خیبر پختونخواہ میں دہشت گردوں کی واپسی، مزید کارروائیوں کا خدشہ
سٹاف رپورٹ/
خیبر پختونخواہ میں عسکری تنظیموں کی طرف سے یکے بعد دیگرے بم ‘ خودکش حملوں اور میڈیا سے مسلسل رابطے بڑھانے سے ایک مرتبہ پھر کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جیسے عسکریت پسند اپنی واپسی کے نہ صرف اشارے دے رہے ہیں بلکہ آپس کے اختلافات ختم کرکے پھر سے منظم ہونے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں ماسوائے وزیرستان کے کوئی بھی ایسا علاقہ نہیں جس کے بارے میں کوئی حتمی طور پر یہ کہہ سکے کہ وہاں طالبان قابض ہیں یا ان کے اثر رسوخ میں اضافہ ہورہا ہے لیکن اب خیبر پختونخوا کے بعض اضلاع میں پے درپے حالیہ دھماکوں اور حملوں سے عسکریت پسند پھر سے ایک ایسا تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ جیسا وہ دوبار منظم ہوکر حکومت اورسیکورٹی فورسز کے لیے ایک چیلنج بنتے جارہے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے مہمند ایجنسی میں طالبان کمانڈر عمر خالداور باجوڑ ایجنسی کے عسکریت پسند کمانڈر مولوی فقیر محمد اور افغان طالبان کمانڈر قاری ضیاء4 الرحمان گروپوں کے درمیان اختلافات کی خبریں سامنے آئی تھیں لیکن اب بظاہر لگتا ہے کہ یہ تمام گروپ آپس کے اختلافات ختم کر کے پاک افغان سرحدی علاقوں میں ایک چھتری تلے منظم ہورہے ہیں۔پشاور شہر میں گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران 2 دھماکے ہوچکے ہیں جبکہ مالاکنڈ ڈویڑن کے اضلاع دیر اپر، دیر لوئر اور چترال میں صورتحال اس سے مختلف ہے جہاں نہ صرف طالبان مخالف لشکر کے افراد نشانہ بنے بلکہ سرحد پار سے بھی متعدد حملے کیے جا چکے ہیں۔سوات میں حالات سیکورٹی فورسز کے کنٹرول میں ہیں تاہم دیر اپر اور دیر لوئر کے اضلاع میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔باجوڑ، مہمند ایجنسی اور سوات میں آپریشنز کے بعد طالبان کے ذرائع ابلاغ سے رابطے کم ہوگئے تھے لیکن اب وہ دوبارہ میڈیا سے رابطے بڑھا رہے ہیں۔عام لوگ بھی طرح طرح کے سوالات اٹھا رہے ہیں اور ان میں تشویش بھی بڑھی ہے کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید طالبان کا خاتمہ ہوگیا ہے۔