جی ایچ کیو پر حملے کا مقصد 115 دہشت گردوں کو آزاد کرانا تھا, ڈاکٹرعثمان
سٹاف رپورٹ/
جی ایچ کیو پر حملے کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے یہ کہانی حملے کے دوران گرفتار ’’عقیل عرف ڈاکٹر عثمان‘‘ کے اعترافی بیان سے معلوم ہوئی ہے۔اب دو سال بعد حملے کی منصوبہ بندی کی نئے انکشافات سامنے آگئے۔ ڈاکٹر عثمان کا یہ کہنا ہے کہ حملے کا مقصد جی ایچ کیو میں موجود اعلیٰ فوجی افسران کو یرغمال بنانا اور اس کے بدلے 115گرفتار دہشت گردوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ جیو نیوز کی خصوصی رپورٹ کے مطابق 10 اکتوبر 2009ء ء کو مسلح افراد کا جی ایچ کیو ہیڈ کوارٹر پر حملہ ہوا ، 18گھنٹے اعصاب شکن مذاکرات کے بعد ایس ایس جی کمانڈوز نے فیصلہ کن کارروائی کی ، 9 دہشت گرد مارے گئے ایک عقیل عرف ڈاکٹر عثمان گرفتار کرلیا گیا۔ اب دو سال بعد فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملے کی منصوبہ بندی کے انکشافات سامنے آئے ہیں، فوجی عدالت کے سامنے ڈاکٹر عثمان نے حملے کی منصوبہ بندی کے بارے میں اعترافی بیان دیا۔ یہ وہی ڈاکٹر عثمان ہے جو سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کا بھی مرکزی کردار تھا، اس نے اعتراف کیا کہ وہ سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد شمالی وزیرستان فرار ہوگیا جہاں میرانشاہ میں اس کی ملاقات کالعدم تحریک طالبان کے امجد فاروقی گروپ کے رہنماؤں استاد اسلم یاسین اور الیاس کشمیری سے ہوئی اور وہیں پر جی ایچ کیو پر حملے کی سازش تیار کی گئی ، اس سازش نے پوری قوم کو حقیقتاً ہلا کر رکھ دیا۔ عثمان نے بتایا کہ وہ شروع میں فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھا لیکن پھر وہ تیار ہوگیا۔ منصوبہ بنایا گیا کہ جی ایچ کیو پر حملہ کرکے فوج کے اعلیٰ افسران کو یرغمال بنایا جائے گا اور بدلے میں 115 دہشت گردوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے گا جن کے ناموں کی فہرست بھی ایک اور شخص یاسین نے عثمان کے حوالے کردی۔ یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ دہشت گردوں نے حملے کی منصوبہ بندی کیلئے گوگل ارتھ سافٹ ویئر کی بھی مدد حاصل کی، عثمان کا کہنا ہے کہ جی ایچ کیو پر حملہ آسان نہ تھا، کئی ماہ حکمتِ عملی تیار کرنے اور ہتھیاروں کو جھنگ سے راولپنڈی تک پہنچانے میں صرف ہوئے جبکہ متعدد بار جی ایچ کیو کے مختلف راستوں کی ریکی بھی کی گئی۔ جنرل ہیڈکوارٹرز میں بریگیڈیئرز اور جنرلز کے بارے میں مکمل معلومات ایک اور شخص محمود نے فراہم کیں، اگست 2009ء4 ء4 میں منصوبے کو حتمی شکل دے دی گئی۔ راولپنڈی میں بلال بوائز ہاسٹل میں کمرہ کرائے پر لیا گیا اور جی ایچ کیوکی ریکی جاری رہی ، اِسی دوران ہتھیاروں کو گیس کے خالی سلنڈرز میں بھر کر راولپنڈی پہنچانے کا کام بھی مکمل کرلیا گیا، ستمبر 2009ءء میں ایک وین حاصل کرکے اس پر فوجی نمبر پلیٹس بھی لگادی گئیں جبکہ شناخت چھپانے کیلئے راولپنڈی سے 8 فوجی وردیاں بھی 30ہزار روپے میں خریدی گئیں، 10اکتوبر کی صبح دہشت گرد مری روڈ سے جی ایچ کیو کے قریب پہنچے اور مختلف پوزیشنز سے اپنے ہدف کی جانب بڑھے، 10میں سے 5 دہشت گرد ایک چیک پوسٹ پر حملے میں مارے گئے جبکہ دیگر 5 جی ایچ کیو کی عمارت میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ صبح 11 بجے دہشت گردوں نے جی ایچ کیو میں ملٹری انٹیلی جنس کی عمارت پر قبضہ کیا تاہم اْنہیں چاروں جانب سے گھیر لیا گیا، حملے کے بعد پورا دِن اور تمام رات دہشت گردوں سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا، جس میں کالعدم تنظیم کے دو رہنماؤں اور ایک مذہبی رہنما کو بھی شامل کرلیا گیا ، بات چیت ناکام ہونے پر اگلے روز صبح 6 بجے ایس ایس جی کمانڈوز نے جی ایچ کیو پر ہلہ بول دیا۔ مغویوں کی نگرانی پر مامور 4 دہشت گرد مارے گئے جبکہ زندہ بچ جانے والے عثمان نے بازی ہاتھ سے پلٹتے دیکھ کر عثمان نے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن ایک سیکورٹی اہلکار نے پہچان کر اْسے گرفتار کرلیا۔ ملزمان کے وکیل کا کہنا ہے کہ عقیل کا موقف مبینہ عداتی اعتراف کا حصہ ہے جسے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ، عدالتی بیان واقع کے 7 ماہ بعد ریکارڈ کیا گیا۔ 9/11 کے بعد پاک فوج میں بطور نرسنگ اسسٹنٹ بھرتی ہونے والا ڈاکٹر عثمان 2005ء ء میں فوج چھوڑ کر بھاگ گیا تھا، یہیں اس کی ملاقات ایک اور ملزم عمران صدیقی سے بھی ہوئی جو اس وقت فوج میں سپاہی تھا۔ صدیقی کو فوجی عدالت سے عمر قید کی سزا سنائی جاچکی ہے جبکہ عقیل احمد عرف ڈاکٹر عثمان اب کال کوٹھڑی میں موت کا منتظر ہے۔ ۔