جنرل کیا نی اورانکے بھائیوں کی کرپشن پرتحقیقات شروع،جنرل راحیل سے چئیرمین نیب کی ملاقات ،آسٹریلیا کی حکومت بھی تشویش میں مبتلا، خط لکھ دیا، کیانی اورملک ریاض کاروباری پارٹنریا کچھ اور۔۔۔۔حیران کن انکشافات
سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیا نی اور ان کے بھائی کامران کیانی ان دنوں پریشانی کے عالم ہیں کیونکہ ان کے خلاف مختلف ذرائع سے ملنے والی چہ میگوئیاں اور افواہوں نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے ۔’’ فیکٹ ‘‘ نے جب یہ خبر ’’ بریک ‘‘ کی کہ ایف آئی اے کے حکام نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیا نی کو رات 3بجے بے نظیر انٹر نیشنل ائیر پورٹ اسلام آباد سے آسٹریلیا جانے والی پرواز میں سوار ہونے سے روک دیاہے تو ’’ فیکٹ ‘‘ کی یہ خبر سامنے آنے کے بعد عسکری اور سیاسی حلقوں نے یقین کے لئے انگلیاں منہ میں دبا لیں کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ تاہم نہ صرف ایسا ہوا بلکہ اب تو اطلاعات ہیں کہ بات بہت آگے تک جا چکی ہے۔غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق جنرل کیانی ، ملک ریاض کے ساتھ مل کر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر یا پھر کاروباری پارٹنر کی حیثیت سے کچھ مالی بے ضابطگیوں میں ملوث ہیں ۔ جبکہ مصدقہ ذرائع کے مطابق جنرل کیانی کے بھائی کامران کیانی اربوں روپے کی سنگین مالی کرپشن میں ملوث ہیں اور ان کانام ای سی ایل میں بھی ڈالا جا رہا ہے۔
’’ فیکٹ ‘‘ نے جب یہ خبر ’’ بریک ‘‘ کی کہ ایف آئی اے کے حکام نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیا نی کو رات 3بجے بے نظیر انٹر نیشنل ائیر پورٹ اسلام آباد سے آسٹریلیا جانے والی پرواز میں سوار ہونے سے روک دیاہے تو عسکری اور سیاسی حلقوں نے یقین کے لئے انگلیاں منہ میں دبا لیں کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟
’’ فیکٹ ‘‘ کے قارئین کو جنرل کیا نی اور ان کے بھائیوں کی کرپشن کے موجود منظر اور پس منظر سے پہلے فالواپ کے طور پر تازہ ترین اطلاع یہ دیتے چلیں کہ چےئرمین نیب قمر الزمان نے اس حوالے سے موجود آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے جی ایچ کیو میں ایک خفیہ ملاقات کی ہے۔ قمر الزمان آرمی چیف سے ملنے کے لئے اپنے پی ایس ظہیر شکیل کے ہمراہ جی ایچ کیو آئے اور انہوں نے اس ملاقات میں تفصیل سے جنرل کیا نی کے بھائی کامران کیانی کی بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے ساتھ مل کر کی گئی اربوں کی کرپشن پر بات چیت کی ۔ چےئرمین نیب نے کہا کہ کامران کیانی اور ملک ریاض کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں ۔ ان دونوں ’’ بڑوں ‘‘ کی ملاقات میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ مالی کرپشن کے ان کیسز کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا اور با اثر شخصیات کے خلاف کارروائی بھی جاری رکھی جائے گی۔جنرل راحیل شریف نے چےئرمین نیب کی اس بات پر رضا مندی ظاہر کی کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں کرپشن کے تمام کیسز بھی نیب کو بھجوائے جائیں اور ذمہ داروں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔
دو ’’ بڑوں ‘‘ کے درمیان ہونے والی اس اہم ملاقات یقینی طور پر کچھ فیصلے کر لئے گئے ہیں جن پر آنے والے چند دنوں میں عمل ہو گا لیکن یہاں بے شمار حلقوں کو حرانی جنرل کیانی کے کردار کے حوالے سے ہو رہی ہے کہ اپنے کام سے کام رکھنے والا ایک’’ سیدا سادھا‘‘جرنیل کیا واقعی کسی قسم کی کرپشن میں ملوث ہے ؟اس سوال کا حتمی جواب تو آنے والا وقت دے گا جب تحقیقات کے بعد مصدقہ شواہد سامنے آئیں گے تاہم ان پر اٹھنے والی انگلیوں اور انہیں انہی الزامات کے تحت اےئرپورٹ پر آسٹریلیا جانے سے روکے جانے کی اطلاع نے ہلچل ضرور مچا دی ہے۔
’’ فیکٹ ‘‘ کے قارئین کو بتاتے چلیں کہ جنرل کیانی ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے تین بھائی ہیں ۔ان میں بریگیڈےئر (ر) امجدکیانی، میجر (ر)بابرکیانی اور کامران پرویز کیانی شامل ہیں ۔ میجر (ر)بابرکیانی اور کامران پرویز کیانی کاروبار کرتے ہیں اور ان کے بارے میں یہ مستند اطلاعات ہیں کہ دونوں بھائیوں نے کاروبار میں اپنے بھائی جنر ل (ر) اشفاق پرویز کیا نی کے فوج کے سربراہ ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بے شمار فوائد حاصل کئے ۔ ان میں حکومتی اداروں سے بڑے بڑے ٹھیکوں کے ذریعے فوائد حاصل کرنا بھی شامل ہیں ۔
کامران کیانی ایک کنسٹرکشن کمنی کے مالک ہیں اور انہی کی کمپنی نے لاہور رنگ روڈ کی تعمیر کا ٹھیکہ لیا تھا اور دوران ان پر کئی طرح کی بے ضابطگیوں کے الزامات لگتے رہے ہیں۔اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ کہ ایک بار وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیا نی سے کامران کیانی کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی کمپنی رنگ روڈ کی تعمیر مین ناقص میٹریل استعمال کر رہی ہے تو جنرل کیا نی نے شہباز شریف کو یہ ٹکا سا جواب دیا تھا کہ ’’ آپ پھر کسی اور کام سے کام کروا لیں ۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ اس دور میں کامران کیانی کی کنسٹرکشن کمپنی نے خوب ترقی کی اور انہوں نے بھاری دولت اکٹھی کی ۔ اس دور میں کوئی اور ان کے خلاف یا ان کی کمپنی کے خلاف کھڑا نہیں ہو سکا ۔ جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد کامران کیانی تحقیقات اور پکڑے جانے کے خوف سے فیملی سمیت بیرون ملک شفٹ ہو گئے۔ذرائع بتاتے ہیں کہ کامران نے اس دوران بھاری سرمایہ دوبئی شفٹ کیا اور وہاں اپنی ’’ ایمپائر‘‘ کھڑی کی۔
یہ شائد اس ملاقات کا اثر ہے کہ تحقیقاتی اداروں نے جنرل کیا نی اور ملک ریاض (بحریہ ٹاؤن والے ) کے آسٹریلیامیں پراپرٹی کی خرید وفروخت کے حوالے سے بھی اعلی سطحی تحقیقات شروع کر دیں ۔
اس حوالے سے بعض غیر مصدقہ ذرائع کا دعوی ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیا نی اور ملک ریاض نے مبینہ طور پر اربوں روپے مالیت کی آسڑیلیا میں اراضی کی خریدو فروخت کی ہے ۔ آسٹریلین حکومت کو اسوقت تشویش ہوئی جب انہیں اشفاق پرویز کیا نی اور ملک ریاض کی جانب سے اپنے ملک لاکھوں ڈالرز لائے جانے کے ثبوت نہ ملے جس پر نہ صرف آسٹریلین حکومت نے تحقیقات شروع کی بلکہ حکومت پاکستان کو بھی مراسلے کے ذریعے آگاہ کیا کہ وہ بھی اس بارے تحقیقات کریں اور انہیں آگاہ کریں کہ ٓاسٹریلیا میں لاکھوں ڈالرز کیسے منتقل کئے جاتے رہے ہیں ۔آسٹریلین حکومت کی جانب سے مراسلہ موصول ہونے کے بعد وزارت داخلہ نے اس کی اعلی سطحی تحقیقات کا حکم دیدیا جبکہ ایف آئی اے حکام کو دونوں بڑی شخصیات کو بیرون ملک سفر کرنے سے روکنے کے زبانی احکامات جاری کئے گئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیا نی کے پاس اتنی خطیر رقم کی موجودگی بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے اور پھر ان کا پراپرٹی کے ایک بڑے بزنس مین کے ساتھ کاروبار کرنا بھی بعض خدشات کو سامنے لاتا ہے ۔اب ایک تیسرے ملک کی جانب سے جائیداد کی خرید فروخت کے بارے سوالات اٹھائے گئے ہیں ۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آسٹریلیا زرعی اعتبار سے بڑا ملک ہے جہاں ڈیری کی مصنوعات اور لائیو سٹاک میں سرمایہ کاری کے وسیع امکانات ہیں ۔ پاکستان کی دو اہم شخصیات کی جانب سے اسٹریلیا میں جائیداد کا لین دین بڑا معنی خیز ہے۔
کچھ عسکری ذرائع نے اس سٹوری کی اشاعت کے بعد رابطہ کر کے ’’ فیکٹ ‘‘ کو بتایا کہ جنرل کیانی شریف آدمی ہیں ۔ وہ مالی کرپشن میں ملوث نہیں ہو سکتے ۔البتہ ان کے بھائی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ ممکن ہے کہ کامران کیانی نے جو ’’کارنامے ‘‘ انجام دےئے ہوں ان کی سزا جنرل کیانی کو بھگتنا پڑ رہی ہو ۔ کہنے والے تو یہ کہہ رہے ہیں کہ لیکن وہ ان حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو خود جنرل کیانی پر پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے لگ رہے ہیں ۔
جنرل راحیل شریف اور قمر الزمان کی ملاقات اور نیب کو فوج کی کلیرنس ملنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اس حوالے سے کچھ بڑے فیصلے کر لئے گئے ہیں اور مقتدر اداروں نے کرپشن کے اس ناسور کو پروان چڑھانے والے ’’ ناسوروں ‘‘ کو کفر کردار تک پہنچانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ اس ’’کہانی ‘‘کا انجام کیا ہو گاَ اس بارے میں آئندہ چند دنوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی۔ تاہم جنرل راحیل شریف اور قمر الزمان کی ملاقات میں کئے گئے فیصلوں پر صحیح طریقے سے عمل ہوا تو جہاں اسے عوامی تائید حاصل ہو گی وہاں کرپشن سے پاک پاکستان کی بنیاد بھی پڑے گی جو پاکستان کے مستقبل کے لئے ایک خوش آئند بات ہو گی۔
رپورٹ: مقبول ارشد/اسد مرزا
ھیران کن سٹوری ہے ۔یقین نہیں آرہا ہے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔
اکم علیم نیو ےارک
dear editor
buhat achi story hay…lakin baki gernail bhe to cpruption ma malawas haian unahian bhe investigate kur ka publis karaian….
akmal karachi