ڈیکلن والش لاہور سے کیسے پکڑا گیا؟نجم سیٹھی اور ریٹائرڈ کرنل نے کیا مدد کی؟ نواز حکومت نے پاکستان لانے کا وعدہ کیا، ایگزیکٹ سکینڈل بے نقاب کرنیوالے صحافی کے بارے میں نئے حقائق
حکومت پاکستان نے ایک ایسے امریکی صحافی ڈیکلن والش کی ایگزیکٹ کمپنی کے بارے رپورٹ کو من وعن تسلیم کر کے اس پر فوری ایکشن لے لیا جسےپاکستان سے ناپسندیدہ شخصیت قرار دیکر نکالا گیا اور اسے دنیا بھر میں ایک متنازعہ جرنلسٹ تسلیم کیا جاتا ہے۔امریکی سی آئی کے لئے مبینہ طو ر پر کام کرنے والے ڈیکلن والش نے ایسے موقع پر ایگزیکٹ کمپنی کے بارے گمراہ کن رپورٹ شائع کی جب وہ ’’بول ‘‘ کے نام سے ایک نیا الیکٹرانک میڈیا منظر عام پر لا رہا تھا ۔ ڈیکلن والش کی پاکستان میں جوموجودگی اور نکالے جانے کے حوالے سے فیکٹ کے سامنے کچھ نئے انکشافات سامنے آ ئےہیں۔
ڈیکلن والش جسے جنوبی ایشیائی امور کا ماہر قرار دیا جاتا ہے اس نے ہمیشہ پاکستان کے اہم اداروں کے خلاف لکھا۔ اسے پاکستان کے عام انتخابات کے روز11مئی 2013کو نگران حکومت نے ناپسندیدہ شخصیت قرار دیکر ملک سے نکالنے کے احکامات جاری کئے تو ڈیکلن والش لاہور میں روپوش ہو گیا لیکن وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے افراد نے لاہور پولیس کی مدد سے ڈیکلن والش کو کرنل (ر)انیس عطا اللہ کے گھر 18جی گلبرگ تھرڈ سے قابو گیا تو انیس الرحمان کا داماد علی حسن جو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستا ن کا عہدیدار تھا اس نے لاہور پولیس کے ڈی ایس پی سیکورٹی پرویز بٹ کی منت سماجت کی لیکن اس نے ڈیکلن کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اسی دوران علی حسن نے نگران وزیر اعلی پنجاب نجم سیٹھی سے موبائیل پر بات کر کے ان کی ڈی ایس پی سے بات کروائی ۔ڈی ایس پی پرویز بٹ نے وزیر اعلی پنجاب سے اس معاملے پر معذرت کر لی اور مشورہ دیا کہ وہ وزارت داخلہ سے رابطہ کریں ۔
امریکی اخبار نے دنیا کے کسی ملک کی کمپنی کی جعلسازی کے بارے تفصیلی رپورٹ شائع نہیں کی ۔نیو یارک ٹائم کی 165سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اخبار میں ایگزیکٹ کمپنی کے بارے تفصیلی رپورٹ اور اس رپورٹ کی بنا پر اداریہ بھی تحریر کر دیا
ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے اس بارے مسلم لیگ ن کی قیادت سے رابطہ کیا تو انہوں نے برسر اقتدار آنے کے فوری بعد ڈیکلن والش کو واپس پاکستان لانے کا وعدہ کیا تھا ۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے ادارے نے حکومتی دباؤ کے باوجود ڈیکلن والش کو این او سی جاری کرنے سے انکار کر دیا جس کے باعث وہ پاکستان واپس نہ آسکا لیکن پاکستانی حکومت میں موجود اپنے ہمدردوں سے رابطے کر کے اداروں کے خلاف آرٹیکل لکھ رہاہے۔ڈیکلن والش کا سٹوریز کا مقصد پاکستان کے حساس اداروں کو ٹارگٹ کر نا ہے ۔آج تک کسی امریکی اخبار نے دنیا کے کسی ملک کی کمپنی کی جعلسازی کے بارے تفصیلی رپورٹ شائع نہیں کی ۔نیو یارک ٹائم کی 165سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اخبار میں ایگزیکٹ کمپنی کے بارے تفصیلی رپورٹ اور اس رپورٹ کی بنا پر اداریہ بھی تحریر کر دیا ۔پاکستان کے بعض میڈیا ہاوسز اس ساری صورتحال کو سیکنڈلائز کرنے میں ملوث ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت جو اس سکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث ہے، اس کے علاوہ متحدہ اور پیپلز پارٹی اپنے خلاف ہونے والے آپریشن سے خوف زدہ ہیں وہ حساس اداروں کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر منظم ہو چکے ہیں ۔مذکورہ سیاسی جماعتوں کو یہ دکھائی دے رہا ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں اور مہینوں میں پاکستان کا منظر نامہ تبدیل ہو جائیگا اور جن سیاست دانوں کے جائز وناجائز اثاثے بیرون ملک ہیں انہیں واپس لانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سٹوری کوجان بوجھ کر سکینڈلائز کیا گیا حلانکہ ایک نجی کمپنی جو کئی برسوں سے کام کر رہی ہے ،ایف بی آر ،ایف آئی اے اور دیگر اہم ادارے کام کی نوعیت سے آگاہ تھے وہ پہلے ہی اس کمپنی کے خلاف کاروائی کر دیتے،لیکن ڈیکلن والش کی رپورٹ پر اب ان اداروں نے کاروائی کر کے سب کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔
رپورٹ: اسد مرزا/فیکٹ انٹیلی جنس یونٹ
i appreciate your efforts on this beautiful story-one half about walsh is near to facts but other half of story is not balanced about other media houses and political parties-Axact company should face the inquiry of pakistani agencies and also should speak truth about their functions and tax evasions-when their employees are exposing them that they were working with the fake names of mike and george and 42000 students and 42 universities data has come in contol of fia than what to hide now-as federal minister pervez rasheed said-agar koyi jurm 20 saal baad bhi manzar e aam per aye ga tou saza miley gee-if axact was working for many years and their revenue and assests were not declared to fbr-state bank and other deptts-now if tax evasions and fake bank aaccounts are coming out so one has to face the music-inquiry should be impartial and transparent-if newyork times report and further allegations found wrong and base less than must sue to NY times and if otherwise than ….