Published On: Thu, May 19th, 2011

ایبٹ آباد آپریشن ، ناکامی اور کامیابی کی بحث

Share This
Tags
عامر جمیل
یکم اور 2 مئی کی درمیانی رات ایبٹ آبا د میں ہونے والا امریکی نیوی سیلز کا آپریشن 40منٹ میں ختم ہوگیا لیکن دنیا کی تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا۔ اس ضمن میں پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس کو بیرون ملک اور اندرون ملک آڑے ہاتھوں لیاجارہا ہے اور اسے شدید تنقید کا سامنا ہے اور کہا جارہا ہے کہ یہ آئی ایس آئی کی ناکامی ہے۔
اس مضمون کا عنوان آئی ایس آئی کی ناکامی اور سی آئی اے کی ناکامی سے عبارت ہے۔ اس ضمن میں ایک اہم سوال جو ابھی تک سامنے نہیں آسکا وہ یہ ہے کہ کہا یہ جارہا ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹرز کی آمد کی اطلاع پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے گارڈز کے توسط سے اس وقت ہوئی جب وہ ہیلی کاپٹرز تکنیکی خرابی کے سبب گرا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہ ہیلی کاپٹر تباہ نہ ہوتا تو کیا پاکستان کو اس آپریشن کا علم ہو پاتا یا پھر 2مئی کی صبح پاکستان کے وقت کے مطابق 8بجے ہمیں اوباما کے ذریعے یہ پتہ چلتا کہ امریکہ نے اسامہ بن لادن کو نامعلوم مقام سے زندہ گرفتار کر لیا یا ہلاک کردیا؟ اس تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کےCIA اسامہ کو مار کر بھی اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکی کیونکہ ہیلی کاپٹر تباہ نہ ہوتا تو امریکہ اور اس کی ایجنسی پاکستان پر نہ صرف دباؤ ڈالتے بلکہ اندھی معلومات کی بنیاد پر پاکستان میں مزید کارروائیاں کرتے اور امداد بھی بند کردیتے لیکن ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینی چاہئے کہ پاکستان کی فضائی، بحری اور زمینی سرحدوں کی نگہبانی میں کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اس کے ذمہ داروں کو بھی سزا ملنی چاہئے یا پھر اس بات کاہمیں ادراک کرنا چاہئے کہ ہمارے پاس وہ صلاحیت نہیں تھی جس کی مدد سے ہم امریکی ہیلی کاپٹرز کی آمد کو دیکھ سکتے۔ امریکی آپریشن کو بعض عناصر مشرقی پاکستان سے بھی بڑا واقعہ قرار دے رہے ہیں تو ان کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ1971ء میں بھی فوجی شکست کے بعد پاکستان کے اس وقت کے سیاسی اکابرین نے فوج کو اس طرح آڑے ہاتھوں نہیں لیا تھا جس طرح آج لیا جارہا ہے اور ہمارے اس طرز عمل سے فوج کا مورال گر سکتا ہے اور آج امریکہ نے یہ کارروائی کی ہے، کل اسرائیل اور انڈیا بھی اس قسم کے سرجیکل آپریشنز کی جرات کرسکتا ہے لہٰذا وقت یہ تقاضا کررہا ہے کہ اس واقعے کے اثرات و مضمرات کا جائزہ لیا جائے اور اس میں کوتاہی برتنے والے افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے لیکن اس کو بنیاد بنا کر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور فوج کا مورال تباہ کرنے سے ہمیں اجتناب کرنا چاہئے۔
دنیا بھرمیں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے آپریشنز پر کارروائیاں ناکامی اور کامیابیوں سے عبارت ہیں۔ کسی بھی ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی اگر کسی بارے میں لاعلم رہتی ہے تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹرز پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے، کارروائی کی اور چلے گئے۔ وہاں اسامہ تھا یا نہیں، وہاں لا کر مارا گیا تھا یا کوئی اور کہانی اس آپریشن کے پیچھے ہے؟ اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اتنی صلاحیت رکھتا تھا کہ ان ہیلی کاپٹرز کو روک سکتا؟ تو جواب یقیناًنفی میں آئے گا۔
پاکستان کے سفارتی ذرائع اس آپریشن سے کیوں لاعلم رکھے گئے، یہ ایک طویل بحث ہے جو پاکستان کے طول و عرض میں ہو رہی ہے۔ کچھ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں جن میں یہ بھی ہے کہ اگر پاکستان کی افواج ان ہیلی کاپٹرز کو مار گراتی تو بعد کا منظر کیا ہوتا؟ اور کیا پاکستانی حکام اس آپریشن سے باخبر تھے؟ اور بے خبر تھے تو امریکی سی آئی اے اور انتظامیہ نے ان اداروں پر اعتماد کیوں نہیں کیا؟ اس کو ایک وسیع تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ پاکستان امریکہ تعلقات گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہیں اور وہ اسی قسم کے نشیب و فراز سے پر ہیں۔ پاکستان کی ضرورت امریکہ کو ہوتی ہے تو وہ قانون سازی کے ذریعے پاکستان کی فوجی اور اقتصادی امداد بحال کردیتا ہے اور جب کام نکل جاتا ہے تو پریسلر ترمیم جیسے قوانین کے ذریعے پاکستان کی امداد بند کردی جاتی ہے لیکن9/11کے بعد صورتحال خاصی مختلف ہوچکی ہے۔ امریکہ اور پاکستان نے جن عناصر کو جنگ افغانستان میں استعمال کیا اب وہ ان دونوں ممالک سے برسر پیکار ہیں اور نتائج دہشت گردی ، خون خرابے کی شکل میں پاکستان کو بھگتنا پڑرہے ہیں۔
9/11کے بعد امریکہ میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما نہیں ہوا اور اس واقعے کی سب سے بھاری قیمت پاکستان نے ادا کی ہے۔ انتہا پسندی اور مسلح افواج کے جوانوں کی شہادتیں جیسے تمام عوامل اس میں شامل ہیں۔ پاکستان کا اقتصادی ڈھانچہ مسلسل دباؤ کا شکار ہے۔پاکستان کے سیاسی اکابرین ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور نیچا دکھانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ ملک کی عسکری قیادت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو بریفنگ دی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ قانون سازوں نے باہر آکر اس بند کمرہ اجلاس کی کارروائی سے میڈیا کو آگاہ کیا۔ حتیٰ کہ پارلیمنٹ ہاؤس سے بھی بذریعہ ٹیلی فون چینلز کو اپ ڈیٹ کیاجارہا تھا۔ تو جس ملک کی سیاسی قیادت کا یہ کردار ہو کہ وہ اپنے حلف سے روگردانی کرتے ہوئے اس قسم کے عمل میں شریک رہے تو وہ ملک کس طرح مستحکم ہوسکتا ہے۔

Leave a comment