امریکہ نے دنیا ٹی وی اور ایکسپریس ٹی وی کے دو بیورو آفس خرید لئے
مرضی کی خبریں چلوائی جائیں گی،امریکی ڈائریکٹرسے منطوری لینا لازمی
پاکستان کا نام نہاد آزار دالیکٹرانک میڈیا امریکہ کے اس قدر زیر اثرآ چکا ہے کہ اب امریکی پالیسیاں براہ راست نجی چینلز پر اثر انداز ہونے لگی ہیں ۔ بس اس کام کے لئے پیسہ پھینکنے کی دیر ہے اس کے بعد کہاں کی آزادی اور کہاں کے عوام ۔ اس کے بعد وہی چلے گا جو پیسہ دینے والے کہیں گے ۔تفصیلات کے مطابق امریکہ نے پاکستانی عوام کی اپنے حق میں ذہن سازی کرنے کیلئے میڈیا میں سرمایہ کاری کا نیا منصوبہ بنا ہے۔اس مقصد کے لئے پاکستان کے دو نئے نجی چینل دنیا ٹی وی اور ایکسپریس ٹی وی کے واشنگٹن میں بیور آفس خرید لئے گئے ہیں ۔ واشنگٹن میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی گرانٹ سے چلنے والے ادارے امریکہ ابراڈ میڈیا نے باقائدہ دونوں ٹی وی چینلز سے معاہدہ کر لیا ہے۔ معاہدے کے تحت دونوں ٹی وی چینلز کو ہر ماہ خطیر رقم ادا کی جائے گی۔ امریکی ادارے نے معروف صحافی غازی صلاح الدین کی صاحبزادی عالیہ صلاح الدین کو پروجیکٹ کوارڈنیٹر مقرر کیا گیا جسے ماہانہ اٹھ ہزار ڈالر کی تنخواہ دی جارہی ہے۔ عالیہ صلاح الدین کی مدد سے امریکہ ابراڈ میڈیا کے ڈائریکٹر مسٹر لوبلز نے دونوں ٹی وی چینلز کے مالکان دنیا ٹی وی کے میاں عامر محمود سے لاہور اور سلطان لاکھانی سے کراچی میں ملاقاتیں کیں اور معاہدے کئے جس کے تحت واشنگٹن میں ان کے رپورٹر اور کیمرہ مین مقرر کئے ہیں جنھیں تمام ضروری ایکوپمنٹ اور باضابطہ افس بھی فراہم کیا گیا ہے، دونوں چینلز کے نمائندے ماہانہ سات ہزار ڈالر امریکہ ابروڈ میڈیا سے وصول کرتے ہیں، اس لئے ہر اسٹوری کو فائل کرنے سے پہلے اس کے ڈائریکٹر مسٹر لوبلز سیمنظوری لینا پڑتی ہے۔ دنیا ٹی وی کے لئے لاہور سے مسٹر اویس کو اور ایکسپریس ٹی وی کے لئے کراچی سے ہماء امتیاز کو مقرر کیا گیا ہے۔جبکہ پاکستان کے دیگر ٹی وی چینلز کے رپورٹرز کے پاس وہ وسائل نہیں ہوتے کہ وہ یہاں واشنگٹن میں رپورٹنگ کرسکیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ان دو چینلز کے علاوہ تین مزید چینلز سے بھی بت چیت جاری ہے اور مستقبل میں جب پانچ چینلز امریکہ ابراڈ میڈیا کے پینل پر آجائیں گے تو روزانہ ایک چینل پر ایک گھنٹے کا پروگرام نشر کیا جائے گا۔ اس طرح ہفتہ میں پانچ دن وہ پروگرام ان پانچ چینلز پر باری باری دکھایا جائے گا۔ واضح رہے کہ واشنگٹن میں جس عمارت میں امریکہ ابراڈ میڈیا کا دفتر واقع ہے ۔ اسی کے ایک حصے میں دونوں چینلز کے بیورو آفسز بنائے گئے ہیں اس کے علاوہ اسی ادارے نے اپنی ویب سائٹ پر ایک ایسوسی ایٹ پروڈیوسر کی اسامی کا اشتہار بھی دیا ہے ۔ جو ہفتہ وار ایک پروگرام پاکستان میں پیش کر سکے۔ امیدوار کیلئے ضروری ہے کہ وہ پاک امریکہ تعلقات اور امریکی معاشرے سے متعلق معاملات پر گہری نظر رکھتا ہو۔
وسیم شیخ /ایڈیٹر رپورٹنگ
اس سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ امریکہ پاکستان کے ہر ادارے کے اندر گھس چکا ہے ۔اب میڈیا کا شعبہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہا ۔ دنیا اور ایکسپریس چینل پر ظاہر ہے اب وہی نظر آئے گا جو امریکہ چاہے گا ۔ ظاہر جب مال ملے گا تو ان کی زبان کیوں نہ بولی جائے ، پاکستانی عوام جائیں ، کھوہ کھاتے میں ! کیونکہ یہی دستور زمانہ ہے ۔
محمد رحمان، کوئٹہ
ملکی صحافت میں لفافہ کلچر توکئی عشروں سے فروغ پارہاہے۔ملک کے کئی اہم کالم نگار اور اینکر پرسن کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کے تنخواہ یافتہ ہیں۔تو پھر مزید ترقی کرتے ہوئے امریکی ملازم بننے میں کیاحرج ہے۔اوراس ملک میں کون امریکاکا زرخرید نہیں ہے۔
نعیم الرحمٰن کراچی
یہ نجی چینلز والے تو ویسے ہی بکے ہوئے ہیں ۔ سب سیاسی جماعتوں یا پھر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تنخواہ دار ہیں ۔ بہت کم لوگ ہیں جو اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں ۔یہاں تو پیسے کی دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ میاں عامر محمود نے تعلیم کا جو کاروبار شروع کیا تھا اس میں وہ بہت آگے نکل گئے ہیں اور بر گر بیچنے والے لاکھانی کے بارے میں کچھ نہ پو چھےئے۔ میں ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا جس میں لکھا تھا کہ ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے وفاقی حکومت کے ذمہ 35کروڑ واجب الادا تھے ۔ جب وزیر اعظم نے وزارت اطلاعات کو ہدایت کی ایڈورتائزنگ ایجنسیوں کو ادائیگی کر دی جائے تو اس میں لاکھانی کے اخبار کا کوئی حصہ نہ تھا کیونکہ یہ واجبات اس اخبار کے شروع ہونے سے پہلے کے تھے ۔ اس اخبار نے غصہ میں آ کر اس ادائیگی کو ہی متنازعہ بنا دیا کیونکہ اس میں لاکھانی کے اخبار کا حصہ نہیں تھا ۔اب اور کیا کہا جائے۔
وقار عظیم ، اسلام آباد