کوئٹہ میں 2خود کش حملے ،ایف سی ٹارگٹ ،16افراد جاں بحق، 30زخمی
خود کش حملہ آور نے فائرنگ کرتے ہوئے ڈی آئی جی ایف سی کے گھر میں داخلے کی کوشش کی
سٹاف رپورٹ
کوئٹہ میں سول لائنز کے علاقے میں کمشنر آفس کے قریب دو خود کش حملوں میں کم از کم16افراد جاں بحق ہو گئے۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ ایک خود کش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی ایف سی اہلکاروں کی گاڑی سے ٹکرا دی جبکہ دوسرے خود کش حملہ آور نے فائرنگ کرتے ہوئے ڈی آئی جی ایف سی کے گھر میں داخلے کی کوشش کی اور دھماکا کر دیا۔ دونوں دھماکوں کے نتیجے میں 3ایف سی اہلکاروں سمیت16افراد جاں بحق جبکہ 28سے زائد زخمی ہوگئے۔ دھماکے سے عام افراد زیادہ متاثر ہوئے جو جائے وقوع سے رکشہ ، عام گاڑیوں میں گذر رہے تھے۔ دھماکے اس قدر شدید نوعیت کے تھے کہ دھماکے کی جگہ پر گڑھا پڑ گیا اور تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کے علاقے میں عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ دھماکوں کے بعد سول اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ادھر سی سی پی او احسن محبوب نے بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے دو دھماکے کیے جن کا نشانہ فر نٹےئر کور کے ڈی آئی جی بریگیڈیر فرخ شہزاد تھے۔ سی سی پی او نے بتایا کہ ڈی آئی جی زخمی ہوئے ہیں اور ان کو سی ایم ایچ لے جایا گیا ہے۔پہلا دھماکہ اس وقت ہوا جب بریگیڈئر صاحب اپنے گھر سے نکلے ہیں تو ان کی گاڑی کو روکا گیا ہے اور ایک بڑی گاڑی میں دھماکہ کیا ہے۔ پھر ان کے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہاں پر بھی کچھ لوگ مارے گئے ہیں۔ اس کے بعد ایک خودکش حملہ آور اندر داخل ہوا ہے اور اس نے گھر کے صحن میں جاکر دھماکہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان حملوں میں ڈی آئی جی بریگیڈیر فرخ شہزاد کی اہلیہ اور ایف سی کرنل خالد مسعود بھی ہلاک ہوگئے ہیں۔پہلے دھماکے کے فوری بعد کرنل خالد بریگیڈئر شہزاد کے گھر پہنچ گئے تھے اور جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئے تو ان سے کچھ فاصلے پر موجود خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑادیا جس میں مسز شہزاد اور کرنل خالد بھی ہلاک ہوگئے۔انہوں نے بتایا کہ حملہ آوروں کی تعداد اندازاً چار سے چھ کے درمیان تھی۔
اس وقت دنیا کو سب سے بڑا درپیش چیلنج دہشت گردی ہے اس پر سب متفق ہیں۔ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہے اور یہ قابل مذمت ہے۔ اسلام میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں اور طالبان اور القاعدہ دہشت گرد تنظیمیں ہولناک جرائم کے ذریعہ اسلام کے چہرے کو مسخ کررہی ہیں۔ برصغیرسمیت پُوری دنیا میں اسلام طاقت سے نہیں،بلکہ تبلیغ اور نیک سیرتی سے پھیلاجبکہ دہشت گرد طاقت کے ذریعے اسلام کا چہرہ مسخ کررہے ہیں۔
کسی بھی انسا ن کی نا حق جان لینا اسلام میں حرام ہے۔ دہشت گردی قابل مذمت ہے، اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں یہ بھی مسلم ہے۔ اور نہ ہی کوئی مذہب اس کی اجازت دے سکتا ہے۔
ایک مُسلم معاشرے اور مُلک میں ایک مُسلمان دوسرے مُسلمان کی جان کا دُشمن ۔مُسلمانیت تو درکنار انسا نیت بھی اسکی متحمل نہیں ہو سکتی کہ کسی بھی بے گناہ کا خون کیا جائے۔
اللہ تعالہ فرماتے ہین:
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘) المائدة، 5 : 32(
کہو، وہ (اللہ) اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔(سورۃ الانعام ۶۵)
وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور الللہ نے اُسکے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔(سورۃ النساء۔۹۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا۔
تم (مسلمانوں) کے خون، اموال اور عزتیں ایکدوسرے پر حرام ہیں، اِس دن (عرفہ)، اس شہر (ذوالحجۃ) اور اس شہر(مکہ) کی حرمت کی مانند۔ کیا میں نے تم تک بات پہنچا دی؟ صحابہ نے کہا ”جی ہاں۔
”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔”
مسلمان کو قتل کر دینا جہنم میں داخلے کا سبب ہے لیکن اس کا مصمم ارادہ بھی آگ میں داخل کر سکتا ہے۔
” جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے۔” صحابہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! ایک تو قاتل ہے (اس لیے جہنم میں جائے گا) لیکن مقتول کا کیا قصور؟ فرمایا ” اس لیے کہ اس نے اپنے (مسلمان) ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔”
مندرجہ آیت اور احادیث کی روشنی میں کسی پاکستانی اور مسلمان کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان میں مسلمانوں اور بے گناہ لوگوں پر خود کش حملے کرنے والے گمراہ لوگ ہیں جن کا دین اسلام کے ساتھ کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ ان کی یہ حرکت دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان کے لیے خوشیاں لے کر آئی ہے۔ پاکستان اور اسلام کے دشمن چاہتے ہیں کہ یہاں کا امن تباہ کر دیا جائے اور بدامنی کی آگ بڑھکا کر ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔ یہ لوگ پوری انسانیت کے قاتل ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔(المائدۃ۔۳۲)
طالبان اسلامی نظام نافذ کرنے کے داعی ہیں مگر اس مقصد کے حصول کے لئے وہ تمام کام برملا کر رہے ہیں جو قران و حدیث ،سنت نبوی اور اسلامی شرعیہ کے خلاف ہیں، لہذا ان کا اسلامی نظام نافذ کرنے کا دعوی انتہائی مشکوک اور ناقابل اعتبار ہے۔
جہاد وقتال فتنہ ختم کرنے کیلئے ہے ناکہ مسلمانوں میں فتنہ پیدا کرنے کیلئے۔طالبان قرآن کی زبان میں مسلسل فساد فی الارض کے مرتکب ہو رہے ہین۔معصوم شہری ، بے گناہ اور جنگ میں ملوث نہ ہونے والے تمام افراد ، نیز عورتیں اور بچوں کے خلاف حملہ “دہشت گردی ہے جہاد نہیں”۔۔۔۔۔ایسا کرنے والاجہنمی ہے اور ان کے اس عمل کو جہاد کا نام نہیںدیا جاسکتا ۔ طالبان ملا عمر کے Code of Conduct کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہین۔