اگر کبھی کوئی غیر ملکی یہودی اپنی ملازمت وغیرہ کے سلسلے میں پاکستان آ جائے تو وہ اور بات ہے ورنہ پاکستان کے مقامی یہودی تو مدت ہوئی زیادہ تر وطن چھوڑ کر بھارت یا دوسرے ملکوں کو جا چکے ہیں۔
پاکستان میں اب اگر یہودی طرز معاشرت کی کوئی باقیات ہیں بھی تو ان کی کسی حد تک دیکھ بھال غیر یہودی کر رہے ہیں۔ کراچی میں کسی زمانے میں لگ بھگ چار سو سے زیادہ یہودی آباد تھے۔ وہاں ماضی میں دو یہودی عبادت گاہیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ اب ڈھونڈنے سے ان میں سے ایک بھی نہیں ملتی۔ ایسا ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی آخری معروف یہودی شخصیت بھی قریب دس سال قبل اس شہر سے رخصت ہو گئی تھی۔ اب اگر سندھ کے صوبائی دارالحکومت اور بندرگاہی شہر کراچی میں کوئی یہودی رہتا بھی ہے، تو قطعی گمنام اور شہر کے کسی نامعلوم کونے میں۔
کراچی میں جب یہودی رہتے بھی تھے، تو بھی وہ کھلے عام اس بات کا برملا اظہار نہیں کرتے تھے کہ ان کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے۔ وہ عموما? خود کو مسیحی یا پارسی ظاہر کر کے اپنی مذہبی شناخت چھپائے رکھنے کو ترجیح دیتے تھے۔ چند حلقوں کے مطابق 1967ء کی عرب اسرائیلی جنگ کے بعد سے پاکستان میں ایسے گنے چنے شہریوں کا یہودی ہونا ممکنہ طور پر ان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔
میوہ شاہ قبرستان
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کراچی میں کسی بھی حوالے سے یہودی طرز معاشرت کی آخری نشانی میوہ شاہ کا وہ قبرستان ہے جہاں قریب 500 قبریں موجود ہیں اور جس کی دیکھ بھال اور حفاظت ایک مسلمان خاندان کرتا ہے۔ اگر یہ بلوچ خاندان ایسا نہ کرتا تو جرائم پیشہ افراد نے شاید وہاں موجود قبروں سے سنگ مرمر تک اکھاڑ کر بیچ دیا ہوتا۔
پاکستانی حکومت کو ایک ایسے نوجوان نے، جس کے بقول اس کی والدہ ایک ایرانی نڑاد یہودی خاتون تھی اور باپ ایک پاکستانی مسلمان، کچھ عرصہ قبل اس بارے میں شکایت کی تھی کہ کراچی میں لینڈ مافیا کہلانے والے جرائم پیشہ گروہ اس قبرستان کی زمین پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔ اس نوجوان نے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت اس قبرستان کو بچائے ورنہ لینڈ مافیا اگر اپنے ارادوں میں کامیاب ہو گئی تو کراچی میں بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد کی آخری آرام گاہوں تک کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا۔
عارف بلوچ ایک ایسے پاکستانی شہری ہیں جن کا خاندان گزشتہ تین نسلوں سے اس قبرستان کی حفاظت کر رہا ہے۔ عارف بلوچ اس امر کے شاہد ہیں کہ اپنے خدشات کا اظہار کرنے والا نوجوان اس قبرستان میں آیا تھا اور وہاں بھی اس نے انہی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ بعد ازاں یہ نوجوان عارف بلوچ کے خاندان کے کوائف لے کر واپس چلا گیا تھا۔
کراچی کے اس قبرستان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے عارف بلوچ نے کہا کہ اس قبرستان کو دیکھنے کئی لوگ آتے ہیں، تاکہ تصویریں کھینچیں اور کہانیاں لکھیں، لیکن کوئی اس بارے میں مدد نہیں کرتا کہ قبرستان کی گرتی ہوئی دیواروں کو سنبھالا کیسے دیا جائے۔
ماضی میں جب کراچی کے اس یہودی قبرستان کی کہانی برطانوی ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا تک پہنچی تو ذرائع کے مطابق تب ایک امریکی سینیٹر نے پاکستان میں اس وقت کے امریکی سفیر کو اس بارے میں ایک خط بھی لکھا تھا کہ اس قبرستان کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ مگر عارف بلوچ کی والدہ مہر کے مطابق، ’’اس امریکی
کراچی کی آخری باقاعدہ یہودی عبادت گاہ کی واحد نشانی، ایک بورڈ
سینیٹر نے بھی قبرستان کی حفاظت کے لیے مالی وسائل کا کوئی اہتمام نہ کیا۔ صرف خط لکھنے سے تو اس قبرستان کی حفاظت نہیں ہو سکتی۔‘‘
میری ویدر ٹاور
کراچی کے باسی اس امر سے پوری طرح واقف ہیں کہ نوآبادیاتی دور میں مسیحی انگریزوں کے ساتھ انیسویں صدی کے وسط میں یہودی بھی کراچی آ کر آباد ہوئے تھے۔ جب برطانوی حکمرانوں نے کراچی کا انتظام ایک شہر کے طور پر چلانا چاہا تو مقامی بلدیہ کے ارکان کے طور پر یہودیوں کو بھی منتخب کیا جاتا تھا۔ کراچی کے شہری یہ بھی جانتے ہیں کہ شہر کا مشہور میری ویدر ٹاور، جس کا نام بندر روڈ سے گزرنے والی ہر بس اور منی بس کے کنڈکٹر کی زبان پر ہوتا ہے، کراچی کی یہودی آبادی کی ایک بڑی نشانی ہے۔ اس ٹاور کو غور سے دیکھا جائے تو اس کی پیشانی پر یہودی مذہب کی علامت ستارہء داؤد ابھی بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ بات آج بہت سے لوگ نہیں جانتے۔
مشہور ماہر تعمیرات عارف حسن کہتے ہیں کہ بس یہی ایک عمارت نہیں بلکہ کراچی میں جابجا ایسی متعدد عمارتیں مل جاتی ہیں جو یہودیوں نے بنائی تھیں۔ ان میں سے کئی ختم ہو چکی ہیں جبکہ زیادہ تر کا یہودی تشخص آس پاس مسلسل پھیلتے ہوئے ’کنکریٹ کے جنگل میں کھو گیا ہے۔
یہودی شناخت پر خوف کا غلبہ
ایسا نہیں کہ کراچی میں اب کوئی بھی یہودی نہیں رہتا۔ ایرانی نسل کے اکا دکا یہودی آج بھی کراچی میں رہتے ہیں۔ لیکن ان کا رہن سہن ایرانی نڑاد پارسیوں جیسا ہے اور اسی لیے عموما? انہیں بھی زرتشتی ہی سمجھا جاتا ہے۔ کچھ یہودی ایسے بھی ہیں جو اپنے مغربی ناموں کی وجہ سے مسیحی سمجھے جاتے ہیں۔ ماہر تعمیرات عارف حسن کے بقول، ’’انتہائی حد تک یہودی دشمن ماحول میں بھلا کس میں اتنی ہمت ہوگی کہ وہ سرعام اعتراف کرے کہ اس کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے۔‘‘
یہودی عبادت گاہ کی جگہ رہائشی فلیٹ
یہودی عبادت کی جگہ رہائشی فلیٹ
کراچی میں آخری یہودی عبادت گاہ نشتر روڈ پر ہوا کرتی تھی۔ اس کی آخری ٹرسٹی ایک خاتون تھیں جو اب برطانیہ نقل مکانی کر چکی ہیں۔ ریچل جوزف نامی ان خاتون نے احمد الٰہی نامی ایک شخص کو اس عبادت گاہ کی عمارت سونپ دی تھی، اس شرط پر کہ جو تجارتی عمارت اْس وقت موجود عمارت کو گرا بنائی جائے گی، اس میں ایک حصہ یہودی عبادت گاہ کے لیے مخصوص ہو گا۔
اس شرط کے مطابق شروع میں تو مدیحہ اسکوائر نامی عمارت کے ایک فلیٹ میں یہ یہودی عبادت گاہ موجود رہی۔ لیکن پھر اس کی جگہ رہائشی اپارٹمنٹ بنا دیا گیا۔ ریچل جوزف نے بڑے طویل عرصے تک اس عہد شکنی کے خلاف قانونی جنگ لڑی لیکن پھر ہمت ہار کر وہ بھی پاکستان سے نقل مکانی کر گئیں۔
Very sad lal masjid he fisad me jur hay ali lhr