بلا اجازت میڈیا سے بات چیت،عمراورحفیظ کونوٹس جاری
پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے کھلاڑیوں کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں پر شوکاز نوٹس جاری کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اب محمد حفیظ اور عمر اکمل بھی اس کی زد میں آ گئے۔نوٹس بھیجنے کی وجہ ‘پاک ستان کرکٹ بورڈ سے اجازت لئے بغیر میڈیا سے بات چیت ‘بتایا گیا ہے۔ دونوں کھلاڑیوں کو اس نوٹس کا جواب دینے کے لئے سات دن کا وقت دیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نوٹس کے جواب میں تحریری معذرت پر دونوں کھلاڑیوں کو وارننگ دے کر معاف کر دیا جائے گا۔
اگست2008 میں اعجاز بٹ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے بعداگر چہ شو کاز نوٹس جاری ہونا معمول بن چکا ہے تاہم ماہرین حیران ہیں کہ اس کے باوجود حالیہ دنوں میں ہی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیاں کھل کر کی جاتی رہی ہیں یہاں تک کہ اسپاٹ فکسنگ میں ملوث تین کھلاڑیوں کے باعث دنیا بھر میں ملک کی بدنامی بھی ہوئی۔ ماہرین کے نزدیک یہ بدنامی کھلاڑیوں کو ڈھیل ہی کا نتیجہ ہے۔
اعجاز بٹ کو چیئرمین پی سی بی بنے تقریبا دو سال اور دس ماہ ہو چکے ہیں۔ اس دوران کھلاڑیوں کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر تقریباً گیارہ شوکاز نوٹسز جاری ہوئے۔ جو کھلاڑی شو کاز نوٹس کی زد میں آئے ان میں محمد حفیظ ، ذوالقرنین حیدر ، یونس خان ، محمد یوسف ، شعیب ملک ، رانا نوید الحسن اور کامران اکمل شامل ہیں۔ انہیں ایک ، ایک مرتبہ جبکہ شاہد خان آفریدی اور عمر اکمل کو دو ، دو بارشوکاز نوٹس جاری ہوئے۔ بات یہیں تک محدود رہتی تو بھی درست تھا مگروومن کرکٹ ٹیم کی کپتان ثنا ء میرکو بھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پرخبردار کیا جا چکا ہے۔
ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر نوٹسزکی سزا صرف کھلاڑیوں کو ہی نہیں ملی بلکہ پی سی بی کے اعلیٰ عہدیداروں کوبھی شو کاز نوٹس جاری ہوچکے ہیں۔ ان میں چیف سلیکٹر محسن حسن خان ، سابق سلیکٹر محمد الیاس اور کوچ وقار یونس بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ماضی میں سابق دائریکٹر جنرل پی سی بی جاوید میاں داد کو بھی سخت انتباہ جاری ہوچکا ہے۔
مذکورہ شخصیات کی اکثریت کو بغیر پی سی بی کی اجازت ، میڈیا سے گفتگو پر بھی شو کاز نوٹس جاری ہوچکے ہیں جبکہ بعض کو سزائیں بھی ہوئیں تاہم اصل حیرانگی کی بات یہ ہے کہ سزا کے باوجود بھی ایسے واقعات نہیں رک سکے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھلاڑی اتنے آزاد کیوں ہو تے ہیں کہ وہ اپنے کیرئیر کے بارے میں بغیر سوچے سمجھے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کر بیٹھتے ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹر یاسر حمید نے دورہ انگلینڈ کے دوران تو حد ہی کر دی۔ ان سے میڈیا نے ‘خفیہ انٹرویو’ لے لیا اور انہیں پتہ تک نہ چلا۔
ماہرین کے مطابق صرف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر شو کاز نوٹس جاری کرنا ہی مسائل کا حل نہیں بلکہ اس اقدام سے پاکستان میں کرکٹ کی گرتی ہوئی ساکھ کو مزید نقصان پہنچ رہا ہے۔ اگر دورہ آسٹریلیا کے دوران ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے سات کھلاڑیوں کی سزاؤں پر عملدرآمد کیا جاتا اور صرف نوٹسز میں جرمانہ عائد کرنے کے بجائے سخت سزائیں دے کر ان پر عملدرآمد کیا جاتا تو محمد عامر ، محمد آصف اور سلمان بٹ میچ فکسنگ میں ملوث ہو کر دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث نہ بنتے۔
مبصرین کے تئیں ضرورت اس بات کی ہے کہ کھلاڑیوں کے مسائل حل کرنے کے لئے بورڈ انہیں ایسا پلیٹ فارم مہیا کرے جس سے ان کی شنوائی ہو سکے اورانہیں میڈیا تک جانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ کھلاڑیوں کی مناسب تربیت کی بھی ضرورت ہے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ کون سے مسائل پر بات کی جا سکتی ہے اور کن امور کو زیر بحث نہیں لانا چاہیے۔