آن لائن بلیک میلنگ سے محفوظ رہئے ۔۔۔ مگرکیسے ۔۔۔
پاکستان میں خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات بدقسمتی سے سالوں پرانے ہیں ۔ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ جیسے جیسے دور جدید ہورہا ہے خواتین کو ہراساں اور بلیک میل کرنے کے طریقوں میں بھی جدیدیت آتی جارہی ہے مثلاً انٹرنیٹ استعمال کرنے والی خواتین خصوصاً کالج اوریونیورسٹیز میں پڑھنے والی لڑکیوں کو” آن لائن بلیک میلنگ “کا طریقہ ۔
پاکستان میں اپنی نوعیت کے پہلے مقدمے میں ایک مجرم کو فیس بک پر جعلی اکاوٴنٹ بنا کر ایک لڑکی کو بلیک میل کرنے پر تین سال قید اور25ہزار روپے جرمانہ ہوچکا ہے۔ مجرم عامر جنجوعہ کی ایک بین الاقوامی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم لڑکی سے دوستی ہوگئی، مگر یہ جاننے کے بعد کہ عامر ایک بس کنڈیکٹر ہے لڑکی نے شادی سے انکار کردیا ۔
اس انکار پر مجرم نے اسے دھمکیاں دینا شروع کردیں اور آخر کار اس کی قابل اعتراض تصویر فیس بک پر شائع کردی جس پر لڑکی کے گھر والوں نے اس کی تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا اور ایف آئی اے میں اس کے خلاف درخواست دے دی۔
پچھلے ایک سال کے دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے کو3027 سائبر کرائمز کی شکایات موصول ہوئی تھیں جن میں سے تقریباً 45فیصد خواتین کے خلاف ہراسمنٹ کے حوالے سے تھیں۔
نگہت داد جو آن لائن حقوق اور ان کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی این جی او ڈیجیٹل رائٹس فاوٴنڈیشن کی ڈائریکٹر ہیں ، ان کا اس بارے میں کہنا ہے کہ بلیک میلنگ، دھمکیاں، آن لائن ہراساں کرنے، لڑکیوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیک کرنے کے واقعات میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ اضافہ معاشرے میں بڑھتی لاقانونیت اور خواتین کیلئے غیر موزوں ماحول کا عکاس ہے۔“
گز شتہ ماہ ایف آئی اے راولپنڈی سائبر کرائم ونگ نے ایک 3 رکنی گینگ کو گرفتار کیا جو لڑکیوں کے فیس بک اکاؤنٹس ہیک کر کے ان کو ہراساں کرتا تھا۔ ملزم بلال حسین نے 80فیس بک اکاؤنٹس کو ہیک کرنے کا اعتراف کیا۔ تفتیش کے دوران اس نے بتایا کہ وہ یہ کام گزشتہ کچھ مہینوں سے کر رہا ہے اور وہ فیس بک پیج کے ذریعے ہیکنگ کرنا جانتا ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ فیس بک اکاؤنٹس کو ہیک کرلیا جائے اور پھر بلیک میل کیا جائے؟ کیا یہ اتنا آسان ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے نگہت داد کا کہنا تھا” ہیکرز انٹرنیٹ یوزرز کی آن لائن سیکورٹی میں موجود کمزوریوں اور خامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسا کرپاتے ہیں۔ آسان پاس ورڈ، کمزور سیکورٹی سیٹنگز یوزرز کو ایکسپوز کردیتی ہیں اور ان کا اکاؤنٹ آسانی سے چوری ہوجاتا ہے، اس لئے انٹرنیٹ یوزرز کو اس بات کی آگاہی ہونی چاہیے کہ کس طرح وہ اپنے آپ کو سائبر ورلڈ میں محفوظ کرسکتے ہیں۔
پاکستان میں ہزاروں ایسے جرائم ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر رپورٹ نہیں کروائے جاتے۔ اسی طرح آن لائن ہراساں اور بلیک میلنگ کا بھی رپورٹنگ تناسب بہت کم ہے۔ اس کی ایک وجوہ عام لو گ تھانہ کچہری کے چکر لگانے سے کتراتے ہیں اور ایسے معاملات جو خواتین سے متعلق ہوں اسے چھپا کے رکھنے میں عافیت جانتے ہیں۔
اگست میں ایف آئی اے نے ایک اورگینگ کو پکڑا جو لڑکیوں کے فیس بک اکاؤ نٹس ہیک کرکے ان کی پرائیویٹ کمیونیکیشن کو آن لائن کردیتا تھا اور پھر انہیں بلیک میل کرتا تھا، بیچاری لڑکیا ں کافی عرصے تک ان کے ہاتھوں پریشان ہوتی رہیں صرف اس وجہ سے کہ اس کا منظر عام پر آجانا رسوائی کا سبب بن سکتا تھا۔
جہاں تک موجودہ قواتین کا تعلق ہے تو ایف آئی اے فی الحال الیکٹرانک ٹرانزیکشن آرڈیننس 2002اور پاکستان پینل کوڈ کا سہار ا لے کر کارروائی کرتی ہے مگر اس میں خامیاں اور کمزوریاں ہونے کی بنا پراکثر ملزم بچ نکلتا ہے۔
نگہت داد کا اس بارے میں کہنا تھا ” اس بڑھتے رجحان کو روکنے کے لئے سخت قانون کی ضرورت ہے مگر جو قانون بنائے جا رہے ہیں ان میں ایسے لوپ ہولز چھوڑے گئے ہیں جس سے اس کے غلط استعمال کا خطرہ ہے۔ اس سوال پر کہ اگر سوشل میڈیا کے استعمال کو ایک خاص تعلیمی معیار کا پابند کردیا جائے تو کیا یہ حل ممکن ہے، ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا امتیازی ہوگا اور لوگ معلومات کے ایک اہم ذریعے سے محروم رہ جائیں گے اور اس طرح کردنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
آن لائن ہراسمنٹ کے خلاف درخواست جمع کرانا قدرے آسان ہے اور اس حوالے سے ایف آئی اے کافی متحرک ہے۔شکایت درج کرانے کے تین طریقے ہیں، ایک یہ کہ ہیلپ لائن نمبرپر کال کی جاسکتی ہے۔
دوسرے طریقے کے مطابق نیشنل ریسپانس سینٹر فار سائبر کرائم کی ویب سائٹ پر آن لائن دستیاب فارم پْر کیا جاسکتا ہے۔
تیسرا یہ کہ تمام معلومات اور شواہد جمع کر کے ہیلپ ڈیسک پر ای میل کردی جائے جس کا ایڈریس سائٹ پر موجود ہے۔
نگہت داد کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ خاص طور پر سوشل میڈیا کے استعمال کو محفوظ بنانے کیلئے ضروری ہے کہ آپ کو اس بارے میں مکمل آگاہی ہو تبھی آپ بلیک میلنگ اور دوسرے ہتھکنڈوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سائبر کرائم کا شکار ہونے والے بالخصوص خواتین ان جرائم کی پردہ پوشی کرنے کے بجائے ان کی شکایت کریں تاکہ ایسے مجرم عبرت کا نشان بن سکیں۔سائبرکرائم پر خاموشی بھی مجرمانہ فعل ہے۔
واصف شکیل
My x fuency blackmail me