امن اب بھی ایک خواب ،کراچی آپریشن پر سوالیہ نشان لگ گیا؟
صفورا گوٹھ میں شیعہ اسماعیلی برادری کے افراد پر ہولناک حملے نے جہاں ملک میں روزبروز بڑھتے ہوئے سانحات میں ایک اور سیاہ دن کا اضافہ کردیا ہے، وہیں رینجرز کی قیادت میں شہر بھر میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن پر بھی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ یہ حملہ کس نے کیا اور اس کے پیچھے کون تھا، حقیقت یہی ہے کہ مسلح افراد نے کسی کی گرفت میں آئے بغیر ایک بس پر سوار مسافروں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہلاک کیا اور باآسانی فرار ہوگئے۔
بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ ستمبر 2013ء سے جاری نام نہاد کراچی آپریشن نے ان حملہ آوروں کی سرگرمیوں میں کوئی رکاوٹ نہیں پیدا کی تھی۔ جبکہ یہ آپریشن شہر میں امن و امان کی بدتر صورتحال سے نجات کے لیے شروع کیا گیا تھا۔
خاص طور پر حالیہ مہینوں کے دوران کراچی آپریشن کے مجموعی طریقہ کار کا جائزہ لیا جائے تو یہ ظاہر ہوگا کہ عدالتی طریقہ کار کتناہی سوال طلب یا ناہموار کیوں نہ ہو، وہ سیاسی جماعتوں سے منسلک مجرموں کے لیے ہی ہے، جبکہ’ ’انکاؤنٹر‘‘ جس کی سچائی ہمیشہ سے متنازعہ رہی ہے، زیادہ تر کالعدم تنظیموں سے منسلک مشتبہ عسکریت پسندوں کے نصیب میں آتا ہے۔
اس طرح کی پالیسی ملک کے اقتصادی دارالحکومت میں مسلح تنظیموں تک پہنچنے کے لیے ایک معقول تجزیے کو مشکل بنادیتی ہے۔ چنانچہ کالعدم عسکریت پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کا پس منظر اور ان کے بارے میں اہم معلومات ’’مقابلوں‘‘ میں ہلاک ہونے کے بعد کبھی منظرعام پر نہیں آتیں۔
مشترکہ تفتیشی ٹیموں کی تشکیل، ان کے ساتھیوں سے پوچھ گچھ کے بعد ملزموں کی متعدد گرفتاریاں، اور ٹارگٹڈ چھاپہ مار کارروائیوں میں بہت سے مجرموں کی گرفتاریاں ایسے اقدامات ہیں جن کا شہر میں اکثر مشاہدہ کیا گیا ہے۔تاہم ایسا لگتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں کالعدم تنظیمیں اور ان کے مبینہ عسکریت پسندوں کے ساتھ صرف’ ’انکاؤنٹر‘ ‘کے ذریعے نمٹتی ہیں۔
پولیس ریکارڈ سے بھی اسی رجحان کی عکاسی ہوتی ہے۔ حال ہی میں کراچی پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنوری سے اپریل 2015ء کے چار مہینوں کے دوران 584 ’انکاؤنٹرز‘ میں دہشت گردوں، اغواکاروں اور ڈاکوؤں سمیت 234 مشتبہ افراد کو ہلاک کیا گیا۔’’انکاؤنٹرز‘‘ کی اس قدر بڑی تعداد کے باوجود شہر کا امن اب بھی ایک خواب ہے۔
فیکٹ رپورٹ