پاکستان میں عید اور سیاسی قیادت کی بے حسی
عوام جنہیں ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں تو پھر یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ان ترقی اور فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ ان کی غمی خوشی میں بھی ان کا ساتھ دیں گے۔ پہلے یہ ہی ہوتا ہے کہ بہت سے عوامی نمائندے کھلی کچہری لگاتے تھے اور عید کے تہوار پر عوام الناس کے لیے اپنے گھر کے دروازے کھول دیتے تھے۔ پر دہشت گردی کے واقعات نے حکمرانوں اور عوام کے درمیان ایک وسیع فاصلہ قائم کردیا۔ حکمرانوں اور دیگر سیاستدانوں نے تو جدید سیکورٹی کا سہارا لے کر خود اپنی حفاظت تو یقنی بنالی لیکن عوام دہشت گردوں کا تر نوالہ بنتے رہے۔ مہنگی بلٹ پروف گاڑیوں کے ساتھ بیس،تیس پروٹوکول کی گاڑیوں اور سینکڑوں سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ سفر کرنے والے سیاست دانوں سے کوئی غریب ملنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتا ہے۔ اگر کوئی سائل آگے بڑھنے کی کوشش بھی کرے، اپنا مدعا بیان کرنا بھی چاہے تو سیکورٹی اہلکار اس کو رسک سمجھ کر مار پیٹ کرتے ہیں اور فوری طور پر منظر سے ہٹا دیتے ہیں۔ اکثر اوقات بات غریب کو تھانے میں بند کرنے تک جاکر ختم ہوتی ہے۔
ووٹ مانگتے وقت تو سیاستدان ہر طرح کا پروٹوکول توڑ کر عوام میں گھل مل جاتے ہیں لیکن حکمرانی ملتے ہی اسی عوام میں گھلنے ملنے سے کتراتے ہیں کہ سیکورٹی رسک ہے، ہمیں دہشت گردوں نے دھمکیاں دے رکھی ہیں،عوام اپنے دکھ، کرب، اپنی تکلیفات کبھی بھی حکمرانوں کے اونچے محلات کے اس پار تک نہیں پہنچا پاتے۔اس بار عید الفطر کو پاکستان کے عوام نے آرمی پبلک سکول کے ننھے شہداء اور ان کے عظیم اساتذہ کے نام کیا۔سرکاری طور پر اس کا اعلان نہیں ہوا لیکن عوام نے خود اپنے بہن بھائیوں کا درد محسوس کرتے ہوئے عید پر شہداء کو یاد کیا،تاہم سرکاری سطح پر وہی روایتی بے حسی اور مجرمانہ سکوت چھایا رہا۔ عوام منتظر رہے کہ حکمران یا اپوزیشن لیڈرز میں سے کوئی تو آئے گا جو ان کے ساتھ عید کی نماز پڑھے گا، ان کو گلے لگائے گا، ان کے آنسو پونچھے گا، پر ایسا کوئی بھی درد دل رکھنے والا سیاست دان نہیں آیا۔ فیس بک اورٹویٹرپر سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیمز نے سانحہ آرمی پبلک سکول کے لواحقین کے لیے تعزیتی پیغامات لکھ دیے،بس اور کچھ نہیں ایک دوسرے کو نیچا دیکھنے کے لیے ٹرینڈ بھی بنا دیئے، پروفائل تصاویر بھی تبدیل کرلیں لیکن شہید بچوں کے والدین کو کسی نے گلے نہیں لگایا، تسلی نہیں دی، آنکھوں سے رواں آنسو نہیں صاف کئے، سر پر دست شفقت نہیں رکھا۔
صرف پشاور ہی کیا ملک کے دوسرے حصوں میں بھی دہشت گردی کی وجہ سے اپنی جان سے جانے والوں کے پیارے روتے رہے لیکن حکمرانوں اور انقلاب کے دعوے دار اپنی نجی مصروفیات میں مست رہے۔ سب سے پہلے بات ہو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف صاحب کی تو یہ تو حالت سفر میں ہی رہتے ہیں، کبھی ایک ملک، کبھی دوسرا ملک، پاکستان کے دورے پر تو کم ہی آتے ہیں۔ کہاں جلاوطنی میں ہر وقت شکوہ کنا ں رہتے تھے کہ وطن کی یاد بہت ستاتی ہے۔ اب جب اللہ نے دعائیں سن لیں، ان کو وطن واپس لے آئے، عوام نے ووٹ دے کر حکمرانی بھی دے دی تو ان کا دل پاکستان میں لگتا نہیں۔ عید کا دن انہیں اور خاتون اول بیگم کلثوم نواز کو آرمی پبلک سکول کے شہداء کے لواحقین کے ساتھ منانا چاہیے تھا، سانحہ صفورا، امامیہ مسجد اور شکار پور مسجد میں شہید ہونے والے افراد کے گھر والوں کے ان کے سر پر دست شفقت رکھ کر منانا چاہیے تھا، پر ایسا نہیں ہوا۔ وزیراعظم نواز شریف کو ضرب عضب کے پہلے جواں سال شہید کیپٹن آکاش ربانی کے گھر جانا چاہیے تھا، ان کے اہل خانہ کی عظمت کو سلام کرنا چاہیے تھا لیکن وزیراعظم کی نجی مصروفیات ملک سے زیادہ اہم ہیں، ملک کے عوام سے بڑھ کر ہیں۔
بات ہو ہر وقت انقلاب انقلاب کرنے والے عمران خان صاحب کی تو انہوں نے بھی مناسب نہیں سمجھا کہ ان کے صوبے میں دہشت گردی کے ستائے ہوئے عوام کے زخموں پر مرہم رکھا جائے یا سی ایم ایچ پشاور میں ضرب عضب میں زخمی ہونے والے فوجی افسران کی عیادت کی جائے۔ ایک ٹویٹ آئی ڈی پیز کے لیے دوسرا ٹویٹ شہدا آرمی پبلک سکول کے لیے کیا اور بس بات ختم۔ سارا رمضان اپنے ذاتی اسپتال کے لیے چندہ اکھٹا کیا، افطاریاں کیں لیکن شہدائے آرمی پبلک اسکول کے لواحقین کو ایک بار بھی ن پوچھا۔کہیں تعزیت کرنے جانا ہو تو یہ بھی بہانہ تیار ہوتا ہے کہ موسم کی خرابی کے باعث فلائی نہیں کرسکے۔ ان ہی کے جماعت کے وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک نے پوپلزئی صاحب کے ساتھ عید کرلی جبکہ ان کے صوبے میں سیلاب سے متاثرہ لوگ امداد کے منتظر تھے۔ دیگر وزراء بھی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد میں رہے۔
بات ہو اگر پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی تو عید پر لندن روانہ ہوگئے، وہاں سے ویڈیو لنک پر سیلاب سے ڈوبے ہوئے پنجاب کا معائنہ کررہے ہیں۔جنوبی پنجاب میں سو سے زائد بستیاں زیر آب ہیں۔ کئی ایکڑ پر فصلیں تباہ ہوگئیں۔ تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب کی نجی مصروفیات اہم ہیں۔ خادم اعلیٰ لگتا ہے اس بار سیلاب کو ہی معطل کردیں گے جو ان کی گڈ گورننس کا پول کھولنے ہرسال آجاتا ہے۔ بات ہو مفاہمت کی سیاست کے چیمپئن سابق صدر آصف علی زرداری کی تو پورا رمضان ان کی پارٹی کے حکومتی صوبے میں لوگ گرمی اور لوڈشیڈنگ سے مرتے رہے لیکن یہ سامان اٹھا کر دبئی چلے گئے، اہم مشاورتی اجلاس جو کرنے تھے، عوام کی جان سے بڑھ کر اجلاس اہم ہوگئے۔ بزرگ وزیر اعلیٰ جب تک جاگےتو سندھ میں سینکڑوں افراد گرمی کے باعث جان کی بازی ہار چکے تھے۔ عید پربھی سندھ حکومت کے وزراء کو مرنےوالوں کے لواحقین کا خیال تک نہیں آیا۔
اس کے برعکس اگر اعلیٰ عسکری قیادت پر نظر ڈالی جائے تو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے شہدائے آرمی پبلک اسکول کے لواحقین کو افطار پر مدعو کیا، ان کے ساتھ وقت گزارا، ان کی اہلیہ بھی ان کے ساتھ موجود تھیں جو شہید بچوں کی ماؤں کو گلے لگا کر ان کا غم بانٹتی رہیں۔ آرمی چیف نے عید شمالی وزیرستان میں اگلے مورچوں پر سپاہیوں کے ساتھ منائی اور قیام بھی وہیں کیا۔ شمالی وزیرستان میں عمائدین سے بھی ملے۔ کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ نے عید سانحہ مستونگ کے شہداء کے لواحقین کے ساتھ منائی، بعد ازاں وہ اس بہادر چوکیدار طالب حسین کے گھر گئے جس نے ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی پر خودکش حملہ آور کو روکتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔کراچی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے عید کا روز سانحہ صفورا کے شہداء کے لواحقین کے ساتھ گزرا اور انہیں تسلی دی۔سانحے صفورا کی تحقیقات پر پیش رفت سے آگاہ کیا۔ ڈی جی رینجرز سندھ بلال اکبر نے بھی سرحدی علاقوں کا دورہ کیا۔
آرمی کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے، سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ حکومت کا کام انتظامی امور چلانا ہے۔ضرب عضب کے بعد سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی تو آئی لیکن دہشت گردوں نے اس آپریشن کا بدلہ عوام سے لینے کے لیے کچھ ایسے وار کئے جن کا درد آج بھی محسوس ہوتا ہے۔ آرمی پبلک اسکول میں ننھے پھولوں کو مسل دیا، امامیہ مسجد اور شکار پور مسجد میں دہشت گردی، سانحہ صفورا اور سانحہ مستونگ سب پاکستان کے قلب پر حملہ تھا۔ان تمام واقعات کے بعد اپنے پیاروں کے بنا لواحقین کی یہ پہلی عید تھی، تو پہلے کس کا فرض بنتا تھا لواحقین کی داد رسی کرنے کا؟ پہلا فرض وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کا بنتا تھا، اس کے بعد صدر پاکستان ممنون حسین کا، اس کے بعد تمام وزرائے اعلیٰ کا، پھر آصف علی زرداری اور عمران خان کا لیکن یہ تو صرف ذاتیات کی سیاست میں مصروف ہیں۔ ہر کسی کو اپنا مفاد پیارا ہے اور ان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ کسی بوڑھی ماں کے آنسو صاف کرسکیں جس کا جوان بیٹا دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گیا،کسی بیوہ اور یتیم بچوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھ دیں جن کو دہشت گردوں نے ہر خوشی سے محروم کردیا۔
بس ٹی وی پر آکر حوصلے اور تسلی کے پیغامات دے دیتے ہیں یا پھر فون سے کوئی ٹویٹ یا فیس بک میسج کر کہ مشکل کی گھڑی میں ہم آپ کے ساتھ ہیں وغیرہ وغیرہ جیسے روایتی گھسے پٹے پیغامات ۔کیا خاک یہ لوگ عوام کے ساتھ ہیں، جن کے امریکا، برطانیہ، دبئی کے دورے نہیں ختم ہوتے۔ ایک طرف ان کی اہل و عیال لاکھوں کی شاپنگ کرتے ہیں تو دوسری طرف کہتے ہیں ہم عید نہیں منا رہے، کیا منافقت ہے یہ۔ منائیں عید لیکن جھوٹ تو نہ بولیں، عوام آنکھیں، کان سب رکھتے ہیں۔اگلی بار جب اس طرح کے لوگ ووٹ مانگتے آئیں تو عوام کو چاہیے انہیں ووٹ دینے کے بجائے ان ہی کی طرح یا تو فیس بک اسٹیٹس اپ لوڈ کرلیں یا ٹویٹ کردیں، ووٹ اس شخص کو دیں جس کی سیاست اس کی ذات نہیں عوام کے گرد گھومتی ہو، جو خدمت خلق کاجذبہ رکھتا ہو۔
جویریہ صدیق