دس ارب روپے کے اثرات ختم، ملک میں بجلی کے بحران کا ایک بار پھر خدشہ
اسلام آباد/سٹاف رپورٹ
ملک میں بجلی کے بحران اور طویل دورانیہ کی لوڈشیڈنگ کا ایک بار پھر خدشہ پیدا ہوگیا ہے ، کیونکہ پاور پلانٹس کو ایندھن کی فراہمی کیلئے وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کئے گئے 10 ارب روپے کے اثرات تحلیل ہونے لگے ہیں۔ اس بحران سے نمٹنے کی حکمت عملی طے کرنے کیلئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے آج ایک اہم اجلاس طلب کر لیا ہے۔سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود جو دبئی میں ہیں، توقع ہے کہ وہ اجلاس میں شرکت کیلئے آج اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔بجلی کی دستیابی اور ایندھن کی فراہمی کی موجودہ سطح برقرار رکھنے کیلئے وزارت پیٹرولیم و قدرتی وسائل پی ایس او کو ادائیگیوں کے حوالے سے ماہانہ 20 ارب روپے مانگے ہیں۔ دریں اثناء ملک کی تمام آئل ریفائنریوں نے عدم ادائیگی کی وجہ سے پی ایس او کو ایندھن کی فراہمی بڑی حد تک کم کر دی ہے۔ سرکاری آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ریفائنریوں کے 69 ارب روپے کے بقایا جات ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ وزارت پیٹرولیم کے ایک سینئر افسر کے مطابق ریفائنریوں سے پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی میں پی ایس او کا حصہ جو 50 فیصد ہے وہ گھٹ کر اب 15 فیصد رہ گیا۔ پی ایس او کو اپنے بقایا جات کی ادائیگی کیلئے 86 ارب روپے درکار ہیں۔ اپنی مالی مشکلات کے باعث پی ایس او نہ صرف مقامی ریفائنریوں بلکہ کویت پیٹرولیم کمپنی کی ڈی فالٹ ہو کر اس حوالے سے ریڈ زون میں آگئی ہے۔ سیکرٹری وزارت پیٹرولیم و قدرتی وسائل محمد اعجاز چوہدری کے مطابق وزارت خزانہ کی جانب سے جاری 10 ارب روپے صورتحال بہتر بنانے کیلئے ریفائنریوں میں تقسیم کر دیئے گئے ہیں اور اب موجودہ کیفیت کو برقرار رکھنے کیلئے پی ایس او کو 20 ارب روپے درکار ہیں، پی ایس او کی حالیہ لیکویڈٹی پوزیشن کے مطابق مختلف پاور کمپنیوں پر اس کی واجب الادا رقوم بڑھ کر 142.9 ارب روپے تک جاپہنچی ہیں جس میں سے 121 ارب روپے صرف حبکو، پیپکو اور کیپکو پر واجب الادا ہیں، اسی طرح پی آئی اے پر 2.05 ارب روپے، کے ای ایس سی پر 6 ارب اور پاکستان ریلویز پر 18 کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔ دوسری جانب پی ایس او کی جانب سے مختلف ریفائنریوں کو واجب الادا رقوم 155 ارب روپے تک جا پہنچی ہیں جس میں سے پارکو کے 31.021 ارب، پاکستان ریفائنری کے 8.8 ارب، نیشنل ریفائنری کے 9.3 ارب، اٹک ریفائنری کے 16.9 ارب، بوسیکار کے 2.3 ارب اور دیگر کے 51 کروڑ 20 لاکھ روپے شامل ہیں۔