Published On: Mon, Apr 27th, 2015

نیب ایک متنازعہ بے لگام گھوڑا،آخرخیبرپختونخوا سے سیاسی انتقام کیوں لیا جا رہا ہے؟

Share This
Tags
پاکستان میں متعدد ادارے ایسے ہیں جن کو ان کے اختیارات، طاقت اور خوف کے باعث بے لگام اور ناقابل مواخذہ سمجھا جاتا ہے اور ایسے ادارے وقت گزرنے کے ساتھ مافیاز کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ قومی احتساب بیورو بھی ایسے ہی اداروں کی صف میں شامل ہونے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل کر چکی ہے اور اس نے اپنے اقدامات اور پالیسیوں کے باعث اپنی ساکھ اور شہرت کھو ڈالی ہے۔ یہ ادارہ 16 نومبر 1999ء کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے قائم کیا گیا تو متعلقہ حلقوں، ماہرین نے اس کے قیام، طریقہ کار اور مقاصد پر قانونی، آئین کی روشنی میں متعدد سوالات اٹھائے تاہم اس وقت کے حکمرانوں نے کسی کی نہیں سنی اور احتساب کے نام پر ایک ایسے بے لگام ادارے کی تشکیل کر ڈالی جس نے بعد میں متعدد بار نہ صرف یہ کہ مروّجہ قوانین کی دھجیاں اْڑا دیں بلکہ ریاست کی اجتماعی پالیسیوں پر کئی سوالات بھی کھڑے کیے۔ اگر نیب کی پندرہ سالہ کارکردگی کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو ثابت یہ ہوتا ہے کہ اس کی ساکھ اس کی پالیسیوں کے باعث کبھی بھی قابل اعتماد نہیں سمجھی گئی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ نیب نے کرپشن کے خاتمے کی بجائے بلاواسطہ اس کے فروغ کی پالیسیاں اپنائیں۔ جتنی رقم اس پر خرچ ہوتی گئی اتنی رقم کی اس نے ریکوریاں نہیں کیں یوں یہ ادارہ عملاً ایک سفید ہاتھی کی شکل اختیار کرتا گیا مگر عملاً اس پر چیک رکھنے کا کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے۔
یہ کونسی پالیسی یا حکمت عملی ہے کہ نیب کی اربوں کے غبن یا کرپشن کے الزام میں گرفتار کر لیتی، تاہم چند کروڑ لے کر اْسے چھوڑ دیتی ہے۔ یوں قومی خزانے کے اربوں روپے نیب کی پالیسی National-Accountability-Bureauاور ڈیلنگ کے باعث ڈوب جاتے ہیں اور پھر دوسرے متعلقہ ادارے اس عہدیدار یا ملزم پر ہاتھ بھی نہیں ڈال سکتے۔ اس روّیے کے باعث بڑے مگر مچھ بڑے آرام سے اربوں کا کرپشن کر کے چند کروڑ ادا کر کے چھوٹ جاتے ہیں اور یوں ملک میں وائٹ کالر کرائم کو فروغ مل رہا ہے۔ دوسری طرف ایسے لوگوں کی تعداد درجنوں، سینکڑوں میں ہے جن کو یا تو ادارہ جاتی، سیاسی انتقام کے باعث سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا یا دوسرے عوامل کے باعث ان کی ساکھ اور زندگی برباد کر دی گئی۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ نیب نے ایسے ملزمان پر تواتر کے ساتھ ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا ہے جن کو ڈیل کرنا بلحاظ حجم اسے نیب کے مقرر کردہ مینڈیٹ میں بھی نہیں آتا اور ایسے عام ملزمان کے لیے اینٹی کرپشن یا دیگر عام ادارے قائم ہیں۔ نیب کے مینڈیٹ میں بڑے ملزمان یا مجرمان کی انکوائری اور کارروائی شامل ہیں تاہم کچھ عرصہ سے اسے لوگوں کو بھی یہ ادارہ ڈیل کرتا آ رہا ہے جن پر چند لاکھوں کے غبن یا کرپشن کے الزامات ہیں۔ اس کے مقابلے میں ان ملزمان کی تعداد شاید 10 فیصد سے بھی کم ہو گی جنہوں نے اربوں کے غبن کیے۔ نیب عملاً اپنے مینڈیٹ سے انحراف کی راہ پر گامزن ہے۔ اسی طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے قائم قومی اسمبلی کی پارلیمنٹری کمیٹی نے تین سے زائد بار نیب کے طریقہ کار، مینڈیٹ اور کارکردگی پر کھل کر خدشات کا اظہار کیا اور اس ادارے کی باقاعدہ سفارشات کے ذریعے قبلہ درست کرنے کا مطالبہ بھی کئی بار سامنے آتا رہا۔ اس کے باوجود نہ تو نیب کا قبلہ درست کیا گیا اور نہ ہی اس کے قوانین یا طریقہ کار میں تبدیلی لانے کی کوئی کوشش کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نیب سفید پوش، تعلیم یافتہ اور باعزت لوگوں کے لیے خوف کی علامت بنتی گئی اور اس کی کریڈیبلٹی بھی دن بدن خراب ہوتی گئی۔ بعض حلقوں کے مطابق نیب بھی اے این ایف کی طرح ریاست کے لیے بدنامی کی وجہ بنتی جا رہی ہے اور اس سے ملک کے ایک طاقتور ادارے کی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے۔
انتظامی امور پر نیب کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں ہے جبکہ چاروں صوبوں میں اس کے ریجنل ہیڈ کوارٹرز کام کر رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نیب کے پشاور آفس نے دیگر دفاتر کے مقابلے میں جتنی تعداد میں گرفتاریاں کیں وہ باقی تین صوبوں کی مجموعی تعداد سے اگر زیادہ نہیں توکم بھی نہیں۔ اعداد و شمار سے ایسا ثابت یہ ہوتا ہے جیسے نیب کی نظر میں کرپشن صرف صوبہ پختونخوا ہی تک محدود ہے اور باقی صوبے اس لعنت سے صاف یا محفوظ ہیں۔ شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ صوبے سے تعلق رکھنے والے متعدد اہم قومی لیڈروں اور سیاستدانوں نے متعدد بار اس طرز عمل کو کھلی تنقید کا نشانہ بنایا اور اس پر احتجاج بھی کیا۔ متعدد طاقتور ادارے ایسے ہیں جن کا کرپشن زبان حاص و عام ہے مگر ان کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔
مثال کے طور پر گزشتہ ماہ یعنی مارچ کے دوران ملک بھر سے نیب کی مجموعی گرفتاریوں میں سے تقریباً 85 فیصد گرفتاریاں صوبہ پختونخواہ سے عمل میں لائی گئیں۔ نصف آبادی والے صوبہ پنجاب ماہ مارچ کے دوران حیرت انگیز طور پر ایک بھی گرفتاری نہیں ہوئی۔ اگر آبادی کے تناسب کو سامنے رکھ کر ان کارروائیوں کا جائزہ لیا جائے تو ثابت یہ ہوتا ہے کہ صوبہ پختونخوا کی گرفتاریوں کی شرح 85 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ مارچ 2015ء کے دوران پنجاب اور بلوچستان سے ایک بھی گرفتاری نہیں ہوئی۔ سندھ کی گرفتاریوں کی تعداد صرف دو (2) رہی تاہم اس ماہ کے دوران صوبہ پختونخوا سے بارہ گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ (نیب کے اعداد و شمار کے مطابق)
گرفتاریوں کی یہ شرح صرف مارچ 2015ء کی ان اعداد و شمار تک محدود نہیں بلکہ یہ سلسلہ اسی شرح کے ساتھ گزشتہ 15 برسوں سے چلا آ رہا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق بعض مہینے ایسے بھی گزرے جن کے دوران کسی بھی صوبے سے ایک بھی ملزم گرفتار نہیں کیا گیا جبکہ صوبہ پختونخوا سے درجنوں افراد حراست میں لیے گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دیگر تین صوبے کرپشن یا اختیارات کے بے جا استعمال سے صاف ہیں یا وہ موجودہ نظام کا حصہ نہیں ہیں۔ آیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ کرپٹ اور نااہل بیورو کریٹس یا لوگ صرف صوبہ پخونخوا ہی میں موجود ہے۔ یقیناً اس دلیل یا جواز میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہاں کچھ اور گیم جاری ہے۔
اقوام متحدہ کی دو رپورٹس کے علاوہ تین متعلقہ پاکستانی ادارے گزشتہ چند برسوں کے دوران رپورٹ کر چکے ہیں کہ صوبہ پختونخوا ادارہ جاتی سطح پر دوسرے صوبوں سے بہتر ہے۔ صرف پولیس کو سال 2012ء میں کرپٹ قرار دیا گیا تھا تاہم نیب کی کارروائیاں کسی اور سمت میں اشارہ کر رہی ہیں۔ صوبے کے بیورو کریٹس کو جس تعداد سے گرفتار کر کے بدنام کیا جا رہا ہے اس نے پورے نظام کو خوفزدہ کر کے رکھ دیا ہے۔ متعدد ایسے لوگ بھی پابند سلاسل ہیں جنہوں نے صوبے اور ملک کے لیے شاندار خدمات سرانجام دی ہیں اور ریاست نے متعدد بار ان کی خدمات کے صلے میں انہیں قومی اعزازات اور توصیفی اسناد سے بھی نوازا ہے۔ اس میں دوسری رائے ہے ہی نہیں کہ کرپشن پورے ملک کا اجتماعی مسئلہ اور ناسور ہے اور اس کے خاتمے کے لیے اقدامات ہونے چاہئیں تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ دوسرے صوبوں میں نیب ایسا کیوں نہیں کر پا رہی اور اس کی کارروائیاں ایک جنگ زدہ صوبے تک محدود کیوں ہیں؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ صوبے کے بیورو کریٹس کو غیر حقیقی واقعات، الزامات پر انتقام کا نشانہ بنایا بنایا جا رہا ہے۔
نیب کا یہ طریقہ انسداد دہشت گردی اور ریاست سے غداری جیسے سنگین معاملات، کیسز میں بھی نہیں اپنایا جاتا کہ ملزم کو گرفتار کیا جائے تو وہ خود یہ ثابت کرے گا کہ اس نے وہ جرم نہیں کیا جس میں اس کی گرفتاری ہوئی ہے۔ بے شمار ملزمان ایسے گرفتار کیے گئے ہیں جن کو بدترین نفسیاتی دباؤ اور جسمانی تشدد کے باوجود کئی دنوں بلکہ ہفتوں تک یہ بتانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی کہ ان کا جرم کیا ہے یا ان کی گرفتاری کیوں عمل میں لائی گئی ہے۔

ملک بھر سے نیب کی مجموعی گرفتاریوں میں سے تقریباً 85 فیصد گرفتاریاں صوبہ پختونخواہ سے عمل میں لائی گئیں، پنجاب اور بلوچستان سے حیر ت انگیز طور پر ایک بھی گرفتاری نہیں ہوئی، مارچ 2015ء کے دوران پنجاب اور بلوچستان سے ایک بھی گرفتاری نہیں ہوئی۔ سندھ کی گرفتاریوں کی تعداد صرف دو رہی۔گرفتاریوں کی یہ شرح صرف مارچ 2015ء تک محدود نہیں بلکہ یہ سلسلہ اسی شرح کے ساتھ گزشتہ 15 برسوں سے چلا آ رہا ہے۔۔۔

نیب نے مختلف اداروں میں اپنے دلال پھیلا رکھے ہیں جو کہ کمیشن کے لیے ایسے افراد ڈھونڈ نکالتے ہیں جن پر کوئی الزام ہو اس کے بعد ان کے بارے میں انتہائی سطحی معلومات نیب کو فراہم کی جاتی ہے اور نیب ٹھوس شواہد یا ثبوت ملے بغیر حرکت میں آ جاتی ہے۔ قانون کے مطابق کسی ملزم کے ساتھ اس وقت تک مجرموں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا جب تک عدالت میں اس پر الزام ثابت نہیں ہو جاتا تاہم اینٹی نارکاٹکس فورس، پولیس کی طرح نیب بھی شواہد اور ثبوتوں کے بغیر گرفتاریوں کے فوراً بعد ایسے طریقے اپنا لیتی ہے کہ ملزمان عدالتوں میں جانے سے قبل بدترین نفسیاتی پیچیدگیوں اور دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کے رشتہ دار بارگیننگ پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بعض حلقے نیب کو ریاستی بھتہ خور اور ریاستی اغوا برائے تاوان جیسے القاب سے پکارتے ہیں جس کا مطلب عوامی سطح پر یہ لیا جا رہا ہے کہ نیب قانون اور احتساب کی آڑ میں ایسے راستے پر گامزن ہے جس کی قانون، آئین کے علاوہ انسانی حقوق کے پس منظر میں بھی گنجائش نہیں ہوتی۔
باخبر اور عوامی حلقے نیب کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں اس کا اندازہ ممتاز صحافی ناصر داوڑ کے اس سوال سے لگایا جا سکتا ہے جو کہ انہوں نے چند روز قبل سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا۔ سوال کچھ یوں تھا۔
’’خیبر پختونخوا میں نیب کی گرفتاریوں اور ڈاکوؤں کی جانب سے عام لوگوں کی اغوا برائے تاوان میں فرق کیا ہے۔‘‘
بعض باخبر حلقے الزام لگاتے ہیں کہ نیب اپنے دلالوں کے علاوہ عدلیہ کے بعض عہدیداران کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے اور یہ عہدیدار وہی کرتے ہیں جو کہ نیب ان کو بتاتی آتی ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے ایک سابق معزز جج کے بارے میں صحافتی اور عوامی حلقوں میں مشہور ہے کہ وہ کھلے عام بعض افسران کو دھمکیاں دیا کرتے تھے کہ اگر انہوں نے ان کی فلاں بات نہیں مانی تو وہ انہیں کرپشن کے الزام میں نیب کے نوٹس میں لے آئیں گے اور موصوف نے بعض کے ساتھ بعد میں عملاً ایسے کیا بھی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ موصوف اور نیب کے درمیان لمبے عرصے تک رومانس چلتی رہی جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے اپنے ایک صاحبزادے کو نیب میں بھرتی کروایا اور وہ آج کل نیب پشاور کے ایک اہم عہدے پر براجمان ہے۔ (اس کی بھرتیوں کا نظام بھی بہت عجیب قسم کا ہے)
ادارہ جاتی سطح پر بھی بعض افسران اور اہلکار دوسرے ساتھیوں سے انتقام لینے کی خاطر نیب کا سہارا لیتے آئے ہیں۔ یوں یہ ادارہ سیاسی انتقام کے علاوہ ادارہ جاتی انتقام اور بلیک میلنگ کا مرتکب بھی ہو رہا ہے۔ 50 فیصد سے زائد کیسز ایسے ہیں جن کے دوران گرفتاریاں پہلے کی گئیں ہیں اور ریفرنسز کئی ہفتے بعد دائر کیے ہیں۔ پشاور کے ایک وکیل محض اس وجہ سے قانونی چارہ جوئی کیے بغیر پابند سلاسل ہے کہ نیب نے گرفتاری کے باوجود تاحال ان کو یہ بھی نہیں بتایا کہ اس کی گرفتاری کیوں عمل میں لائی گئی ہے۔ متعدد کو گرفتاریوں سے قبل مختلف طریقوں سے تنگ، ہراساں بھی کیا جاتا رہا ہے۔
ایک نامور سیاسی خاندان کے ایک فرد کے ساتھ مبینہ طور پر شریک ’’جرم‘‘ اصل ملزمان آن دی ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ موصوف قطعی طور پر بے گناہ ہیں اور ذمہ داری ہم لیتے ہیں اس کے باوجود پلی بارگیننگ کے ذریعے اس سے کروڑوں روپے لیے گئے مگر ایک ماہ گزرنے کے باوجود ان کی رہائی عمل میں نہیں لائی جا رہی۔ ایسی متعدد دوسری مثالیں بھی موجود ہیں۔ مشہور زمانہ مضاربہ سکینڈل کے اندر متعدد ایسے انڈر ٹرائل ہیں جن کو مرکزی ملزمان یا نیٹ ورک نے دھوکہ دے کر خود لوٹا۔ ان کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے اپنی رقم کے علاوہ رشتہ داروں کی رقم بھی منافع کے لیے رکھوائی تاہم 2 ارب سے زائد کی رقم بٹونے والے مرکزی ملزم جمشید خان پر آنکھیں بند کی گئیں اور 8 اپریل کو ہائی کورٹ نے اس کے وکیل کے اس بیان پر عبوری ضمانت منظور کر لی کہ نیب کے پاس اس کے موکل کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔
دوسری طرف متعدد بڑے کیسز کے مرکزی ملزمان پر اس لیے ہاتھ نہیں ڈالا جا رہا کہ وہ ’’وعدہ معاف گواہ‘‘ کی حیثیت سے متعلقہ کیسز میں شامل چھوٹی مچھلیوں یا کارندوں کو گرفتار کروا کر نیب کے ساتھ ’’تعاون‘‘ کر رہے ہیں۔ مشہور زمانہ اسلحہ سکینڈل کا ایک مرکزی کردار بھی اسی ’’تعاون‘‘ کے بدلے سرعام گھوم رہا ہے۔ بعض کارروائیاں محض اخباری بیانات یا الزامات کی بنیاد پر عمل میں لائی گئی ہیں۔ اگر نیب کا یہی روّیہ رہا تو یہ یقینی بات ہے کہ ریاست پر لوگوں کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔
عقیل یوسفزئی

Leave a comment