کراچی میں بجلی کی سپلائی کا نظام اسرائیلی اوربھارتی انٹیلی جنس کے ہاتھ میں! ڈمی کمپنیوں کا الجھا دینے والا جال،کوئی اصل مالک تک پہنچ نہیں سکتا،اربوں کا سرمایہ بیرون ملک چلا گیا ،زرداری اورفریال بھی مالک
ملک کے معاشی گڑھ کراچی کے عوام کو اندھیروں میں دھکیلنے والی کے الیکٹرک کمپنی آخر ایسا کیا کر رہی ہے َکہ کراچی میں بجلی کا بحران اس کے قابو میں میں نہیں آ رہا ۔اس سوال کا جواب سامنے آنا شروع ہو گیا ہے۔ ا ب شائد وہ وقت آ گیا ہے کہ کہ کے الیکٹرک کے مظالم ، فراڈ ، دھوکہ دہی ، دہشت گردی اور لوٹ مار کے کھیل میں ملوث شہروں کو بے نقاب کیا جائے اور انہیں عوام کے حوالے کر دیا جائے اور وہ جو چاہیں ان سے سلوک کریں ۔
کے الیکٹرک کے بارے میں فیکٹ کی تحقیق میں انتہائی خوفناک اور چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے ۔ لیکن سب سے بڑا انکشاف یہ سامنے آ یا کہ کے الیکٹرک کا پیشہ جہاں ایک طرف دہشت گردی میں استعمال ہوتا رہا وہاںکے الیکٹرک کے اقتصادی دہشت گردوں نے بجلی کا سارا نظام نچوڑ کراربوں روپے کا سرمایہ بیرون ملک شفٹ پاکستان کو کنگال کر دیا ہے اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کہ صرف پاکستان میں ہی یہ گھنائونا کھیل کیوں کھیلا گیا؟سب سے بڑی بات یہ کہ اس وقت کراچی میں بجلی کی سپلائی کا پورا نظام اسرائیلی اور بھارتی انٹیلی جنس کے ہاتھ میں ہے اور وہ جب چاہیں کراچی میں اندھیرا کر سکتے ہیں ۔
فیکٹ کی معلومات کے مطابق کے الیکٹرک کی نج کاری ایک بہت بڑا فراڈ تھا جس میں اسرائیلوں اور بھارتیوں کے علاوہ کچھ غدار پاکستانی بھی ملوث تھے۔2005میں اس اس کے ای ایس سی (کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی) کی نج کاری کی گئی اور 2009میں آصف علی زردای کے صدر بننے کے بعد اس معاہدے کی تجدید کی گئی ۔اس وقت کے ای ایس سی کو دوبئی کے البراج گروپ نے خریدا تھا ۔ تاہم اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ البراج گروپ اس کمپنی کا مالک نہیں ہے بلکہ کاغذات میں اس کمپنی کا مالک الجومیہ کو دکھایا گیا ہے ۔مزید تحقیق کریں تو پتہ چلتا ہے کہ الجومیی سعودی عرب کی ایک کمپنی ہے لیکن آگے کی تحقیق اسے اور الجھا دیتی ہے ۔
فیکٹ کی معلومات کے مطابق الجومیہ ہائوسنگ پرائیویٹ لمیٹڈبھی اس کی ایک شاخ ہے جسے سعودی عرب میں رجسٹرڈ دکھایا گیا ہے لیکن اصل میں یہ کمپنی کیمن ایک برطانیہ آئس لینڈ کیمو میں رجسٹرڈ ہے ۔
فیکٹ کی تحقیق سے مزید پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی ایک فرضی کمپنی ہے اور اگر کیمو آئی لینڈ برطانیہ میں اس کمپنی کو تلاش کیا جائے تو مایوسی ہو گی اور وہاں بھی اس کمپنی کا کوئی وجود نہیں ملتا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب فرضی کمپنیاں ہیں ۔ کیمو آئس لینڈکی آبادی پچاس ہزار کے قریب ہے اور یہ آئس لینڈ دنیا بھر کی بڑی مافیائوں کا ہیڈ کوارٹر ہے جبکہ اسے دنیا بھر میں کالا دھن جمع کرنے والوں کی جنت کے طور پر جانا جاتا ہے۔حال ہی میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں یہاں جمع ہونے والے کالے دھن کے بارے میںکہا ہے کہ یہاں جمع ہونے والی رقم کو دنیا بھر میں دہشت گرد تنظیموں میں بانٹا جاتا ہے۔
کے الیکٹرک کا پیشہ جہاں ایک طرف دہشت گردی میں استعمال ہوتا رہا وہاںکے الیکٹرک کے اقتصادی دہشت گردوں نے بجلی کا سارا نظام نچوڑ کراربوں روپے کا سرمایہ بیرون ملک شفٹ پاکستان کو کنگال کر دیا
فیکٹ کی تحقیق کے مطابق الجومیہ کمپنی کے فنانسر کے طور پر ’’بینن‘‘نام کی ایک کمپنی کا نام سامنے آیا جو کیمو آئس لینڈ میں رجسٹرڈ ہے ۔مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ بنیادی طور پر یہ ایک یہودی کمپنی ہے اور اس کے تمام شیئرز یہودیوں کے پاس ہیں ۔یہودیوں نے پیسے کے بل بوتے پرالجومیہ نام کی فرضی کمپنی بنا کر ایک تصوراتی خاکہ بنایا گیا اور اس کا نام البراج گروپ رکھا گیا ۔
اگر انٹر نیٹ پر تلاش کریں تو دنیا کی کسی بڑے گروپ میں البراج گروپ کا نام نظر نہیں آئے گا اور نہ ہی یہ کمپنی کہیں کام کرتی ہوئی نظر آئے گی ۔
ذرائع نے فیکٹ کو بتایا کہ پوری دنیا سے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور اسرائیلی موساد کے ایجنٹوں کو اس کمپنی میں جمع کیا گیا ۔ اس کا مقصد کیا تھا یہ فی الحال ایک راز ہے ۔ لیکن اگر پاکستان کی سکیورٹی ،دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ اور پڑوسی ملکوں کے ساتھ پراکسی وار کے تناطر میں دیکھیں تو پورے کھیل کو سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگے گی ۔
فیکٹ کی تحقیق کے مطابق کے الیکٹرک کا نظام چلانے والے اس گروپ کے پروفائلز کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ بہت سے یہودی اور انڈین بھی اس گروپ کے اندر ہیں اور اسی وجہ سے یہ پورے کراچی میں اپنی آزادانہ نقل و حرکت جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
اب را اور موساد کے ہاتھ نہ صرف پورے کراچی کی بلکہ پورے پاکستان کی تمام تر تفصیلات آ چکی ہیں کہ کس مقام پر کتنے مکان ہیں؟ وہاں کون رہتا ہے؟فوجی نقل وحرکت کہاں سے اور کیسے ہوتی ہے؟اس پورے کھیل میں چند پاکستانی بھی شامل ہیں جو نہیں جانتے کہ البراج گروپ دراصل ایک تصوراتی خاکہ ہے۔
فیکٹ کی تحقیق کے دوران کچھ ٖیر مصدقہ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ 2005میں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ہونے والے اس معاہدے کی 2009میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے جب تجدید کی تھی تو اس تجدید کے عوض انہوں نے اپنے کچھ شیئرز کے الیکٹرک میں رکھ لئے۔انہی ذرائع کے مطابق اس وقت آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے الیکٹرک میں سب سے زیادہ پرائیویٹ پاکستانی شیئرز کی مالک ہیں اور ہر ماہ اربوں روپے ان کے بیرون ملک اکائونٹس میں خود بخود جمع ہو جاتے ہیں ۔
ذرائع نے نے فیکٹ کو یہ بھی بتایا کہ کے الیکٹرک نے آتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ پورے کراچی میں بچھی تانبے کی تاروں کو اتار گیا اور سسٹم کو اپ گریڈ کرنے کے نام پر ان کی جگہ گھٹیا قسم کی تاریں ڈالی گئیں جو بجلی کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتیں ۔یاد رہے کہ دنیا میں اس وقت تانبے کی سب سے زیادہ مانگ ہے ۔تانبے کی ان تاروں کو بعد ازاں فروخت کیا گیا اور اس سے حاصل ہونے والی اربوں روپے کی رقم کراچی میں دہشت گرد تنظیموں کو دے گئی جنہوں نے پورے ملک میں دہشت گردی کا بازار گرم کئے رکھا ۔
کے الیکٹرک کے معاملات سے با خبر ذرائع نے فیکٹ کو یہ بھی بتایا کہ کے الیکٹرک کے معلامات کی شفاف چھان بین کی جائے تو یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ نکلے گا ۔ کیونکہ پاکستان کی تاریخ میںکھربوں کی رقم کبھی بیرون ملک منتقل نہیں کی گئی ۔
رپورٹ: مقبول ارشد
kamal ke story hay…hay koi jo action la….
ali islamabad