رینٹل پاور کی جونکیں 50 ارب کھا گئیں، بجلی 20 فیصدبھی پیدا نہ ہو سکی
اسلام آباد /سٹاف رپورٹ
کرائے کے بجلی گھر قومی معیشت کا خون چوسنے والی جونک بن گئے۔50 ارب روپے خرچ کردینے کے باوجود20 فیصد بھی بجلی پیدا نہیں ہو سکی۔رینٹل پاور پلانٹس کا منصوبہ سال 2009ء میں نیپرا کے اعتراضات سامنے آنے کے ساتھ ہی متنازع ہوگیا تھا۔ بعد میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی رینٹل منصوبوں کو مہنگا قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور 14 کے بجائے صرف 6 پلانٹس نصب کرنے کی تجویز دی۔ ان رینٹل پاور پلانٹس میں گلف ٹیکنو نوڈیرو ایک نوڈیرو IIریشماں اور کارکے شامل ہیں۔ حکومت نے ان کمپنیوں کو ایڈوانس رقم کی ادائیگی کے لیے بینکوں سے 17 فیصد شرح سود پر 24 ارب روپے سے زیادہ کا قرضہ لیا اور 6 کمپنیوں کو فی کس 4 ارب روپے ادا کیے۔ یہ رقم منصوبے کی مجموعی رقم کا 14فیصد بنتی ہے۔ ان رینٹل پاور پلانٹس کے ساتھ 5روپے فی یونٹ کا کرایہ اور 12 سے 15 روپے فی یونٹ ایندھن کی صورت میں ادا کرنے کا 5 سالہ معاہدہ کیا گیا جبکہ پیداواری ٹیرف 18 روپے سے ساڑھے 20 روپے فی یونٹ مقرر کیا گیا۔ رینٹل پاور پلانٹس میں کارکے سب سے مہنگا منصوبہ ہے جس کا 5 سالہ کرایہ 45 ارب روپے ہے۔ ان 6 کرائے کے بجلی گھروں کا 2010 ء میں افتتاح ہوا 3پلانٹس اپنی آزمائشی پیداواری مدت میں ہی بند ہوگئے جبکہ62میگاواٹ کے گلف51میگاواٹ کے نو ڈیرو IIاور 231 میگاواٹ کے کارکے رینٹل پاور پلانٹ نے پیداوار شروع کی۔ ایندھن کی کمی کے باعث گزشتہ ڈھائی سال میں یہ پلانٹس کبھی اپنی مکمل صلاحیت کے مطابق پیداوار نہیں دے سکے جبکہ کارکے رینٹل پاور پلانٹ تو ملکی معیشت کا خون چوسنے والی جونک ثابت ہورہا ہے جس کے ایک یونٹ کی پیداواری لاگت 42 روپے ہوچکی ہے جبکہ پیداوار صرف31میگاواٹ ماہانہ ہے ایک اندازے کے مطابق رینٹل پاور پلانٹس منصوبوں میں اب تک 50 ارب روپے جھونکے جاچکے ہیں اور نہ جانے آئندہ 4 برسوں میں کئی سو ارب مزید جھونکے پڑیں گے۔
zardari zindabad
your website is so nice