Published On: Thu, Jul 2nd, 2015

دنیا کے انتہائی دولت مند مگر کفایت شعار لوگ

Share This
Tags
دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کا غلبہ ہے اور لوگ دن رات دولت کمانے میں صرف کر دیتے ہیں اور امیر بننے کی صورت میں ہر طرح کی پرتعیش زندگی گزارنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔Billionaires
دنیا بھر میں امیر ترین افراد کے پرتعیش طرز زندگی کی داستانیں عام ہیں جیسے ان کی کشتیاں اور بلند و بالا محل سے لے کر ان کے کپڑوں، زیورات اور بہت کچھ سب کچھ مہنگے سے مہنگا ہوتا ہے۔
تاہم ایسے ارب پتی حضرات کی بھی کمی نہیں جو اربوں ڈالرز کے مالک ہونے کے باوجود عام سادہ زندگی گزارنے کے ترجیح دیتے ہیں اور ان کو دیکھ کر کسی کو بھی احساس نہیں ہوتا کہ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہے۔
تو ایسے ہی کچھ افراد کا طرز زندگی جانے جنھوں نے کروڑوں بلکہ اربوں ڈالرز کمائے ہیں مگر اپنی کفایت شعاری کے ساتھ فلاحی کام کرتے ہوئے زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ڈیوڈ کیروٹن
David
ڈیوڈ کیروٹن امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور آریسٹا نیٹ ورک کے شریک بانی ہیں اور گوگل میں سرمایہ کاری کرنے والے 1998 میں اولین افراد میں سے ایک ہیں جس وقت دنیائے انٹرنیٹ پر حکمران سرچ انجن کے بانیوں لیری پیج اور سرگئی برن نے اپنے پراجیکٹ کے بارے میں تذکرہ کیا تھا۔
اس وقت ایک لاکھ ڈالرز کی سرمایہ کاری پروفیسر ڈیوڈ کے بہت کام آئی اور اگرچہ وہ ارب پتی بننے کے خیال کو پسند نہیں کرتے مگر اب ان کے اثاثوں کی مالیت 2.9 ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔
تاہم پروفیسر ڈیوڈ نے 2006 میں ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ میں پرتعیش طرز زندگی کے خلاف ہوں جو لوگ درجنوں باتھ رومز کے ساتھ ساتھ محل نما گھر تعمیر کرتے ہیں اور دیگر لگژری اشیاءکو ترجیح دیتے ہیں ان کے اندر کچھ نہ کچھ غلط ہوتا ہے۔
ارب پتی ہونے کے باوجود یہ پروفیسر اب بھی 1986 کی واکس ویگن ویناگون ڈرائیو کرتے ہیں اور گزشتہ 30 برس سے ایک ہی گھر میں رہتے آرہے ہیں، یہاں تک کہ اپنے بال بھی خود کاٹتے ہیں اور ٹی بیگز کو بھی کئی کئی بار دوبارہ استعمال کرلیتے ہیں۔
تاہم 2012 میں اپنے بچوں کی فرمائش پر مجبور ہوکر انہوں نے انہیں ہنڈا اوڈیسے گاڑی دلوا دی تھی۔
چارلی ایرگن
Charli
چارلی اریگن ڈش نیٹ ورک کے بانی اور سی ای او ہیں اور کفایت شعار رہنماءاور مائیکرومنیجر کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔
دس برس قبل تو وہ اپنے ڈش نیٹ ورک کے ہر چیک پر بھی خود دستخط کرنے پر اصرار کرتے تھے۔
17.8 ارب ڈالرز کے مالک اس فرد کا دوپہر کا کھنا ایک سینڈوچ اور ایک اسپورٹس ڈرنک پر مشتمل ہوتا ہے، وہ اپنے دفتر میں روز عام ملازمین کی طرح کام کرتے ہیں اور طویل عرصے سے دوران سفر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہوٹل کمروں میں رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ میری والدہ ڈپریشن کی حالت میں پلی بڑھی تھی اور ہمارے ابتدائی حالات کافی مشکل بھرے تھے۔
ایرگن نے اپنے کیرئیر کا آغاز معمولی ورکر کی حیثیت سے شروع کیا اور اب وہ ڈش نیٹ ورک کی بدولت امریکا کے بااثر ترین میڈیا شخصیات میں سے ایک ہیں مگر حال یہ ہے کہ ان کے دفتر میں کام کرنے کے لیے مناسب میز تک موجود نہیں۔
خود ان کے الفاظ میں میرے پاس تو مہاگنی کی ایک میز تک نہیں۔
جیک ما
Jackma
علی بابا گروپ ہولڈنگ لمیٹیڈ ایک چینی ای کامرس کمپنی ہے اور اس کے بانی و چیئرمین جیک ما 22.8 ارب ڈالرز کے اثاثوں کے ساتھ چین کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں مگر نمود و نمائش کے سخت مخالف اور اپنی ذاتی زندگی کو لوگوں کی نگاہوں سے دور رکھنے کے حامی ہیں۔
جیک ما کی پرورش غریب کمیونسٹ چین میں ہوئی جو دو بار کالج میں داخلے کے امتحانات میں ناکام ہوئے اور انہیں درجنوں ملازمتوں سے برطرف کیا گیا۔
اب جبکہ وہ چین کیا دنیا بھر میں ایک معروف شخصیت اور امیر ترین فرد بن چکے ہیں وہ اب بھی چوٹیوں کے اوپر مراقبے اور اپنے گھر میں دوستوں کے ساتھ پوکر کھیل کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ان کے ایک دوست اور کمپنی میں معاون چین نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ جیک ما کا طرز زندگی بہت سادہ اور متعدل ہے۔ ان کے پسندیدہ مشاغل میں اب بھی ٹائی چی اور کنگفو ناولز پڑھنا ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ وہ دنیا کے امیر ترین شخص بن کر بھی بدلیں گے کیونکہ ان کا انداز بدلنے والا نہیں یا وہ پرانی سوچ کے حامل شخص ہیں۔
پیری اومیڈئیر
pare
پیری اومیڈئیر معروف امریکی ملٹی نیشنل اور ای کامرس کمپنی کے مالک ہیں۔
پیری اس وقت 8.2 ارب ڈالرز کے مالک ہیں اور وہ 1998 میں ای بے کے تشکیل پانے کے بعد ایک ارب پتی شخص بن گئے تھے تاہم انہوں نے کبھی بھی اپنی دولت آسائشات کے لیے خرچ کرنے کا نہیں سوچا۔
امریکی جریدے فوربس کو ایک انٹرویو کے دوران پیری نے کہا کہ ہمارے ہاں امیر ہونا اور پھر مضحکہ خیز امیر بن جانا معمول بنتا جارہا ہے تاہم میں نے یہ تصور کرلیا تھا کہ میں اب بہت امیر ہوگیا ہوں اور ہمارے پاس کافی دولت ہے جس سے ہم صرف ایک متعدد قیمتی گاڑیاں خرید سکتے ہیں۔
جب آپ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ آپ سب گاڑیوں کو خرید سکتے ہیں تو پھر ان آسائشات میں وکئی دلچسپی یا سکون محسوس نہیں ہوتا۔
وہ اپنے بچوں کے لیے بھی کچھ زیادہ چھوڑ کر جانے والے نہیں بلکہ انہوں نے بل گیٹس اور وارن بفٹ کے کہنے پر اپنے اثاثوں کا بڑا حصہ فلاحی مقصد کے لیے صرف کرنے کا وعدہ کیا۔
ڈیوڈ کارپ
david c
ڈیوڈ کارپ معروف بلاگنگ پلیٹ فارم ٹمبلر کے بانی اور سی ای او ہیں جن کی کمپنی کی مالیت 1.1 ارب ڈالرز جبکہ ان کے اپنے ذاتی اثاثے بھی 20 کروڑ ڈالرز کے قریب ہیں تاہم اس کے باوجود وہ سادہ طرز زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔
انہوں نے اپنی دولت سے سب سے بڑی عیاشی جو کی وہ نیویارک کے علاقے بروکلین میں 1700 اسکوائر فٹ کا گھر تھا جس کے لیے 16 لاکھ ڈالرز خرچ کیے تاہم اب بھی اس کا آدھا حصہ خالی پڑا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیوڈ اپنی دولت اتنی کفایت شعاری سے خرچ کرتے ہیں کہ ان کے پاس پہننے کے لیے زیادہ کپڑے تک نہیں۔
فوربس سے ایک انٹرویو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس کوئی کتاب نہیں اور میرے پاس زیادہ کپڑے بھی نہیں۔
ڈیوڈ کے بقول میں ہمیشہ اس وقت حیران رہ جاتا ہو جب لوگ اپنے گھروں کو ان چیزوں سے بھر لیتے ہیں حالانکہ اس کا کوئی زیادہ فائدہ بھی نہیں ہوتا۔
عظیم پریم جی
pramje
ٹیکنالوجی سروسز فراہم کرنے والی بڑی کمپنی ویپرو کے چیئرمین عظیم پریم جی بھارت کے دولتمند ترین افراد میں سے ایک ہے مگر وہ دولت خرچ کرنے سے نفرت کرتے ہیں۔
16.1 ارب ڈالرز کے مالک عظیم پریم عام طور پر فضائی سفر کے دوران سستی ترین کلاس کا اتنکاب کرتے ہیں اور ائیرپورٹ سے اپنے دفتر جانے کے لیے آٹو رکشہ لینا پسند کرتے ہیں۔
وہ اپنے دفاتر میں اتنی کفایت شعاری سے کام لیتے ہیں کہ ٹوائلٹ پیپر تک کی مانیٹرنگ کرتے ہیں اور اکثر اپنے ملازمین کو یاد دلاتے رہتے ہیں کہ دفتر سے جانے سے قبل تمام اضافی لائٹس بند کرکے جائیں۔
ان کی کمپنی کے ایک عہدیدار کے مطابق عظیم پریم جی نے انکل اسکروج (معروف کارٹون جو بطخ کی شکل کا امیر ترین فرد ہوتا ہے) کو سانتا کلاز جیسا بنا دیا ہے۔
دلچسپ بات یہ عظیم پریم جی چاہے تو ایک جیٹ طیارہ بھی خرید سکتے ہیں مگر وہ گاڑی تک خریدنے کے روادار بھی نہیں ۔
بز اسٹون
Bizastone
ٹوئیٹر، میڈٰم اور جیلی کے شریک بانی بز اسٹون لگ بھگ بیس کروڑ ڈالرز کے اثاثوں کے مالک ہیں اور اب تک کئی کاروبار کامیابی سے چلا چکے ہیں مگر اب بھی ایک پرانی واکس ویگن گولف کو ڈرائیو کرتے ہیں۔
بز اسٹون کے مطابق انہیں تو کسی نئی گاڑی یا گھر خریدنے کے خیال ہی شرمندہ کردیتا ہے۔ ان کے بقول اس چیز سے میری شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔
بز اسٹون کی پرورش امریکی حکومت کی جانب سے ملنے والے وظیفے پر ہوئی اور برسوں تک کریڈٹ کارڈ کا قرضہ ان کے لیے وبال جان بنا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ اور ان کی اہلیہ لیوی فلاحی کاموں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
اسٹون کہتے ہیں کہ میرے لیے سب سے ضروری امر یہ ہے کہ میرے پاس دولت ہو تاکہ میں اپنی پوری زندگی میں جن حالات کا سامنا کرتا رہا ہوں ان سے دور رہوں۔
تاہم وہ مزید بتاتے ہیں کہ ایک مہنگی گاڑی کو خریدنا اور بہت بڑے گھ کی ملکیت جن پر بہت زیادہ دولت خرچ ہوگی، اسسے بہتر ہے کہ ہم اس کی جگہ دیگر افراد کی مدد کریں۔
جان کوم
john
واٹس ایپ جیسی کامیاب سوشل میڈیا سائٹ کے بانی جان کوم اب تو سات ارب ڈالرز کے قریب کے اثاثوں کے مالک ہیں تاہم آغاز میں بہت غریب تھے۔
جان کوم کی پیدائش یوکرائن کے شہر کیف میں ہوئی اور وہ اپنے خاندان کے ہمراہ اس وقت امریکا منتقل ہوئے جب ان کی عمر سولہ سال تھی جہاں اس خاندان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور گزر بسر کے لیے حکومتی امداد لینا پڑی۔
جان کوم لڑکپن سے ہی پیسہ بچانے کے عادی تھے اور جب ان کی ویب سائٹ واٹس ایپ کو فروری 2014 میں فیس بک نے 19 ارب ڈالرز کے عوض خریدی تو انہوں نے فیس بک پر دباؤ ڈالا کہ وہ ان کی بارسلونا جانے والی پرواز سے پہلے معاہدے کرلے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اس پرواز کا ٹکٹ رعایتی اسکیم میں لیا تھا جسے وہ ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔
ٹم کوک
timcoke
ایپل کے سی ای او ٹم کوک کو کون نہیں جانتا اور اب بھی وہ امریکا کی سیلیکون ویلی کے سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے چیف ایگزیکٹو ہیں مگر ان کے طرز زندگی کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا ناممکن ہے کہ وہ 80 کروڑ ڈالرز کے مالک ہیں۔
ٹم کوک عام لوگوں کی نظروں سے دور رہ کر زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں اور انہوں نے اپنے آبائی علاقے میں 19 لاکھ ڈالرز کے عوض گھر خریدنے کے سوا آج تک کسی پرتعیش چیز پر زیادہ رقم خرچ نہیں کی۔
ان کا کہنا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ لوگ مجھے ایسے فرد کے طور پر جانے جو جہاں سے تعلق رکھتا تھا وہی رہا اور اپنی ذات کو یہاں کے ماحول میں رکھنے سے مجھے ایسے کرنے میں مدد ملے گی، دولت کبھی بھی میرے لیے آگے بڑھنے کا عزم نہیں رہی۔
ٹم کوک نے گزشتہ دنوں یہ اعلان بھی کیا تھا کہ وہ مرنے سے پہلے اپنی دولت کا زیادہ تر حصہ خیراتی اداروں کے نام کردیں گے اور بس اپنے بھتیجے کے تعلیمی اخراجات کو ہی اپنے پاس رکھیں گے۔
ٹونی حیشھا
tony
ٹونی حیشھا زیپوز نامی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ہیں جبکہ وہ 1999 میں اپنی ایک اور کمپنی لنک ایکسچینج مائیکروسافٹ کو 265 ملین ڈالرز کے عوض فروخت کرچکے ہیں اور اب ایک ارب ڈالرز کے لگ بھگ اثاثوں کے مالک ہیں۔
مائیکروسافٹ کو اپنی کمپنی فروخت کرنے کے بعد انہوں نے اپنی دولت کو گلیمرس زندگی گزارنے کے بجائے زیادہ تعمیراتی انداز میں خرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔
گزشتہ برسوں کے دوران وہ 350 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرکے لاس ویگاس کے نواح کو ایک ٹیکنالوجی حب میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
زیپو کے ایک سرمایہ کار کے مطابق ٹونی جو کچھ کررہا ہے وہ بالکل ہٹ کر ہے بیشتر افراد حیران ہوتے ہیں وہ اپنی کمائی ہوئی دولت سے عیش کرنے اور سیر و تفریح پر وقت لگانے کی بجائے اس قسم کے کاموں میں کیوں مصروف رہتے ہیں۔
سرگئی برن
sargai
گوگل کے شریک بانی سرگئی برن دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں جن کا خزانہ 29 ارب ڈالرز سے زائد ہے اور یہ کہنا کچھ عجیب سے لگے گا کہ متعدد نجی طیاروں کا مالک فرد کفایت شعار ہے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ سرگئی برن خود تسلیم کرچکے ہیں کہ انہیں دولت خرچ کرنا پسند نہیں۔
اپنے ایک انٹرویو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ اپنے والدین سے میں نے کفایت شعار رہنا سیکھا اور میں متعدد آسائشات کے بغیر بھی بہت خوش ہوں۔
انہوں نے کہا کہ وہ موقع بہت دلچسپ ہوتا ہے جب میں پلیٹ میں ایک ذرہ تک چھوڑ کر اٹھنا پسند نہیں کرتا۔ میں اب بھی عام اشیاءکی قیمتوں کا جائزہ لیتا ہوں اور خود کو مجبور کرتا ہوں کہ کم سے کم خرچ کروں اگرچہ میں کنجوس نہیں مگر متعدد آسائشات نہ ہونے کے باوجود خود کو خوش باش محسوس کرتا ہوں۔
وہ اب بھی رعایتی قیمتوں میں اشیاءخریدتے ہیں اور فلاحی کاموں کو کرنا پسند کرتے ہیں اور 2013 میں انہوں نے اور ان سے اب الگ ہوجانے والی بیوی این ووجکیکی نے 219 ملین ڈالرز اس مقصد کے لیے خرچ کیے۔
فیصل عزیز

Leave a comment