نیب کےالزامات ، کیا شہباز شریف نیب کیخلاف عدالت جائیں گے؟
ملک میں کرپشن کے خلاف ایک غیر اعلانیہ جنگ جاری ہے۔ سندھ میں تو رینجرز نے دہشت گردوں کے خلاف اپریشن کرتے کرتے کرپشن کے خلاف اپریشن شروع کر دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سندھ حکومت رینجرز کے اس اقدام کو اختیارات سے تجاوز سمجھتی ہے۔ یہ بھی تاثر ہے کہ رینجرز کے اسی اپریشن کی وجہ سے پہلے سابق صدرآصف زرداری نے اسٹبلشمنٹ کے خلاف تقریر کی۔ اور بعد میں جب اس تقریر کے خلاف سیاسی جماعتوں نے ہی رد عمل دے دیا۔ تو وہ چپ کر کے دبئی چلے گئے۔ لیکن اب لگ رہا ہے کہ رینجرز اور پیپلزپارٹی کے درمیان کوئی بات چیت ہو گئی ہے اسی لئے رینجرز کے کراچی میں قیام میں توسیع ہو گئی ہے۔ ورنہ پہلے یہ تاثر پیدا کیا گیا تھا کہ ایسا نہیں ہو گا۔ جس پر الطاف حسین نے بیان بھی داغ دیا تھا کہ ایسا نہیں ہو نا چاہئے۔
کچھ تجزیہ نگار یہ بات بھی کر رہے ہیں۔کہ ملک میں سیاستدانوں کو بد نام کرنے کے حوالے سے ایک منظم مہم شروع ہے۔ اس مہم کے تحت سیاستدانوں کی کرپشن کی داستانیں اب میڈیاء میں غیر معمولی تناظر میں نظر آرہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ منظم مہم کو ن چلا رہا ہے۔ اور اس کے مقاصد کیا ہیں۔ یہ سوال پوچھنے پر ایک سیا نے نے مجھے غور سے دیکھا اور مسکرایا اور کہنے لگا وہی چلا رہے ہیں جو ہمیشہ سے چلاتے آئے ہیں۔ اور مقاصد بھی وہی ہیں جو ہمیشہ سے ہوتے ہیں۔ کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ پرانا سکرپٹ ہے۔ کھلاڑی نئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں بہت سیخ پا ہو رہے تھے۔ ان کا اور ان کے خاندان کا نام نیب نے سپریم کورٹ میں اس فہرست میں دے دیا ہے۔ جس کے خلاف ریفرنس زیر التوا ہیں۔ وہ پریس کانفرنس میں اپنی بے گناہی کے ثبوت کیمرہ کو دکھا رہے تھے۔ بنکوں کے وہ خط سب میں بانٹ رہے تھے۔ جن میں واضح طور پر لکھا تھا کہ شریف خاندان نے اتفاق فاؤنڈری کے تمام قرضیے سود سمیت ادا کر دئے تھے۔ بیچارے شہباز شریف بار بار ایک ایک بنک کا خط پڑھ رہے تھے۔ کہ دیکھیں ہم نے تمام بنکوں کا قرضہ سود سمیت ادا کر دیا ہے۔ سب بنکوں نے ہمیں این او سی جاری کیا ہوا ہے۔ میں مسکرا رہا تھا۔ کہ یہ شہباز شریف کو کیا ہو گیا ہے۔ وہ کیوں اپنی صفائی دے رہے ہیں۔ کیا انہیں نہیں معلوم یہ کیا معاملہ ہے۔ کیا وہ واقعی اتنے سادہ ہیں۔ کہ ان کا خیال ہے کہ ان کی صفائی کے بعد معاملہ ٹھیک ہو جائے گا لیکن جس طرح سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ بات سمجھ آگئی کہ شہباز شریف کو سب پتہ ہے وہ تو صرف ریکارڈ کی درستی کے لئے بات کر رہے ہیں۔ ورنہ سکرپٹ اور کھیل کا انہیں بھی اندازہ ہے۔ اسی لئے جب بار بار یہ سوال کیا گیا کہ نیب نے ان کے خاندان کا نام کیوں دیا ہے تووہ براہ راست نیب پر تبصرہ کرنے سے گریز کر رہے تھے۔بار بار نیب پر سوال کے جواب میں وہ یہی کہہ رہے تھے کہ نیب پر وہ چند دن بعد بات کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ نیب کی جانب سے لگائے گئے الزامات کا جواب دے رہے تھے تو نیب پر بات کیوں نہیں کر رہے تھے۔ تا ہم محترم پرویز رشید نے اسلام آباد سے نیب کے خلاف بیان داغ دیا ہے۔ اس ساری صورتحال کے بعد دو ہی آپشن سامنے آرہے ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ نیب سکرپٹ کا حصہ بن چکی ہے۔ اور نیب کو آگے بھی سیاستدانوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ جبکہ دوسرا آپشن یہ ہے کہ نیب کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا اور وہ اپنی تصحیح کر لے گی۔
شہباز شریف نے کوشش کی کہ وہ کافی سوالات کا جواب نہ دیں صرف اپنی بات کریں کہ شریف فیملی کسی بھی بنک کی نادہندہ نہیں ہے۔ لیکن جب یہ سوال کیا گیا ہے کہ ملک میں نرم انقلاب کی بات ہو رہی ہے۔ تو شہباز شریف نے برملا کہا کہ وہ نرم انقلاب کے حق میں ہیں۔ وہ کہنے لگے دعا کریں خونی انقلاب نہ آئے۔ یہ نرم انقلاب کیا ہے۔ کیا یہ اسٹبلشمنٹ کو جمہوریت میں ہی شراکت اقتدار کرنا ہے۔ تا کہ انہیں براہ راست اقتدار میں آنے کی ضرورت نہ رہے۔ اگر یہی منطق ہے تو اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ پھر اس نرم انقلاب کی کوئی حدود نہیں ہو نگی۔ اس کے کوئی رولز آف گیم نہیں ہو نگے۔
اس لئے ضرور ت اس امر کی ہے کہ سیاستدان اس نرم انقلاب کی کوئی حدو د بھی متعین کریں۔ ورنہ جنگل کے قانون والا معاملہ ہو جائے گا۔ماضی میں اس ملک کے آئینی اداروں بشمول عدلیہ نے تو ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کو خوش آمدید کہا ہے۔ کیا اس بار بھی ایساہی ہو گا۔ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ کیا شہباز شریف نے جو بھی اپنی صفائی دی ہے۔ اس کو سپریم کورٹ سامنے رکھے گی۔ تا کہ اس تاثر کو دور کیا جا سکے گا۔ کہ یہ سب ایک گیم کے تحت ہو رہا ہے۔
ہمیں سمجھنا ہو گا کہ سب سیاستدان کرپٹ نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ خد اکے لئے ان سکینڈلز کو ختم کر دیا جائے جن کا گزشتہ دس سال میں فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اس سے پہلے بھی پوری قوم نے انہی سکینڈلز کے نام پر مختلف سیاسی بحران دیکھے ہیں۔ ہمیں اب آج کی بات کرنا ہو گی۔ آج کی کرپشن کی بات کرنا ہو گی۔ جن سکینڈلز کا فیصلہ فوج اپنے دور حکومت میں بھی نہ کر سکی۔ انہیں اب استعمال کرنا کسی بھی طرح اخلاقی نہیں ہے۔ قطع نظر کہ یہ سچ ہیں یا جھوٹ۔ اب آج کی بات کرنے کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ اسی میں ملک وقوم کی بھلائی ہے۔
آخر میں ایک اور بات۔ کیا شہباز شریف اپنے خلاف لگنے والے الزامات کے خلاف نیب کے خلاف عدالت جائیں گے۔ یہ ضروری ہے۔ کیونکہ کسی بھی ادارے کو جھوٹے الزام لگانے پر جوابدہ ہونا چاہے۔
مزمل سہر وردی