تھر کا قحط، گداگری اور ہم
آپ روزانہ میڈیا میں تھر میں مٹھی کے سول ہسپتال میں نومود بچے کی ہلاکت کی خبر سنتے ہیں اور خبر کی جزیات سے یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ یہ اموات ضلع میں قحط کی وجہ سے ہیں۔ قحط سے مراد کم یابی یا نایابی یا کال ہے تو معذرت تھر میں قحط نہیں مگر قحط سے مراد ہم یہ لیں کہ بازار میں کھانے کو ہے مگر جیب میں خریدنے کو کچھ نہیں تو یقین جاتے یہ قحط ملک کے کئی گھروں میں ہیں۔ ایسے گھروں کے مکینوں کو ہم غریب کہتے ہیں اور یہ غربت واقعی تھر میں ذیادہ ہے۔
اس سال تھر میں کم بارشیں ہوئی ہیں، کسی حد تک فصل نہیں ہوئی پائی یہاں کاشت کاری بارش پر منصر ہے مگر معمول سے کم بارش ہونے سے نہ تو اچھی فصل ہو پائے گی اور نہ جانوروں کے لئے چارہ۔ مگر عمومی حالت قحط کی سی نہیں ہاں اگلے سال بارش نہ ہو تو خوراک کی نایابی کے امکان کو رد کرنا مشکل ہو گا۔
نومولود بچوں کی ہلاکت کی اصل وجہ زچہ کو دوران حمل اچھی خوراک کا نہ ملنا ہیں۔ دوسرا طبعی سہولیات کا فقدان ہے۔ مٹھی شہر کے ہسپتال میں بچوں کے لئے سہولیات ضلع کے باقی ہسپتالوں کے مقابلے میں بہتر ہیں۔ اس لئے آخری کوشش کے طور پر نومود بچوں کوعموما تب اس ہسپتال میں پہنچتے ہیں جب وہ ڈاکٹر کے علاج سے بھی زندگی کی جدوجہد جیتنے کے قابل نہیں رہتے۔
قحط سے مراد کمی یا نایابی ہے ، مگر یہاں تھر میں خوراک کی کمی یا نایابی نہیں ہے البتہ تعلیم، طبعی سہولیات ، مواصلات کی کمی یا نایابی ضرور ہے۔ ملک کے باقی حصوں کی طرح یہاں بھی کرپشن و انتظامی بد عنوانی پائی جاتی ہے۔ حکومت نے پانی کی فراہمی کے لئے مختلف جگہوں پر واٹر پلانٹ لگائے ہیں مگر کرپشن و انتظامی بد عنوانی کی بناء پر ان پلانٹس کو چلانے کی رقم خردبرد ہو جاتی ہے یوں یہ پانی کی فراہمی کے پلانٹس یا تو بند ہے یا بہت کم کام کرتے ہیں۔
میڈیا تصویر کا اصل رْخ دیکھانے کے بجائے وہ رْخ دیکھا رہا ہے جو اصل حقیقت نہیں۔ الیکٹرونک میڈیا کی نمائندے مٹھی شہر آتے ہیں، رات ریسٹ ہاوس میں گزارتے ہیں، صبح ماروی کا گاوں گھومنے جاتے ہیں، ننگر کی جھیل ، مسجد و مندر کی سیر کرتے ہیں اور شام میں ایک پروگرام ریکاڑد کر کے قحط قحط کا شور مچاتے ہیں۔ کیا اچھا ہو کہ وہ بتائیں کہ تھرپارکر کے ضلعی ہیڈکواٹر کے علاوہ مقامی تحصیلوں کے دور دراز علاقوں میں طبعی سہولیات کی فراہمی نومود بچوں کو موت سے بچا سکتی ہے۔ وہ بتائیں کہ مقامی لوگوں کو آگاہ کیا جائے کہ زچہ کو دوران حمل عمدہ خوارک صحت مند بچے کی پیدائش کا سبب بنی گی۔
مگر یوں لگتا ہے کہ ہم گداگر بنتے جا رہے ہیں ہماری مثال باحیثیت قوم اْس بندے کی سی ہوتی جا رہے ہے جو سڑک کنارے سگنل بند ہونے پر کھڑی گاڑیوں کے مسافروں کواپنا زخم دیکھا کر کہتا ہے \”اللہ کے نام پر دیتا جا رے، جو دے اْس کا بھی بھلا جو نہ دے اْس کا بھی بھلا\”۔۔۔۔۔۔ قحط کا شور ہمارا ایسا ہی زخم ہے۔