آزاد کشمیرمیں دھا ندلیوں کااعتراف
آزاد کشمیر کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) خواجہ محمد سعید نے تسلیم کیا ہے کہ اتوار کے روز قانون ساز اسمبلی کے لئے ہونے والے انتخابات میں استعمال ہونے والی انتخابی فہرستوں میں بہت زیادہ غلطیاں تھی، تاہم انہوں نے کہا کہ اس میں ان کے ادارے کا کوئی قصور یا غلطی نہیں ہے۔خواجہ سعید نے بتایا کہ ’’ الیکشن کمیشن کا عملہ نہ ہونے حتیٰ کہ کوئی مناسب دفتر اور سرگرمیوں کی نگرانی کیلئے لوازمات کی عدم موجودگی میں آزاد کشمیر حکومت پٹواریوں سے انتخابی فہرستیں بنوائے گی تو پھر ان کا بوگس ہونا یا دہرے یا تہرے اندراج ہونا لازمی اَمر تھا۔‘‘ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ الیکشن کمیشن کا انتخابی فہرستوں کی تیاری میں ایک نگران کا کردار ہے تاہم اس کے پاس لاکھوں ووٹرز کے اندراج کے عمل کی نگرانی کے لئے کوئی انفراسٹرکچر نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے بات تسلیم کی کہ انتخابی فہرستوں میں بہت زیادہ نقائص تھے اور کچھ نمایاں سیاستدان جن میں فاروق حیدر ،خواجہ فاروق اور جماعت اسلامی کے سربراہ بھی شامل ہیں نے باضابطہ درخواستوں کے ذریعے مختلف مقامات پر ووٹرز کے دہرے یا تہرے اندراج کی نشاندہی کی تھی۔انہوں نے بتایا کہ یہ معاملہ وزیراعظم سردار عتیق خان کے نوٹس میں لایا گیا تھا تاہم ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے مجھ سے بات کرتے ، انہوں نے کہا کہ ’’مسلم کانفرنس کی ناکامی کے بعد ان کی مجھ پر تنقید سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘ شکایات کے حوالے سے خواجہ سعید نے بتایا کہ میں نے انتخابات سے قبل حکم جاری کردیا تھا کہ ووٹرز کو صرف اسی مقام پر ووٹ ڈالنے کی اجازت ہوگی جہاں انہوں نے پہلے رجسٹریشن کرائی ہوگی، اس کے بعد کسی دوسری جگہ جہاں انہوں نے کاروبار شروع کیا کسی اور وجہ سے منتقل ہوگئے اور اپنا اندراج کرایا وہ غیر مو?ثر ہوگا، تاہم انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم کے بیٹے نے ان کے حکم کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا اور عدالت عالیہ نے پولنگ سے ایک روز قبل تمام ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کا حق دیدیا، اس عدالتی حکم کی روشنی میں میں نے اپنا آرڈر واپس لے لیا کیونکہ الیکشن کمیشن کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچا تھا۔ خواجہ سعید نے سردار عتیق اوردیگر کی طرف سے لگائے ان الزامات کو مسترد کردیا کہ ان پر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لئے وفاقی حکومت نے دباؤ ڈالا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں نے 26سال وکالت کی اور16سال تک جج رہا حتیٰ کہ مسلم کانفرنس کے دور میں بھی بطور جج خدمات سر انجام دیں۔ وزیراعظم بھی جانتے ہیں اور اپنے والد سے بھی پوچھ سکتے ہیں کہ میں نے کسی کے بھی عہدے کا لحاظ کئے بغیر کبھی ڈکٹیشن نہیں لی۔ اب 72سال کی عمر میں ایسا کام کرنا میرے لئے ناممکن ہے جو میں نے زندگی بھر نہیں کیا۔‘‘انہوں نے کہا کہ انتخابات عدلیہ نے کنڈکٹ کئے اور کسی بھی پولنگ سٹیشن پر الیکشن کمیشن کا عملہ نہیں تھا کیونکہ اس کے پاس اس قسم کی ڈیوٹی کیلئے عملہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کی زیر نگرانی انتخابات کرانے کی میری درخواست کو نہیں مانا گیا۔ الیکشن کمشنر نے کہا کہ ’’ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے فون کر کے مجھے بتایا کہ ایک پولنگ سٹیشن پر2پولیس اہلکار تعینات ہیں اور ان کے پاس صرف چھڑیاں ہیں اور اگر ان چھڑیوں کوایک استاد نے اپنے شاگردوں پر استعمال کیا تو دو ٹکڑے ہو جائیں گی۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’انتخابات میں وقوع پذیر ہونے والے بہت سے واقعات کی ذمہ دار سردار عتیق کی حکومت ہے۔‘‘ ان کو ٹرن آؤٹ کے بارے میں صحیح معلوم نہیں تھا تاہم انہوں نے بتایا کہ اتوار کو ہونے والے انتخابات میں پچھلے انتخابات کی نسبت ووٹرز نے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، ان کو 2006ء4 کے انتخابات کا ٹرن آؤٹ یاد نہیں تھا۔ خواجہ سعید نے کہا کہ میں اپنے عہدے کے حوالے سے اس قدر محتاط تھا کہ میرے بیٹے جس نے امریکا سے ایم بی اے کیا ہے نے کسی سرکاری ملازمت کے لئے اپلائی نہیں کیا۔ دوسرا بیٹا سیاست میں آنا چاہتا ہے لیکن میری وجہ سے ایسا نہ کر سکا۔انہوں نے کہا کہ ’’ایک مرحلے پر بیٹے نے کہا کہ مجھے وہ قانون بتائیں جو انہیں سیاست میں حصہ لینے سے روکتا ہے۔‘‘