کہانی ایک انتہائی خفیہ آپریشن کی۔۔جنب فوج کے عزم نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا
دہشت گردوں کےمضبوط حصار میں مہمند ایجنسی کی دشوار گزار پہاڑی چوٹی پر پاک فوج کے قبضہ کی ایمان افروز روئیداد
ولی داد مہمند ایجنسی میں سوران اور مینائی کی وادیوں میں سینہ تانے کھڑا ایک بلند وبالا پہاڑ ہے۔ جس کی اونچائی ہزاروں فٹ ہے اور اس کی مغربی ڈھلوان کا ایک بڑا حصہ افغانستان میں داخل ہوتا ہے۔ مہمند ایجنسی میں شرپسندوں کی کارروائیوں کا سب سے بڑا مرکز یہی پہاڑی علاقہ تھا۔ مہمند ایجنسی نہ صرف اقتصادی اور معاشی طور پر بلکہ ترقیاتی طور پر بھی ایک پسماندہ علاقہ ہے۔ یہاں عسکریت پسندوں کا نہ صرف قبضہ تھا بلکہ یہاں پر اسلحہ اور بارود کا استعمال بھی بے دریغ تھا۔ ان عسکریت پسندوں میں تحریک طالبان مہمند کے ساتھ ساتھ غیرملکی گروہ بھی متحرک تھے۔ تحریک طالبان یہاں سب سے بڑی فعال تنظیم تھی جس نے یہاں کے مقامی لوگوں کو یرغمال بنا رکھا تھا۔
طالبان کے قبضے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو اقتصادی اور معاشی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تعلیم پرپابندیاں عائد کی گئیں، لڑکیوں کے سکول تباہ کیے گئے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگوں کو سخت سزائیں دی گئیں ۔ مختصر یہ کہ دہشت گردوں نے نظام زندگی کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔
علاقے کی سنگین صورت حائل کو مدنظر رکھتے ہوئے پاک فوج نے 77 بریگیڈ کوولی داد کا علاقہ دہشت گردوں سے پاک کرنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں 6اپریل 2011ء کو 35 آزاد کشمیر رجمنٹ کی ہلال کمیٹی نے میجر خرم احسان کے زیرقیادت ولی داد پہا ڑ پر پیش قدمی شروع کی۔ پوری رات کی کٹھن مسافت کے بعد خون ریز معرکے کا آغاز ہوا ، اونچائی پر موجود دشمن کو جنگی لحاظ سے ایڈواٹج حاصل تھا۔ اس ننگ دھڑنگ عمودی چوٹی پر چھپاؤ اور تلبیس کے درختوں اور پودوں کے نہ ہونے سے دشمن کی نظر سے بچنا مشکل تھا۔ چڑھائی اتنی عمودی تھی کہ کچھ گز طے کرنے کے لیے بہت سا وقت درکا ر تھا۔ غرض یہ کہ ہر فیکٹر دشمن کے فیور (Favour) میں تھا۔ یہ ’’ولی داد‘‘ کو فتح کرنے کی پہلی کاوش تھی جو کامیاب نہ ہوسکی اور اس کے عوض بلال کمپنی کو 12 شہادتوں کا قیمتی نذرانہ پیش کرنا پڑا اور شدت پسندوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
اسی معرکے کی دوسری کوشش 23مئی اور تیسری کوشش 25مئی کو عمل میں آئی ۔ اس دفعہ دشمن کے بے پناہ فائر کے باوجود پاک فوج کے جوان آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے۔ دشمن بھی مکمل تیاری میں تھا اور اونچائی پر ہونے کی وجہ سے تمام چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں کا مہک فائر کررہا تھا۔ ہمارے جوانوں کی بہادری، لگن اور قربانی کی بدولت چوٹی کا مشرقی حصہ تو قبضے میں آیا مگر چوٹی پر مکمل قبضہ نہ ہوسکا۔ اس معرکے میں 35 آزاد کشمیر رجمنٹ کے دو آفیسرز سمیت چھ جوانوں نے شہادت کا رتبہ پایا۔ شرپسندوں کو ایک بار پھر بھاری نقصان تو اٹھانا پڑا مگر پاک فوج کو مکمل کامیابی نصیب نہ ہوسکی۔
اس لڑائی میں اب تک 35AK رجمنٹ کے جوان اور افسر اپنے بہترین آفیسرز کیپٹن خضر ستی اور کیپٹن عابد نوید کو کھوچکے تھے۔ یہ وہ واحد لمحہ تھا جب ان کی آنکھیں اشک بار ہوئیں مگر وہ جانتے تھے کہ کامیابی کتنی ضروری ہے۔ یہ ان کی پلٹن کی عزت کا مسئلہ بھی تھا۔ تو ان سب نے مل کر عہد کیا کہ ’’اب ہم میں سے اس وقت تک کوئی نہیں روئے گا جب تک ہم ولی داد کی چوٹی تک پہنچ نہیں جاتے، جب ہم اس میں کامیاب ہوں گے تو مل کر اپنے ان پیاروں کی قربانی کو سلام پیش کریں گے۔ ’’اسی مایہ ناز پلٹن کے جوانوں اور افسروں پر 18 شہادتوں کے خون کا قرض تھا جسے چکانے کے لیے انہوں نے خود سے یہ عہد بھی کیا کہ وہ دوبارہ ولی داد آئیں گے اور شرپسندوں کے اس گڑھ پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرائیں گے اور اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو ان کی قبریں ولی داد پر بن جائیں گی۔ اس عہد کی تکمیل کے لیے پہلے وادی سوران کا علاقہ شرپسندوں سے پاک کیا گیا اور اور پھر ولی داد کی طرف دوبارہ پیش قدمی شروع ہوئی۔
18 جون کو فیصلہ کن حملے کا منصوبہ بنا اور صحیح معنوں میں پاک فوج کے جوان عسکریت پسندوں پر آسمانی بجلی بن کر گرے۔ شرپسندوں نے ولی داد کو بھرپور طریقے سے اپنے مدفوعہ مقام کے طور پر تیار کررکھا تھا اور ان کے خیال میں پاک فوج کے لیے دو وجوہات کی بنا پر اس پہاڑ پر قبضہ کرنا ناممکن تھا ، اول یہ کہ اس پہاڑ کی چڑھائی بہت مشکل تھی اور وم یہ کہ ولی داد کا قدرتی دفاع بہت مضبو ط تھا۔ مگر اسی شام آسمان نے ایک عجیب ایمان افروز منظر دیکھا۔ پاک فوج کے بہادر جوان مشرق کی سمت سے حملہ آور ہوئے۔ فیصلہ کن حملے میں جنگی طیاروں، گن شپ ہیلی کاپٹروں، توپخانے اور ٹینکوں کے فائر کی مدد بھی حاصل تھی۔ جوان پہلے تو انتہائی خاموشی سے مختلف ٹولیوں میں آگے بڑھتے رہے اور دشمن کے نزدیک جا پہنچے۔ جب دشمن کو خبر ہوئی تو اس نے اندھادھند فائر کھول دیا۔ بہادر جوانوں نے بھی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے چوٹی کی جانب اپنی پیش قدمی اور تیزی کردی۔ وہ زخمی ہوتے رہے مگر آگے بڑھتے رہے۔ ان کے ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے میں اتنی طاقت اور جذبہ تھا کہ ولی داد چوٹی چند لمحوں، چند جستوں اور چند قربانیوں کے فاصلے پر کھڑی نظر آئی۔ پاک فوج کا حملہ اتنا شدید اور اتنا تیزرفتار تھا کہ دہشت گردوں کی گولیاں اس کا راستہ نہ روک سکیں۔ بہادر سپاہی گولیاں سینوں پر کھاتے رہے ، نعرہ تکبیر بلند کرتے رہے اور آگے بڑھتے رہے۔
بالآخر ساڑھے دس گھنٹے کی اس خونی لڑائی کے بعد جب پاک فوج شرپسندوں کے سروں پر جا پہنچی تو دہشت گردوں کے پاس اسلحہ چھوڑ کر فرار ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ بہادر سپاہیوں نے بھاگتے ہوئے دہشت گردوں کو نشانہ بناکر انہیں بھاری جانی نقصان پہنچایا اور پھر صبح ساڑھے تین بجے ولی داد کی چوٹی پر الحمدللہ پاکستان کا پرچم لہرا دیا گیا۔
شائستہ عاقب