Published On: Fri, Mar 6th, 2015

بول ٹی وی اور جیو نیوز کی جنگ پاکستان سے امریکہ پہنچ گئی

Share This
Tags
دلچسپ اور سنسنی خیز انکشافات
پاکستان میں جلد نئے منظر عام پر آنے والے میڈیا گروپ بول ٹی وی اور جیو ٹی وی کی ’’ جنگ‘‘ اب پاکستان سے امریکہ پہنچ گئی ہے۔
امریکی محکمہ ٹریڈ مارک نے بول ٹیلی ویژن کی جانب سے امریکہ میں ٹریڈ مارک کے لیے دی گئی درخواست کو منظوری کے بعد معطل کردیا ہے اور فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے کہا ہے کہ درخواست پر مزید کارروائی اگلے چھ ماہ میں کی جائے گی جبکہ امریکی محکمہ ٹریڈ مارک نے جیو نیوز کی کارپوریشن انڈی پنڈنٹ میڈیا کارپوریشن کو 2010ء میں بول کے نام سے دیئے جانے والے ٹریڈ مارک کو بھی معطل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ دونوں چینلز کی کارپوریشنز کو ’’بول‘‘ کے ٹریڈ مارک کی معطلی کی اطلاع ایک ساتھ 6 جنوری 2015ء کو دی گئی۔
تنازعہ کیا ہے؟
بول انٹر پرائزز نے 2014ء میں امریکہ میں بول ٹیلی ویڑن کے ٹریڈ مارک کے لیے محکمہ ٹریڈ مارک کو ایک درخواست دی جسے منظور کرلیا گیا۔ تاہم جب یہ اطلاع جیو نیوز کی انڈیپنڈنٹ میڈیا کارپوریشن کو ملی تو اس نے اعتراض داخل کردیا کہ بول کے نام سے ٹریڈ مارک پہلے سے ہی ان کے پاس موجود ہے جس کی درخواست 2 جنوری 2009ء میں داخل کی گئی تھی جو 10 مئی 2011ء کو منظور کرلی گئی۔ تاہم محکمے نے انڈی پنڈنٹ میڈیا کارپوریشن کو ’’Bowl‘‘ کے نام سے ٹریڈ مارک جاری کیا تھا جو جیو نیوز نے جیو فلم کی ایک فلم بول کو بنیاد بناکر حاصل کیا تھا۔ محکمہ ٹریڈ مارک کے کاغذات کے مطابق بول انٹرپرائز نے بول کے لیے ٹریڈ مارک اس کے حقیقی تلفظ اور لہجے اور “Bol” کے ساتھ محکمے کو درخواست کی جسے محکمے نے مختلف تلفظ اور سپیلنگ کی بنیاد پر قبول کرلیا۔ تاہم جیو کی کارپوریشن نے اس پر اعتراض اٹھایا تو محکمے نے حقائق جاننے کے لیے دونوں کارپوریشنز کو 6 جنوری 2015ء کو معطلی کے خط ارسال کرکے معاملے کو التواء میں ڈال دیا ہے۔
ذمہ دار ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اب دونوں ٹیلی ویژن ادارے بول کے ٹریڈ مارک کے حصول کے لیے عدالت سے رجوع کرچکے ہیں اور اپنے اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ بول انٹرپرائز نے اپنے ٹیلی ویژن کے متوقع پروگراموں کے ٹریڈ مارک بھی امریکہ میں منظور کروائے ہیں۔ جن پروگراموں میں ابھی نہیں تو کبھی نہیں، پاکستان نیوز روم، دی ٹاک شو، بات کیجئے ‘ ہیڈ لائنز اور میری جنگ کے نام شامل ہیں۔
بول انٹر پرائز نے ٹریڈ مارک کی درخواست میں ٹیلی ویڑن کے مقاصد کے خانے میں تعلیم‘ انٹرٹینمنٹ‘ کامیڈی‘ میوزک اور خواتین ایشوز کے فروغ کو بنیاد بنایا ہے۔ بول انٹرپرائزز لمیٹڈ کی جانب سے ٹریڈ مارک کی درخواست نبیل احمد کے نام سے فائل کی گئی جبکہ اس درخواست کی جیول کارنی ایل ایل سی فرم نے نمائندگی کی ہے۔ جیو نیوز کی کارپوریشن انڈی پنڈنٹ میڈیا کی جانب سے ہیرالڈ نووک پیش ہوئے۔
نتیجہ کیا نکلے گا؟
بول کے ذمہ دار ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ بول انٹرپرائزز لمیٹڈ امریکہ میں بول کے نام سے ٹریڈ مارک کے حصول کی کوشش میں کامیاب رہے گا کیونکہ اس کے پاس بول کا ٹریڈ مارک پاکستان کراچی سے 2007ء سے موجود ہے۔ جبکہ بول ٹیلی ویڑن کی کارپوریشن نے امریکی محکمہ ٹریڈ مارک کو پاکستانی ٹریڈ مارک کے کاغذات بھی جمع کروائے ہیں جو محکمے کے عوامی معلومات کے ریکارڈ میں بھی دیکھےBolGeo جاسکتے ہیں۔ یہاں امریکہ میں ٹریڈمارک کے معاملات سمجھنے والے قانونی ماہرین کا خیال ہے بول ٹیلی ویڑن کو اس کے نام کے تلفظ اور سپیلنگ کی بنیاد پر ٹریڈ مارک دوبارہ جاری ہوسکتا ہے جبکہ جیو نیوز کی جانب سے سپیلنگ اور تلفظ کی غلطی کے ساتھ نیت میں فتور کی بنیاد پر بول کے ٹریڈ مارک سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ تاہم قانونی طور پر پہلے سے موجود نام کو چیلنج کرنا کافی مشکل کام ہے اور یہ معاملہ اب محکمے کی بجائے عدالت ہی حل کرسکتی ہے۔ قانونی حلقے کہتے ہیں کہ جیو نیوز کی جانب سے بول کے ٹریڈ مارک کے لیے دائر کردہ درخواست میں تلفظ اور سپیلنگ کی غلطی موجود ہے مگر عام زبان میں وہ بھی لفظ بول کے مفہوم کو ہی ادا کرتا ہے۔ اس لیے یہ قانونی جنگ طویل اور پیچیدہ ہوتی نظر آتی ہے۔
بول کب لانچ ہو گا؟
صحافتی حلقے بول ٹیلی ویژن کی سکرین روشن ہونے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں اوران کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین سالوں سے سکرین روشن کرنے کا دعویدار بول ٹیلی ویژن ابھی دور دور تک حقیقی منزل سے دور ہی نظر آتا ہے۔ بول ٹیلی ویڑن کے ذمہ دار ذرائع ٹیلی ویژن کے روشن ہونے کے پس منظر میں متضاد دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔ بول کے کچھ ذمہ دار ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ بول اپنے عملی کام کا آغاز 23 مارچ سے شروع کرے گا تو کچھ ذمہ دار یہ تاریخ 14 اگست سے دسمبر تک ظاہر کرتے ہیں جبکہ بول ٹیلی ویڑن نے نشریات کے آغاز کے لیے متعلقہ شعبے کے افراد کی بھرتی کا کام زور شور سے جاری رکھا ہوا ہے اور اپنے پہلے دن سے لے کر آج تک یہ کوشش جاری ہے کہ وہ متعلقہ شعبے کے نامور افراد کو زیادہ سے زیادہ کشش دکھا کر دوسرے اداروں بالخصوص جیو ٹیلی ویژن سے ایسے افراد کو توڑ کر اپنے ادارے میں شامل کرلے جو اس شعبے کے ماہر اور نامور افراد ہیں۔
بول جس کی بنیادی ٹیم میں سرمایہ داروں کو چھوڑ کر حقیقی کام کرنے والے افراد کا تعلق جیو نیوز سے ہی ہے اور جس کے ایک سابق اینکر اور صحافی کامران خان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہی بول کا آئیڈیا پیش کیا تھا۔ وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملک کے ان تمام نامور سرمایہ داروں کو اس آئیڈیے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے متحد کرنے والے شخص تھے ۔
ادھر بول ٹیلی ویژن کے ذمہ دار ذریعے نے انکشاف کیا ہے کہ بول ٹیلی ویڑن نے متعلقہ شعبے کے بیشتر نامور اور تجربہ کار افراد کو اپنی ٹیم میں شامل کرلیا ہے جن میں صحافی اور تکنیکی عملہ شامل ہے۔ اب جو لوگ بول کو جوائن کرنا چاہتے ہیں وہ اپنی مرضی سے آتے ہیں۔ معیشت کا پہلا اصول ہے ڈیمانڈ اینڈ سپلائی‘ اب ڈیمانڈ کا خانہ بھرچکا ہے‘ اگر سپلائی جاری ہے تو وہ اب اپنی شرائط پر ہی خریدی جائے گی جبکہ جیو نیوز کے ایک ذمہ دار ذریعے نے انکشاف کیا ہے جیو نیوز جو اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کے باعث معاشی طور پر کمزور ہوا ہے اور جو اپنے کارکنوں کو معمول کے مطابق تنخواہ دینے میں بھی ناکام ہے اور جس نے دسمبر سے جنوری کی تنخواہیں بھی ابھی تک ادا نہیں کیں‘ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دسمبر کی تنخواہیں کارکنوں کو اب ملنا شروع ہو رہی ہیں‘ اس کے مالکان کی کوشش ہے کہ ان کے ادارے سے جتنے لوگ بول جاسکتے ہیں چلے جائیں کہ وہ نہ تو ان کے مطالبات تسلیم کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ان کی بھاری تنخواہوں کا بوجھ اب اٹھانے کو تیار ہیں۔
جیو نیوز کے ذمہ دار ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جیو کے مالکان سمجھتے ہیں مارکیٹ میں ٹیلی ویڑن سے متعلقہ تمام شعبوں بشمول صحافت اتنی بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں کہ وہ تمام شعبوں میں کام کرنے والے اہل افراد کو اپنی شرائط پر باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ ذمہ دار ذرائع کہتے ہیں جب سے بول ٹیلی ویژن نے تین لاکھ کا خواب دکھا کر اصل تنخواہ 75 ہزار تک دینے کا معاملہ صاف کیا ہے جیو اور دیگر چینلز اس خوف سے باہر نکل آئے ہیں کہ بول ان کے اداروں پر تالے لگوانے کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ ذمہ دار ذرائع دعویٰ کرتے ہیں جیو اور دیگر تمام چینلز میں اکثر کارکنوں کو کئی کئی سال سے انکریمنٹ نہیں دیئے گئے۔ موجودہ صورتحال میں ان اداروں کی کوشش ہے کہ وہ کارکن جو اپنی سابقہ انکریمنٹ کا مطالبہ کرتے ہیں‘ ادارہ چھوڑ کر چلے جائیں کہ یہی ادارے کے حق میں بہتر ہوگا۔
ادھر دوسرے ذمہ دار ذریعے نے دعویٰ کیا ہے کہ بول ٹیلی ویژن کے پاس ابھی تک پاکستان میں بول کے نام سے ٹیلی ویڑن کا لائسنس ہی نہیں ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ روشنی نام کے ایک ٹیلی ویڑن کا لائسنس خرید کر اسے بول کا نام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس میں موجود قانونی پیچیدگیوں کے باعث بول کی سکرین روشن ہونے میں اب بھی بے شمار مشکلات کا سامنا ہے۔
فیکٹ رپورٹ
Displaying 1 Comments
Have Your Say
  1. Fact says:

    حیران کن رپورٹ ہے۔
    مظھر

Leave a comment