شاہ محمود کو نئی جماعت کے لیےحمایت نہیں مل سکی
شاہ محمود حضرت شاہ رکن عالم کے مزار پر سجادہ نشینوں کو اپنےساتھ ملا
کر سیاسی گروپ تشکیل دینا چاہتے تھے مگر انہیں سیاسی حمایت نہیں مل سکی
سابقہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی شاید پیپلزپارٹی سے مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں اس لیے انہوں نے اپنا سیاسی مقام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیا ہے ۔ انہوں نے کسی جماعت میں شمولیت کی بجائے بینظیر گروپ کے نام سے اپنی پارٹی بنانے پر مشاورت شروع کر دی ہے۔ حضرت شاہ رکن عالم کے مزار پر 3 روزہ تقریبات کے دوران بھی شاہ محمود سیاست کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے ملک کے مختلف مزارات کے سجادہ نشینوں کا اکٹھ کر لیا۔ سجادہ نشینوں کے اجتماع میں شاہ محمود قریشی نے اپنی سیاسی قوت شو کرنے کی کوشش کی مگر نہیں کر سکے اس اجتماع میں اکثر سجادہ نشینوں نے پیپلزپارٹی کی مخالفت کی اور صدروزیراعظم کے ساتھ خود شاہ محمود قریشی پر بھی تنقید کی اور شاہ محمود ان سجادہ نشینوں کو اپنے ساتھ ملا کر سیاسی گروپ تشکیل دینا چاہتے تھے مگر انہیں سیاسی حمایت نہیں مل سکی۔ شاہ محمود قریشی ان سجادہ نشینوں کے ساتھ مل کر کوئی مذہبی گروپ تشکیل دے دیتے تو شاید انہیں حمایت مل سکتی تھی۔ شاہ محمود قریشی نے 2 ہفتے قبل بیان داغا کہ پیپلزپارٹی کو اگر ان کی ضرورت نہیں تو وہ استعفیٰ دے دیں گے پھر پیپلزپارٹی نے ان کا یہ حشر کیا کہ بھٹو کی برسی پر انہیں مزار کے اندر نہیں جانے دیا گیا مگر شاہ محمود پی پی سے مستعفی نہیں ہوئے پھر انہوں نے پیپلزپارٹی سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا مگر وہ پی پی کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ ابھی تک شاہ محمود قریشی اپنی حیثیت نہیں منوا سکے۔ البتہ ملتان میں پی پی کے 3 ایم پی اے ان کے ساتھ ہیں۔ ان کے علاوہ انہیں ملتان میں کوئی بھی ساتھ چلنے والا نہیں مل رہا۔ معلوم ہوا ہے کہ شاہ محمود قریشی اب چھوٹے چھوٹے پروگراموں میں بھی جا رہے ہیں اور عوام کو اپنا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر صورتحال کوئی اتنی اچھی نہیں،شاہ محمود قریشی کو اندرون سندھ میں پذیرائی مل سکتی ہے ، ملتان میں انہیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ شاہ محمود قریشی نے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر عمل ہوتا رہا تو عوام اور کاشتکار سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکمران سن لیں ملک میں سب اچھا نہیں ہے۔ شاہ محمود کو اب نظر آیا ہے کہ سب اچھا نہیں ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم گیلانی اور شاہ محمود کے 24 مارچ 2008ء کو حلف اٹھانے سے آج تک ملک میں کچھ بھی اچھا نہیں ہوا اور انہیں آج کاشتکاروں اور پاورلوم کے مزدوروں کے دکھ نظر آ رہے ہیں لیکن اقتدار میں ہوتے ہوئے وہ آنکھیں بند کیے ہوئے تھے۔ بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر عوام کو دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے تھے، انہیں اپنے اسی رویے کا خمیازہ اب بھگتنا پڑ رہا ہے ۔