قلوپطرہ: حسن اور بے وفائی کی علامت
قلوپطرہ جنوری 69 قبل مسیح میں اسکندریہ مصر کے مقام پر پیدا ہوئی۔ اس کے والد کا نام بطلیموس دوازدہم (Ptolemy XII) تھا جس کا زمانہ117 قبل مسیح تا 51 قبل مسیح تھا اور یہ فرعونِ مصر تھا۔
مصر کی ملکہ قلوپطرہ ایک تاریخ ساز عورت تھی۔ 48 قبل مسیح میں اس نے خود سے عمر میں تیس سال بڑے جولیئس سیزر کو اپنے دام میں گرفتار کیا اور اس کے بچے کی ماں بنی۔ بعد میں اس نے مارک انطونی کے ساتھ پینگیں بڑھالیں، تاہم اس معاشقے کا انجام اچھا نہیں ہوا اور جب انطو نی کو جنگ میں شکست ہوئی تو اس نے اور قلوپطرہ دونوں نے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرڈالا۔
قلوپطرہ مصر کی وہ شہرہ آفاق فرعون ملکہ تھی کہ جس کے ہوش ربا حسن نے سلطنتِ روم کے نامور جرنیلوں کو خاک و خون میں رنگ کر عظیم الشان سلطنتوں کو ہمیشہ کے لیے صفحہء ہستی سے مٹا دیا۔ کہتے ہیں کہ یہ خاتون نہایت ہی دلکش حسن اور جادوئی شخصیت کی مالکہ تھی۔ لیکن خود بھی وہ اس حسن کی قیمت وصول کرتے ہوئے نیلامی کی سولی پر چڑھ کر ایک ناقابلِ فراموش داستانِ عشق و بے وفائی بن کر تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گئی۔
مورخین کے مطابق وہ حسن و چاشنی اور ذہانت کے جادوئی ہتھیاروں سے لیس ایک پراسرار و عیار عورت تھی جو سلطنتِ روم پر قابض ہونا چاہتی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اٹھاون قبل مسیح میں قلوپطرہ کا بڑا بھائی تخت نشین ہوا تو اس نے فرعونی روایات کے مطابق اپنی گیارہ سالہ کم سن بہن قلوپطرہ سے شادی کی۔ اس کی ہلاکت کے بعد تیرہ سالہ چھوٹے بھائی بطلیموس نے تخت سنبھالا تو اس نے بھی انہی روایات کے مطابق جب اپنی بہن سے شادی کی تو قلوپطرہ اٹھارہ سال کی تھی اور خاوند تیرہ سال کا تھا۔
کم سن شاہ بطلیموس کے اقتدار کا دور بہت ہی پرآشوب تھا اور امور مملکت پر اس کی گرفت انتہائی کمزور تھی۔ آخر کار قلوپطرہ اور اس کے بعض درباریوں کی سازشوں کے نتیجے میں شاہ بطلیموس کی ہلاکت کے بعد قلوپطرہ نے تخت و تاج سنبھال کر خدائی کے دعویدار فرعونوں کی روایات کے مطابق خود کو دیوی کہلوانا شروع کردیا۔
قلوپطرہ کے معرکہء عشق کا پہلا شکار روم کا وہ شہرہ آفاق حکمران جولیئس سیزر تھا، جو اس کے خاوند اور اس کی لڑائی میں ثالثی کے لیے مصر آیا تھا، مگر اس کے سحر انگیز حسن اور زلفوں کا اسیر ہو کر دو برس تک مصر میں مقیم رہا اور بنا شادی رچائے ہی قلوپطرہ کے ناجائز بچے کا باپ بن گیا۔ اپنے سب سے بڑے حریف جنرل پامپے کو شکست دینے کے بعد جولیس سیزر نے تخت روم سنبھالا تو قلوپطرہ اس کی قربت اور دیگر پراسرارعزائم کے لیے روم میں ہی مقیم ہو گئی اور یوں عملی طور مصر سلطنت روم کا ایک صوبہ بن کر رہ گیا۔
اپنے بے وفا دوست بروٹس اور رومی سینیٹروں کے ہاتھوں جولیس سیزر کا قتل ہوا تو قلوپطرہ اس کے منہ بولے بیٹے اور نائب جنرل انطونی سے تعلقات بنا کر اس کے تین بچوں کی ماں بن گئی۔ مارک انطونی شاہ آگسٹس کا بہنوئی بھی تھا لہٰذا قلوپطرہ اور انطونی کا یہی تعلق دونوں کے درمیان جنگ و جدل کے سلسلے کا ایک سبب بنا۔
یہ قلوپطرہ کی تیسری اور آخری شادی ثابت ہوئی۔ انطونی نے جنرل آکٹیوین سے شکست کھائی تو قلوپطرہ میدان جنگ سے فرار ہو کر ایک خفیہ پناہ گاہ میں جا چھپی۔ اس دوران اس نے انطونی کو شکست دینے والے فاتح جرنیل آکٹیوین سے راہ و رسم بنانے کی بھرپور کوشش کی مگر ناکام ہوئی۔ اس نئی آرزوئے عشق میں ناکامی کے بعد اس نے انطونی کے ساتھ بے وفائی کا جو کھیل کھیلا اس کا نتیجہ صرف انطونی کی نہیں بلکہ خود اس کی بھی عبرتناک موت ٹھہرا۔
تاریخ کے مطابق اس نے اپنی ایک خادمہ کے ذریعے انطونی تک یہ افواہ پہنچائی کہ قلوپطرہ نے اس کی شکست سے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کر لی ہے۔ عشق میں مبتلا انطونی نے اس افواہ کو حقیقت سمجھا اور تلوار سے اپنا سینہ چاک کر کے خود کشی کر لی اور پھر انطونی کی خودکشی کی خبر سننے پر پچھتاوے کی آگ میں جلتی ہوئی قلوپطرہ نے بھی خود کو زہریلے مصری کوبرا سانپ سے ڈسوا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا اور تاریخ میں بے وفائی کی علامت بن کر رہ گئی۔ یہ تیس قبل مسیح کا واقعہ ہے۔
کچھ مورخین کے مطابق عیار قلوپطرہ نے اپنی وسعتِ اقتدار کے لیے رومی سلطنت کو تباہ و برباد کر کے روم پر قابض ہونے کے لیے جولیئس سیزر کی زندگی تک رسائی کی تھی۔ لیکن کچھ مبصرین کے مطابق جولیس سیزر کے اپنے ہی قابل اعتماد دوست بروٹس کے ہاتھوں قتل میں بھی اسی قلوپطرہ کا شاطرانہ ذہن کارفرما تھا۔ اور کچھ مورخین کے مطابق اس نے اپنے شوہر انطونی کو شکست دینے والے جنرل آکٹیوین تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اسی جرنیل کے ایما پر ہی انطونی کو موت کی طرف دھکیلنے کی سازش بھی کی تھی۔ لیکن اسی محاورے کی مصداق ٹھہری۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم کہ
نہ ہی ادھر کے رہے نہ ادھر کے
یعنی قلوپطرہ آکٹیوین کو تو پا نہ سکی اور انطونی کو بھی کھو بیٹھی۔ اور اسی غم میں خودکشی بھی کر بیٹھی۔
قلوپطرہ تاریخ میں عجیب و غریب اور سحر انگیز شخصیت کی مالکہ اور ہوس کی پجاری کے طور پر جانی جاتی ہے جو مختلف مردوں کے پیچھے پیچھے گھومتی نظر آتی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اس کو اقتدار کی پجارن کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ کیونکہ اس نے جتنے بھی مردوں سے تعلقات بنانے کی کوشش کی وہ تمام صاحب اقتدار لوگ تھے کوئی عام لوگ نہیں تھے۔ اس کی سازشوں سے بہت سی سلطنتیں زوال پذیر ہوئیں اور بہت سے بے گناہ لوگ مارے گئے، اس لیے یہ موقف زیادہ درست معلوم ہوتا ہے کہ قلوپطرہ نے جو کچھ بھی کیا وہ اپنی حکومت کی توسیع کے لیے کیا، اور یہی خواہش آخر کار اس کی زندگی کے اختتام کا باعث بنی۔
عدنان یونس