پاک، بھارت ٹریک ٹوڈپلومیسی شروع، امریکہ اورروس مددگار
پاک بھارت روابط معمول پر لانے کیلئے امریکہ اور روس نے کاوشیں تیز کر دی ہیں، واشنگٹن اور ماسکو پیوٹن اور اوباما کے خطہ کے دوروں کے پیش نظر دہلی اوراسلام آباد میں قربتیں چاہتے ہیں۔ امریکی و روسی سفراء دبئی میں پاکستانی و بھارتی اعلیٰ حکام کی پس پردہ ملاقات کیلئے کوشاں ہیں، افغان سرزمین پر دیرپا استحکام کیلئے کابل نے بھی عالمی و علاقائی طاقتوں سے دہلی،اسلام آباد روابط میں بہتری کی استدعا کی ہے جبکہ5 ماہ کے تعطل کے بعد دہلی،اسلام آباد ٹریک ٹوڈپلومیسی کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔
سفارتی ذرائع نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات معمول پر لانے کیلئے سفارتی سطح پر سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں، امریکی اور روسی سفارتکاروں نے اسلام آباد اور دہلی میں متعلقہ حکومتوں کو سخت سفارتی موقف میں نرمی، کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر جھڑپوں کے جاری سلسلے کو ختم کرنے اور مذاکراتی عمل کی بحالی پر زور دیا ہے جبکہ اِس سلسلے میں عملی کاوشوں کو مزید تیز کر دیا ہے۔ ذرائع نے بتایا امریکہ اور روس جنوبی ایشیائی ہمسایوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پس پردہ و غیر رسمی سفارتکاری میں مکمل معاونت کر رہے ہیں۔ روس اور امریکہ کٹھمنڈو (نیپال) میں پاک بھارت وزرائے اعظم کے مابین ملاقات چاہتے ہیں، پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ سرکاری حکام کے مابین تعلقات میں بہتری کیلئے دبئی میں ملاقات کی تجویز کو عملی شکل دینے کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں جبکہ افغانستان میں دیرپا قیام امن و استحکام اور پاک بھارت خفیہ جنگ کے خطرات کو زائل کرنے کیلئے افغان حکومت نے بھی امریکہ، چین اور روس سے استدعا کی ہے کہ جنوبی ایشیائی ہمسایوں کے مابین تعلقات میں بہتری کیلئے کردار ادا کیا جائے۔ ذرائع نے بتایا امریکی سفراء کو ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ آئندہ سال 25جنوری کو امریکی صدر اوباما کے دورہ بھارت اور خطے کی صورتحال اور پاک۔امریکہ سٹرٹیجک مذاکرات کیلئے وزیر خارجہ جان کیری کے جنوری ہی میں دورہ پاکستان سے قبل اسلام آباد اور دہلی کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے اقدامات یقینی بنائے جائیں جبکہ صدر اوباما نے 21نومبر کو وزیر اعظم نواز شریف کو کی گئی فون کال میں بھی تعلقات معمول پر لانے کیلئے بھارتی وزیر اعظم سے مصافحہ ہی نہیں بلکہ ملاقات کی بات کی۔ ذرائع کا کہنا ہے روسی صدر ولادی میر پیوٹن 24دسمبر کو دورہ بھارت کے دوران پاکستان کیساتھ بڑھتی قربت کے باعث بھارتی تشویش کو دور کرنے پر بھی گفتگو کرنا چاہتے ہیں لہذا روسی سفارتکاروں نے پہلی مرتبہ روسی صدر کے دورے سے قبل پاکستان بھارت روابط معمول پر لانے کیلئے موثر کاوشوں کا آغاز کیا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق اگرچہ وزارت خارجہ کا کسی غیر رسمی سفارتکاری سے کوئی تعلق نہیں تاہم حال ہی میں پاک بھارت ماہرین اْمور خارجہ، دفاع و بین الاقوامی تعلقات پر مشتمل گروپ نے 20اور 21نومبر کودہلی میں منعقدہ خصوصی غیر رسمی یا ٹو ٹریک سفارتکاری کا از سرنو آغاز کیا ہے۔ گروپ نے دونوں ممالک کی حکومتوں اور وزرائے اعظم پر زور دیا کہ کٹھمنڈو (نیپال) میں 18ویں سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر مختصر ہی سہی ملاقات کی جائے اور تعطل کا شکار دوطرفہ مذاکراتی عمل بحال کیا جائے ، دونوں ممالک کشمیر اورسرحدی دہشتگردی سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ رویہ اپنائیں۔ 25اگست کے سیکرٹری خارجہ مذاکرات کا تعطل افسوسناک تھا تاہم کشمیری قیادت کی پاکستانی رہنماؤں اور سفراء سے ملاقاتوں پر اعتراض درست نہیں، پاکستان اور بھارت کو دوطرفہ سطح پر نفرتیں بڑھانے کے بجائے سیاسی و سکیورٹی اْمور، تجارت و اقتصادی تعاون، سماجی شعبے کی ترقی اور غربت کے خاتمے ، ذرائع ابلاغ اور عوامی روابط کے فروغ پر توجہ دینی چاہئے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کنٹرول لائن و ورکنگ باؤنڈری پر اشتعال انگیز کارروائیوں سے اجتناب کرتے ہوئے جنگ بندی معاہدہ کی پاسداری کرنی چاہئے۔ ذرائع نے واضح کیا کہ غیر رسمی سفارتکاری کیلئے پاکستان سے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری، بھارت سے کانگریس کے رہنماؤں مانی شنکر ائیر اور سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید نمایاں ہیں۔
فیصل رضا خان