غریبوں کا منصوبہ کھرب پتی مستفید
پندرہ ارب کہاں گئے کچھ پتہ نہیں۔۔۔
رواں سال 20ارب67کروڑ روپے جاری کئے ،صرف ساڑھے 5ارب مستحقین تک پہنچ پائے ،باقی کا منافع کمایا جانے لگا سات سال کے بعد بھی مستحق افراد کی مستند دستاویز تیار نہ کی جا سکی،حکومت فلاحی رقم کا فائدہ مالیاتی اداروں کو پہنچا رہی ہے
رواں سال 20ارب67کروڑ روپے جاری کئے ،صرف ساڑھے 5ارب مستحقین تک پہنچ پائے ،باقی کا منافع کمایا جانے لگا سات سال کے بعد بھی مستحق افراد کی مستند دستاویز تیار نہ کی جا سکی،حکومت فلاحی رقم کا فائدہ مالیاتی اداروں کو پہنچا رہی ہے
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نے مالیاتی سال 2014/2015کے لئے قومی بجٹ میں مختص کی گئی رقوم میں سے اب تک صرف 20ارب 67کرو ڑروپے جاری کئے ہیں جبکہ صرف ساڑھے 5ارب روپے مستحق افراد کو پہنچ پائے ہیں۔ 15ارب سے زائد رقم ، جو اب تک حق داروں میں تقسیم نہیں کی گئی،اس کا فا ئدہ ان کھرب پتی ما لیا تی اداروں کو پہنچ رہا ہے جن کے پاس یہ رقوم پڑی ہو ئی ہیں، بی آئی ایس پی غریبوں کی براہ راست مالی معاونت کا بہترین پروگرام تھا لیکن اس سے بھی کھرب پتی لوگ ہی مستفید ہو رہے ہیں۔ بی آئی ایس پی کے اندرونی حلقو ں نے بتا یا ہے کہ رواں ما لی سا ل کے دوران مجموعی طور پر 46 لاکھ 34 ہزار357 افراد کو امدادی رقوم دی گئیں جس کی کل رقم 12 سوروپے فی کس کے حساب سے صرف سا ڑھے 5ارب رو پے بنتی ہے۔ بقا یا 15 ارب رو پے کہا ں اور کیوں پڑے ہیں اس کا کو ئی پتہ نہیں۔بی آئی ایس پی کے اعلیٰ حکام جاری شدہ رقوم کے تقسیم نہ ہونے کے اسباب بتانے سے گریزاں ہیں ، وہ ان بینکوں کے نام بھی نہیں بتاتے جن کے پاس غریبوں کی 15 ارب کی رقم پڑی ہے۔ بار بار اصرار پر ایک نچلے درجے کے افسر نے بتایا کہ بی آئی ایس پی کے پاس غریبوں کی مستند فہرست موجود نہیں ہے اس لئے جاری شدہ رقوم کی تقسیم میں دشواری کا سامنا ہے۔جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ بی آئی ایس پی کو قائم ہوئے سات سال گزرنے کو ہیں اس کے باوجود بھی غریب افراد کا مکمل ریکارڈ نہ ہونے کے اسباب کیا ہیں، تو اس نے لاعلمی کا اظہا ر کیا۔بی آئی ایس پی میں عالمی بینک کی ایک سابق کنسلٹنٹ نے کہا کہ یہ ہمارا اخلاقی دیوالیہ پن اور قومی المیہ ہے کہ غریبوں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتیں غریبوں کے لئے مختص رقوم بھی امراء پر لگا دیتی ہیں۔ پی پی کی حکومت نے 16ارب کی خطیر رقم اشتہا رات پر لگا دی جبکہ غیر ملکی دوروں اور مہنگے ہو ٹلوں میں سیمینارز اور تقریبات پر خرچ کی گئی رقم بھی اربوں میں ہے۔مو جو دہ حکومت فلاحی رقم کا فا ئدہ ما لیاتی اداروں اور بینکوں کو پہنچا رہی ہے جن کے پاس پہلے ہی دولت کے انبار لگے ہیں۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام غریبوں کی براہ راست مالی معاونت کا بہترین پروگرام تھا لیکن اس سے بھی کھرب پتی لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ قوم کی بدنصیبی ہے کہ وہ فلاحی ادارہ جس کے پاس سالانہ 120ارب کی رقم تھی، ملک میں غریب لوگوں کی مستند دستاویز تیار کرنے میں ناکام رہا۔ مالیاتی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر رواں مالی سال کے آخر تک پروگرام کے 15ارب روپے پڑے رہے تو بینکوں کو اس کا سالانہ پونے 3ارب روپے منافع ہو گا کیونکہ بینک کم از کم 18فیصد سود پر قرض دیتے ہیں جبکہ زیادہ سے زیادہ شرح25فیصد پر جا پہنچتی ہے۔18فیصد کے حساب سے 15ارب روپے کا سالانہ سود 2ارب 70کروڑ روپے بنتا ہے۔
لاہور/رپورٹنگ ڈیسک