حکومت،مل مالکان اور ٹی سی پی چینی بحران کےذمہ دارہیں
شوگر مل مالکان ڈھٹائی سے 75 سے 85 روپے کلو چینی فروخت کر رہے ہیں اور عدلیہ کے ساتھ عوام بھی انتہائی بے بسی کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں
پاکستان کے عوام گزشتہ تین چار سال سے چینی کا بحران جھیل رہے ہیں اور حکومت کوئی ریلیف پہنچانے کے بجائے اس سیدھے سادھے مسئلے کو گنجلک بنانے اور بحران کے ذمے داری دوسروں پر ڈال پر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی روشن پر گامزن ہے۔ گزشتہ ہفتے اس ضمن میں عوام کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی کمیٹی نے سپریم کورٹ کے سابق جج جناب جسٹس (ریٹائرڈ) سردار رضا خان کو ایک رکنی عدالتی کمیشن کارکن مقرر کیا ہے جو شکر کے بحران کی تحقیق کر کے چینی کی قیمتوں میں اضافے کے ذمے داروں کا تعین کریں گے۔ یہ یک رکنی عدالتی کمیشن اپنی تحقیق و تفتیش میں کہاں تک کامیاب ہو گا اور اگر کامیاب بھی ہو گا تو کیا ذمے داروں کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے گی اور اس کے نتیجے میں عوام کو سستے داموں چینی کی فراہمی ممکن ہو سکے گی؟ ان سوالوں کے جوابات تو آنے والے دن ہی دیں گے۔ فی الحال ہم ان معروضی حقائق ضر نظر ڈالتے ہیں جو چینی کے بحران کی ایک بہت واضح تصویر سامنے پیش کر دیتے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا یہ موقف ہے کہ شوگر مل مالکان اور ذخیرہ اندوز ’’شوگر کرائسس‘‘ کے ذمے دار ہیں۔ جہاں تک شوگر مل مالکان کا تعلق ہے تو ملک میں موجود تقریباً 50 سے 70 فیصد شوگر ملزان سیاستدانوں کی ملکیت ہیں جو یا تو حکومتوں کا حصہ ہیں یا اسمبلیوں میں پوزیشن سیٹوں پر براجمان ہیں اور جہاں تک ذخیرہ اندوزوں کا معاملہ ہے تو شوگر ملز کے مالکان یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کن لوگوں کو کتنی بھاری مقدار میں چینی فروخت کر رہے ہیں کیونکہ ہر شوگر مل کے پاس ان کے رجسٹرڈ ڈیلرز ہوتے ہیں اور ان کی تمام پیداوار ان ہی کے ذریعہ مارکیٹ میں آتی ہے ۔ لہٰذا ذخیرہ اندوزوں کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کوئی نادیدہ مخلوق ہیں۔ وہ بھی اس نظام فروخت کا حصہ ہیں ڈ اور اتنی ہی چینی ذخیرہ کرسکتے ہیں جتنا مل مالکان انکو فروخت کریں۔
بالفرض اگر ذخیرہ اندوز کاروباری برادری سے باہر کے لوگ ہتوے ہیں تو بھی ان کے خلاف کارروائی کرنا تو حکومت ہی کا کام ہے۔ کیا حکومت یہ فریضہ بطریق احسن سر انجام ادا کر رہی ہے؟ آئیے اس کی ایک جھلک آپ کو دکھائیں۔
گزشتہ دنوں جب شکر کا بحران اپنے عروج پر تھا، ہمارے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے بڑے طمطراق کے ساتھ ذخیرہ اندوزوں کو خبردار کیا تھا ، کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اندر اپنے چینی کے ذخائر مارکیٹ میں لے آئیں ورنہ ایک ہفتے کے بعد چھاپہ مار کارروائی ہو گی اور چینی بحق سرکار ضبط کر لی جائے گی۔ غالباً وزیر داخلہ اس خوش فہمی میں تھے کہ ذخیرہ اندوز ایک ہفتے کے اندر ان کی ہفتہ بھر پہلے کی وارننگ سننے کے بعد بھی اپنے ذخائر گوداموں میں محفوظ رکھ کر پولیس کا انتظار کریں گے تا کہ سرکاری حکام بڑی آسانی سے چھاپہ مار کر آسانی سے سارا مال ضبط کر لیں۔ اطلاعات کے مطابق وزیر داخلہ کے اعلان کے بعد صرف دو بڑے صوبوں میں چھاپہ مار کارروائی کی گئی۔
چینی کے حالیہ بحران کے حوالے سے اب ذرا شوگر ملز مالکان کا موقف بھی سن لیجئے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ انہوں نے حکومت کو ملک میں شکر کی متوقع قلت سے بہت پہلے آگاہ کر دیا تھا اور مشورہ دیا تھا کہ پیداوار میں کمی کو پورا کرنے کے لئے 12 لاکھ ٹن شکر درآمد کرنے کی اجازت دی جائے تا ہم حکومت نے ان کے مشورے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے شکر درآمد کرنے کے حوالے سے حکومت ک خطوط لکھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے حکومت کو ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دے دی کہ اگر مقررہ مقدار سے زیادہ چینی درآمد کی گئی اور ان کے حسب خواہش عرصے کے دوران درآمد نہ کی گئی تو بھر وہ گنے کے کاشتکاروں کو ادائیگیاں روک دیں گے۔ اس کی طرف سے یہ پابندی بھی لگائی گئی کہ صرف خام شکر درآمد کرنے کی اجازت دی جائے بہرکیف حکومت نے 12 لاکھ ٹن کے بجائے صرف 5 لاکھ 25 ہزار ٹن شکر درآمد کرنے کا حکم ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کو جاری کیا لیکن اس حکم کے ساتھ رقم فراہم نہیں کی۔ ٹی سی پی نے یہ معاملہ گزشتہ جون میں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں اٹھایا تا کہ اکتوبر اور نومبر کے کڑے مہینوں میں شکر کی درآمد کا کوئی راستہ نکل سکے تا ہم حکومت نے نامعلوم وجوہ کی بنا پر ٹی سی پی کو بروقت رقم جاری نہیں کی اور جون کے بجائے اگست کے آخ،ر میں اسے فنڈز فراہم کئے گئے جس کی وجہ سے چینی کی درآمد نومبر کے آخر سے پہلے ممکن نہیں تھی۔ یہ وہ وقت ہے جب ملک میں عموماً گنے کی کاشت شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ اب یہ بات کون بتا سکتا ہے کہ ٹی سی پی کو رقم کے اجراء میں تاخیر کس نے کی اور کیوں کی؟ تا ہم اس تاخیر سے فائدہ کسے ہوا؟ یہ سب جانتے ہیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے ملک میں چینی کی صنعت، انڈسٹری سے زیادہ مافیا میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ وہ نام نہاد تجارت جس کو ڈیوٹی میں چھوٹ اور ایسے قرضوں کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جو ادا کرنے کی نیت سے نہیں لئے جاتے۔ جب عالمی منڈی میں شکر کی قیمت گر جاتی ہے تو حکومت مل مالکان سے مہنگے داموں شکر خرید لیتی ہے تا کہ صنعت زندہ رہے اور جب پوری دنیا میں شکر مہنگی ہوتی ہے تو فری مارکیٹ کے نام پر سارا بوجھ پاکستانی عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ اخذ کرنا ممکن نہیں ہے کہ حکمرانوں اور مل مالکان کا ایک ہی مقصد ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو، عوام کو لوٹو اور اپنا خزانہ بھرو۔ پھر بھی عوام کو حال ہی میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے ذریعے چین کیے بحران کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی خوشخبری سنائی گئی۔ اس کے نتائج کا شدت سے انتظار رہے گا، تا ہم ریکارڈ درست رکھنے کے لئے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ستمبر 2009 ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان شوگز ملز ایسوسی ایشن کو تاکید کی تھی کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے انتہائی چھان بین کے بعد چینی کی جو قیمت 40 روپے فی کلو گرام متعین کی گئی ہے۔ اس پر عمل کیا جائے ورنہ اسے عدالتی حکم کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا لیکن شوگر مل مالکان اس واضح حکم کے باوجود انتہائی ڈھٹائی سے 75 سے 85 روپے کلو چینی فروخت کرتے رہے اور عدلیہ کے ساتھ عوام بھی انتہائی بے بسی کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔