ہے اور پھر رہا ہونے کے بعددوبارہ اسی ڈگر پر چل پڑے۔
ان ملزمان سے پوچھ گچھ کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں میں آئی ایس آئی ، آئی بی ، پولیس، اسپیشل برانچ،سی آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندے شامل تھے۔سرکاری دستاویزات میں ٹارگٹ کلرز کی 3کٹیگریز بنائی گئی ہیں۔
پہلی کٹیگری میں وہ جرائم شامل ہیں جو کسی گروپ یا پارٹی کی ہائی کمان کے مبینہ حکم پر کئے گئے۔
دوسری کٹیگری میں وہ جرائم شامل ہیں جن میں مجرموں نے مذموم مقاصد کی تکمیل اور پارٹی یا گروپ کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انجام دیئے۔
تیسری کٹیگری میں مجرموں کے وہ چھوٹے گروپ شامل ہیں جن کا تعلق فرقہ وارانہ و نسلی گروپوں سے ہے جو کہ اپنے تئیں اپنے اہداف چنتے اور انہیں قتل کرتے ہیں۔
ٹارگٹ کلنگ کے الزام میں گرفتار ہونے والے ملزمان کی تعداد26ہے جن کو2010ء میں گرفتار کیا گیاتھا۔ان 26 میں سے14کا تعلق ایم کیو ایم ،3کا ایم کیو ایم حقیقی،5کا لشکر جھنگوی،2کا سپاہ صحابہ سے ہے اور اے این پی و سپاہ محمد سے بھی ایک ایک کا تعلق ہے۔ایم کیو ایم سے جن کا تعلق ہے ان میں حبیب الرحمن ولد مجید الرحمن، مراد اختر صدیقی ولد منہاج الدین صدیقی،سلطان عرف کپل عرف محمد سلیمان، جمال عبدالناصر عرف کمانڈو،طاہر علی عرف توپچی، عمران عرف عرفان لمباولد ایس محبوب علی،شارق نفیس عرف شیری ولد محمد نفیس شیخ،عاطف رشید عرف گھوڑاولد عبدالرشید،اکرام عرف اکوولد حبیب اللہ، انس بن ہارون ولد سید ابو اسد،محمد اشتیاق عرف سلیمان عرف پولیس والا، محمد یٰسین ولد عبدالحق اور رضوان محمودعرف خالدچیمبرولد محمود خان شامل ہیں۔ٹارگٹ کلنگ کے کیسوں میں 5مشتبہ افراد کا تعلق لشکر جھنگوی سے ہے جن میں وسیم احمد عرف بارودی،محمد عبداللہ عرف تیمورولدایم ریاض شاہد،حافظ اخلاق ولد پرویز اختر،نسیم حیدر عرف فرعون ولد غلام حیدراور آصف رشید عرف دنبہ ولد ہارون رشید شامل ہیں۔ایم کیو ایم حقیقی سے تعلق رکھنے والے 3ملزمان مقبول حسین ولد علی حسن،اظہر علی عرف انکل عر ف بابوولد عبدالرحمن اور عبدالعزیز انصار ولد عبدالعزیز انصاری ہیں۔
سپاہ صحاہ سے تعلق رکھنے والے ناصر قادری ولد عبدالقدیراور محمد شعیب ولد محمد علی ہیں۔اے این پی کا مشوار نوازعرف مشواری ولد انور خان جبکہ سپاہ محمد سے سید علی مہدی عرف سلیمان ولد سید جعفر علی سے ہے۔صرف ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے مراد اختر صدیقی ولد منہاج الدین صدیقی کے علاوہ تقریباً سب کو قتل و لوٹ ماروغیرہ میں ملوث ہونے کی وجہ سے ’بلیک‘قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ مراد صدیقی کو ’وائٹ ‘درجہ دیا گیا ہے کیونکہ وہ ماضی میں بھی کسی جرم میں ملوث نہیں رہااور جس قتل کیس میں اس کی گرفتاری عمل میں آئی ہے وہ اس کیس میں بھی بے قصور ہے۔
ان انتہائی خطرناک ٹارگٹ کلرز میں سے ایک (اشتیاق)نے مبینہ طور پر کراچی میں کئی پولیس اہلکاروں کو قتل کرنے کا اعتراف بھی کیا ہے اور اپنا تعلق متحدہ قومی موومنٹ کے ’’عسکری ونگ‘‘ سے بتا رہا ہے۔ اسی شخص نے ڈاکٹر عمران فاروق کو اپنا رابطہ کار بتایا ہے جبکہ اجمل پہاڑی کی شناخت بطور ایم کیو ایم کے کارکنوں میں سے ایک کی حیثیت سے کی ہے۔ 2010ء میں عمران فاروق کے قتل سے قبل گرفتار کیے گئے ٹارگٹ کلر محمد اشتیاق عرف سلمان عرف پولیس والا نے آئی ایس آئی، آئی بی، رینجرز، سی آئی ڈی، سندھ پولیس اور اسپیشل برانچ کے افسران پر مشتمل مشترکہ تفتیشی ٹیم کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ تقریباً 100/ لوگوں کے قتل میں ملوث کراچی سے حال ہی میں گرفتار ہونیوالا شخص اجمل پہاڑی ایم کیو ایم کا رکن ہے۔ ایک طرف اشتیاق یہ بیان دیتا ہے تو دوسری طرف اس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق اور اجمل پہاڑی پارٹی پالیسی کے بغیر ہی یہ قتل کیا کرتے تھے۔ اس بات کو دیکھ کر اشتیاق کے انکشافات متنازع ہوجاتے ہیں۔ تفتیشی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’اشتیاق نے مزید انکشاف کیا ہے کہ کئی جنگجو (Militants) ڈاکٹر عمران فاروق کے ساتھ براہ راست رابطے میں تھے۔ مثلاً اجمل پہاڑی اور سعید بھرم نے عمران فاروق کے کہنے پر، پارٹی پالیسی سے ہٹ کر، کئی لوگوں کو قتل کیا۔ اکثر و بیشتر قتل کی یہ وارداتیں ذاتی مفاد کے حصول اور ذاتی دشمنیاں نمٹانے کیلئے کی جاتی تھیں۔ سندھ کے محکمہ داخلہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2010ء کے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے سلسلے میں جن 26/ ملزمان کو گرفتار کرکے تفتیش کی گئی ہے ان کا تعلق ایم کیو ایم، ایم کیو ایم (حقیقی)، اے این پی، سپاہ صحابہ، سپاہِ محمد اور لشکر جھنگوی سے ہے۔ رپورٹ میں اشتیاق نے جو انکشافات کیے ہیں وہ یہ ہیں:
ایم کیو ایم (اے) کے عسکری ونگ کے ساتھ وابستگی
’’ اس نے ایم کیو ایم (اے) میں 1996۔97ء میں لیاقت آباد سیکٹر سے شمولیت اختیار کی۔ گولڈن پان شاپ کے سامنے اسلحہ کی نمائش کے الزام میں عزیزآباد پولیس نے اسے 1997ء میں گرفتار کیا۔ شعیب بخاری کی طرف سے اجازت ملنے پر ایس ایچ او نے سیکشن 13۔d کے تحت اشتیاق کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ جیل میں اس کی ملاقات ایم کیو ایم (اے) کے ان کارکنوں / دہشت گردوں سے ہوئی جنہیں آپریشن کے عرصے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ جیل سے رہائی کے بعد اس نے فہیم عرف کن کٹا سے ملاقات کی جس نے اسے 1997ء میں ایم کیو ایم کے عسکری ونگ میں شمولیت کیلئے رضامند کیا۔ چونکہ وہ اپنی ملازمت سے معطل ہوچکا تھا اسلئے اکتوبر 1997ء میں جنوبی افریقا چلا گیا اور وہاں 9/ ماہ قیام کیا۔ وہ اگست 1998ء میں واپس آیا اور اسے اس آپریشن میں گرفتار کرلیا گیا جو اکتوبر 1998ء میں حکیم سعید کے قتل کے بعد شروع کیا گیا تھا۔ اسے ایس ایچ او عزیز آباد انسپکٹر غضنفر کاظمی نے گرفتار کیا۔ اسے قتل کے پانچ، 13۔d کے ایک، 13۔e کے ایک اور 147/148 کے ایک کیس میں چالان کیا گیا۔ وہ دو سال بعد جیل سے رہا ہوا اور 2003ء میں شعیب بخاری کی سفارش پر اسے ملازمت پر بحال کردیا گیا۔ آئندہ 4۔5 سال تک وہ پارٹی میں غیر سرگرم رہا۔ ڈھائی سال قبل، عدیل بھائی لندن سے آیا اور اس نے اشتیاق سے رابطہ کیا۔ عدیل بھائی اسے جانتا تھا کیونکہ وہ جنوبی افریقا میں عدیل کے ساتھ کام کرتا تھا۔ عدیل بھائی نے پارٹی کیلئے ’’نیا نظام‘‘ بنانے کیلئے جنگجو بھرتی کرنے کا کام دیا۔ ’’نیا نظام‘‘ قاتلوں کی نئی ٹیم تشکیل دینے کیلئے ایک خفیہ نام تھا۔ اس سلسلے میں اس کی ملاقات عبید K۔2 سے ہوئی لیکن عبید کے ٹو نے اسے بتایا کہ وہ پہلے ہی دوسرے سیٹ اپ میں یعنی اجمل پہاڑی کے ساتھ کام کررہا ہے، اس نے اشتیاق کو رافع سے رابطہ کرنے کو کہا۔ رافع عبید کا دوست تھا۔ اشتیاق نے رافع کی ملاقات عدیل سے کروائی۔ یہ ملاقات 5/A2 نیو کراچی میں ہوئی۔ عدیل نے اسے ٹیم بنانے کی اجازت دی اور رافع کی ٹیم میں دانش، فیصل، عرفان عرف عرفی اور نومی شامل تھے۔ ملاقات کے 10/ دن بعد رافع اپنی پوری ٹیم لے کر عدیل کے ساتھ ملاقات کیلئے پہنچا۔ عدیل نے انہیں اسے کہا کہ وہ اپنی طور پر ٹیم کے معاملات سنبھالے کیونکہ وہ ٹیم کے دیگر ارکان کے ساتھ براہِ راست رابطہ نہیں رکھناچاہتا۔ اس بات کے ایک سال بعد، عدیل نے اسے دو مزید ٹیمیں بنانے کی اجازت دی جس میں لانڈھی کا محمد بھائی عرف حسن اور اورنگی کا سلطان بھائی شامل تھے۔ کورنگی میں ٹیم چلانے والا جہانگیر بابو بھی رافع کو رپورٹ دیتا تھا۔
انکشافات / معلومات
30/ بور کا غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں اسے 1997ء میں عزیز آباد میں گرفتار کیا گیا۔ مقدمہ 13۔d کے تحت درج کیا گیا اور اسے تین ماہ جیل بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد وہ آصف دادن اور نسیم عرف نسیم بہاری (لیاقت آباد والا) کے ساتھ جنوبی افریقا چلاگیا اور وہاں پناہ لے لی۔ وہ جنوبی افریقا میں ایم کیو ایم (اے) گروپ میں شامل ہوا۔ نیو کراچی سیکٹر کا رضا بھائی جنوبی افریقا ایم کیو ایم (اے) گروپ کا انچارج تھا، اور قمر غالب اور قمر ٹیڈی بھی جنوبی افریقا کے سیٹ اپ میں انتہائی حد تک سرگرم تھے۔ تقریباً 9۔10/ ماہ بعد وہ آصف بھائی کے ہمراہ پاکستان آیا۔ کریانہ کا سامان اور گھر کا کرایہ پارٹی ادا کرتی تھی لیکن گوشت اور کپڑوں کا انتظام خود کرنا ہوتا تھا۔ اپنی واپسی پر وہ ایک مرتبہ پھر لیاقت آباد میں سرگرم ہوگیا اور ایک سال بعد یعنی 1999ء میں ایس ایچ او غضنفر کاظمی کے ہاتھوں عزیز آباد میں گرفتار ہوا۔ اسے ایم کیو ایم حقیقی کے کارکنوں اسمٰعیل برمی، نسیم اور اسلم، پولیس کانسٹیبل اور ایک پارٹی ورکر شیرا بھائی کے قتل سمیت 7/ مقدمات میں چالان کیا گیا۔ اسے 2/ سال قید کی سزا ہوئی۔ 2001ء میں وہ اے ڈی جے سینٹرل سے ضمانت پر رہا ہوا۔ ایک مرتبہ پھر وہ لیاقت آباد سیکٹر میں سرگرم ہوگیا اور پارٹی کیلئے کام کرنے لگا۔ 2003ء میں شعیب بخاری نے اسے پولیس سروس میں اسپیشل برانچ میں بحال کرایا۔
ایس ایس پی محمد اسلم خان پر حملہ
(کیس ایف آئی آر نمبر 07/2010، گزری پولیس اسٹیشن کلفٹن ٹاؤن، کراچی)
عدیل بھائی عرف آغا نے اسے بتایا کہ شکیل عمر، جو اس وقت شہر بھر میں ایم کیو ایم کے تمام جنگجوؤں کو کنٹرول کر رہا تھا، نے اجمل پہاڑی کی ٹیم کو ایس ایس پی محمد اسلم خان کے قتل کی ذمہ داری دی ہے۔ اس ٹیم نے پنجاب چورنگی پر محمد اسلم خان پر حملہ کیا جس میں ایس ایس پی کے دو محافظ جاں بحق ہوئے۔
ڈی ایس پی (ریٹائرڈ) رحیم بنگش کیس
(کیس ایف آئی آر نمبر 517/2010 سیکشن 302/34 تعزیرات پاکستان پولیس اسٹیشن میٹھا در، صدر ٹاؤن، کراچی)
تقریباً 18/ ماہ قبل سیکٹر 5۔A1/2 کے سیکٹر آفس میں اس کی ملاقات عدیل بھائی اور رافع سے ہوئی۔ عدیل بھائی نے اس سے ڈی ایس پی رحیم بنگش کے متعلق پوچھا۔ اس نے انہیں بتایا کہ رحیم بنگش ریٹائر ہوچکا ہے اور اس کا آپریشن سے کوئی تعلق نہیں۔ اس نے انہیں کوئی معلومات نہیں دی۔ عدیل بھائی نے اپنے طور پر معلومات حاصل کیں اور تقریباً 5/ سے 7/ روز بعد اسے دوبارہ بلایا اور اسے ٹیم کی مدد کرنے کو کہا کیونکہ یہ آرڈر اوپر سے آیا تھا۔
رافع نے اسے بلایا اور کہا کہ وہ طے شدہ پتہ یعنی یونی پلازہ کے ساتویں فلور پر ہے (جہاں رحیم بنگش کا کمرہ تھا)۔ رافع نے اسے بتایا کہ وہ رحیم بنگش کو نہیں پہچانتا اور اسے اشتیاق کی مدد کی ضرورت ہے۔ اشتیاق نے اسے بتایا کہ وہ اس دن نہیں آسکتا، اگلے دن آئے گا۔ عبید کے ٹو نے بھی اسے بلایا اور ٹارگٹ کی شناخت کیلئے کہا۔ اگلے روزوہ ٹیم کے ساتھ گیا جس میں رافع، عبید کے ٹو، جو صرف ٹیم کی مدد کیلئے آیا تھا، اور عرفی شامل تھے۔
وہ یونی پلازہ کے باہر کھڑا رہا جبکہ ٹیم اوپر گئی اور بنگش کا پیچھا کیا۔ جس کے بعد اس سے تصدیق کی گئی کہ آیا یہی رحیم بنگش تھا؛ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ اگلے دن عدیل بھائی نے اس سے پوچھا کیا کہ اس نے بنگش کی شناخت کردی تھی تو اس نے اثبات میں جواب دیا۔ اس بات کے دو دن بعد عبید عرف کے ٹو نے فون کرکے مخفی الفاظ میں پیغام دیا (فائل ہوگئی)۔