شرمناک ویڈیوزسکینڈل اور92 کنال اراضی، واقعات کیسے ہوئے؟ سکینڈل کیسے سامنےآیا ؟ دشمنی اورمخالفت کیسے شروع ہوئی؟تصویر کا دوسرارخ کیا ہے؟سنسنی خیزتفصیلات
قصور سے تقریباً 15کلومیٹر دور حسین خان والا میں بچوں سے زیادتی کی ویڈیوز کے المناک واقعہ نے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب اپوزیشن لیڈرز دوڑے ہوئے متاثرہ لوگوں کے پاس جا رہے ہیں۔ شہباز شریف سمیت کوئی حکومتی رہنما متاثرہ لوگوں کی دادرسی کے لئے ان کے پاس نہیں پہنچا۔
س واقعہ کے کچھ اور پہلوؤں سے پردہ اٹھائیں تو بات سامنے آتی ہے کہ اس وقوعہ کے پیچھے کیا رازہے؟ حقیقت کیاہے؟۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے اور کتنا جھوٹ ہے۔ہمیں یہ بھی جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس وقوعہ کی آڑ میں آ کر کوئی اپنی سیاست تو نہیں چمکا رہا۔ کوئی اپنی دشمنی یا اپنی مخالفت کا بدلہ تو نہیں لے رہا۔ گاؤں میں اکثر دھڑے بازی ہوتی ہے کوئی دھڑا کسی دوسرے دھڑے سے بدلہ لینے یا اس کو نیچا دکھانے کے لیے تمام طریقہ استعمال کرتا ہے کہیں اس ویڈیو سکینڈل کی آڑ لیکر میں بھی کوئی دھڑا دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش تو نہیں کر رہا؟یا یہ واقعہ حقائق پر مبنی ہے۔
ہماری تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مدعی پارٹی کی طرف سے متحرک مبین غزنوی نامی نوجوان۔جس کی تعلیم مڈل ہے مذہبی جماعت کا کارکن بھی رہا ہے لیکن وہاں پر اس کو کسی الزام کی بنیاد پر جماعت سے فارغ کر دیا گیا۔مبینہ طور پر مبین غزنوی گاوں کے کچھ لڑکوں کو پیسے دے کر برا کام کرواتا تھا۔ مبین فیضان مجید اور دانش ملک اور اس کے علاوہ گاؤں کے کئی بچوں سے بھی زیادتی کرتا رہا ہے۔اسی طرح دوسرے گاؤں بےگ، نوری والا وغیرہ کے لڑکوں کے ساتھ بھی اس کے ایسے ہی گہرے تعلقات تھے مبین کے چھوٹے بھائی نوید کو بھی یہی شوق رہا ہے۔ مبین کے رشتے دار سب اس سے اس کے کاموں کی وجہ سے نفرت کرتے ہیں۔ ویڈیو کے منظر عام پر آنے کی وجوہات سے پردہ اٹھائیں توگاؤں حسین خانوالہ میں سرکاری زمین گورنمنٹ نے نیلام کرنے کے لئے اخبار میں اشتہار دیا۔ دیہات کے چار لوگوں نے مشورہ سے اس زمین کی نیلامی میں حصہ لیا اور یہ زمین تقریباً 92کنال ہے اور اس نیلامی میں حصہ لینے والوں میں ماسٹر ظفر ،سلیم اختر شیرازی، چودھری ریاض بھٹہ سابق ناظم، ڈاکٹر شوکت شامل ہیں۔ یہ لوگ کامیاب بولی دہندہ قرار پائے۔ اب اس بولی کی شرائط و ضوابط پوری کی جانے سے پہلے ہی گاؤں کا ایک شخص ماسٹر احمد دین فاروق اور مبین غزنوی نے ایک درخواست دی کہ یہ نیلامی دوبارہ کروائی جائے کچھ وجوہات درخواست میں لکھ کر اس نے درخواست متعلقہ محکمہ کو دے دی۔
جس کی بنیاد پر گورنمنٹ نے اسی زمین کی نیلامی کا دوبارہ 3ماہ بعد شیڈول دے دیا جبکہ پہلے سے کامیاب بولی دہندہ ماسٹر ظفر اور سلیم اختر شیرازی وغیرہ نے ہائی کورٹ میں رجوع کیا اور وہاں سے دوسری دفعہ نیلامی ہونے کے خلاف سٹے آرڈر کروا لیا، ابھی کامیاب بولی دہندہ اور گورنمنٹ کے درمیان یہ لاہور ہائی کورٹ میں کیس چل ہی رہا تھا کہ درمیان میں زاہد نامی رٹیائرڈ کرنل نے اپنی بارڈر ایریا ونگ سے مل کر وہی نیلام شدہ زمین اپنے نام پر الاٹ کروا لی اور انتقال کیلئے متعلقہ پٹواری سے رجوع کیا تو اس نے بتایا کہ میں یہ انتقال نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں پہلے ہی سٹے ہو چکا ہے اور یہ کیس ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ متعلقہ الاٹ منٹ کروانے کا عمل کامیاب بولی دہندہ کے علم میں آیا انہوں نے لاہور ہائی کورٹ لاہور میں اس الاٹ منٹ کے خلاف سٹے کروایا جو کہ ابھی تک ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
اسی دوران 2015ءکے بلدیاتی الیکشن کا جو کہ جنوری میں شیڈول کا اعلان ہوا تھا وہ سامنے آ گیا، بلدیاتی الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ن کے نامزد امیدوار بطور چیئرمین ماسٹر ظفر اور ان کے مدمقابل مبین غزنوی آ گئے، الیکشن مہم شروع ہو گئی بعض وجوہات کی وجہ سے الیکشن تاخیر کا شکارہو گئے اور کچھ عرصہ بعد مبین غزنوی نے اس زمین کا ایشو بناتے ہوئے یونین کونسل اور متعلقہ گاؤں میں تقاریر کرنا شروع کردی اور لوگوں کو ماسٹر ظفر امیدوار چیئرمین کے خلاف ابھارنا شروع کردیاکہ یہ لوگ زمین نہیں خرید سکتے۔ وہ یہاں پر ہسپتال قائم کروائیں گے، گراؤنڈ بنائیں گے۔ علاقے کے بچوں کیلئے فلاحی منصوبے شروع کریں گے جبکہ وہ زمین کا کیس ہائی کورٹ میں ابھی تک زیر سماعت ہے۔ اب ماسٹر ظفر کے ساتھ باقی پارٹنر سلیم شیرازی جو کہ موجودہ ویڈیو سکینڈل میں ملزم ہے اور اسی زمین کو مدنظر رکھتے ہوئے سلیم شیرازی کو دھمکیاں دی جانے لگیں کہ میں آپ کے بھتیجا حسیب عامر کی ویڈیوز کو ہائی لائٹ کرونگا اور آپ کو بدنام کروں گا۔ شیرازی نے مبین کو اعتماد میں لیا کہ زمین کا ایشو ہائی کورٹ میں چل رہا ہے آپ بات کو جانے دو، اس نے مبین غزنوی کے تعلق والے رشتہ داروں کو کہہ کہلوا کر مبین کوچپ کر ا دیااور بات ختم ہو گئی۔ کچھ دنوں بعد ویڈیو سکینڈل کے دو ملزمان علیم آصف اور وسیم عابد جو کہ سلیم اختر شیرازی کے بھتیجے ہیں انہوں نے دل میں رنجش رکھتے ہوئے مبینہ طور پر مبین غزنوی کو چوک ڈاکٹر حسین خانوالہ میں مارا اور اس کے بعد مبین اپنا بدلہ لینے کیلئے ویڈیو سکینڈلز کو منظر عام پر لایا۔
یہ ویڈیو سکینڈل 4/5 سال سے مبین اور علاقہ کے چندنوجوانوں کو معلوم تھا اور وہ ویڈیوز دیکھ چکے تھے لیکن کوئی اس کا نام نہیں لیتا تھا کیونکہ جن کو ویڈیوز کا علم تھا ان کا کوئی اپنا ذاتی بچہ زیادتی کا شکار نہ ہواتھا اس لئے وہ بھی چپ رہے۔ مبین نے اپنا بدلہ لینے کیلئے ویڈیوز ان والدین کو جا کر دکھائیں جن کے بچے زیادتی کا شکار ہوئے تھے۔اس نے ان کو تیار کیا ،مدعی بنایا اور مقدمہ درج کروا دیا۔ جہاں تک مقدمہ اندراج کی بات ہے تو ذرائع کے مطابق اس میں حسیم عامر، نسیم شہزاد، فیضان مجید، علی مجید اور وسیم سندھی اصل ملزمان ہیں جبکہ باقی ان ملزمان کے چچا ، بڑے بھائی اور والد کو بے قصور اس میںشامل کیا گیا ہے اور جہاں تک بچوں سے پیسے لینے کی بات ہے تو وہ بھی ملزمان لیتے رہے ہیں مگر اس حد تک نہیں جس حد تک بتایا جا رہا ہے۔ ویڈیوز میں جن بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی نظر آئی ہے ان میں سے بعض اپنے شوق اور بعض ملزمان سے سو ،دو سو روپے پیسے وصول کر کے خود ان کے پاس جاتے ۔ملزمان بعض اوقات چوری جبکہ بعض ویڈیوز کے بننے کابچوں کو علم تھا ۔ویڈیوز کے بعد ملزمان بچوں کوبلیک میل کر کے دوبارہ پھر اسی مقصد کیلئے بلا لیتے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا ہے نہ کسی بچے نے گھر جا کر بتایا اور نہ ہی گاؤں میں کسی اور نے آج تک یہ بات ظاہر کی۔
حسیم عامر ، نسیم شہزاد، علی مجید، فیضان مجید، وسیم سندھی، بشارت چیور اصل ملزمان ہیں ۔ملزمان حسیم عامر اور نسیم شہزاد کو ان کے بڑے بھائیوں علیم آصف اور وسیم عابد نے معلوم ہونے پر سمجھایا بھی تھا جس کے بعد انہوں نے ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی مگر بعد میں پھر وہی کام کرنے لگے۔بعض ویڈیوز میںملزمان ویڈیوز بناتے وقت موبائل کے کیمروں کو ایڈجسٹ کر لیتے جبکہ باقی موبائل نظر نہیں آتا تھا ۔علاقے کے بے گناہ لوگوں کو سانحہ سے ملوث کرنے کی بجائے غیر جانبدارانہ طور پر انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔
لاہور /رپورٹ : صابر بخاری