Published On: Fri, Aug 29th, 2014

دھندلی الزامات، نواز ،زرداری ملاقات

Share This
Tags
عمران خان جتنا چاہے شور مچائیں ، دھاندلی کے ذمہ داروں کو بے نقا ب کرنے اور انہیں سزائیں دینے کے جتنے چاہے مطالبات کریں ، نواز لیگ نے شواہد کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ اب انتخابی دھاندلی کو ثابت کیا جا سکے ۔جعلی ووٹ غائب ہو چکے، وہ لوگ اور افراد جنہوں نے دھاندلی کے ذریعے نواز لیگ کی جیت کو یقینی بنایا ، وہ بھی منظر سے غائب ہو چکے ہیں۔محبوب انور چھ ماہ کی رخصت پر ملک سے باہر جا چکے ہیں۔سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق حسین بھی منظر سے غائب ہو چکے ہیں ۔عدلیہ انصاف دینے کی بجائے جمہوریت بچانے کے بیانات دے رہی ہے۔ا ب دیکھتے ہیں کہ آ گے کیا ہو تا ہے؟
آگے چلنے سے پہلے آپ کو یہ چھوٹی سے مخبری بتاتے چلیں کہ گذشتہ روز آصف علی زرداری نے رائے ونڈ میں نواز شریف سے ملاقات کی ۔ کہا جاتا ہے کہ اس ملاقات کیلئے زرداری خصوصی طور پر دوبئی سے آئے ۔ اب کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ ملاقات اسلام آباد میں بھی ہو سکتی تھی ، جہاں اتنا بڑا وزیر اعظم ہاؤس موجود ہے۔پھر زردای کو نواز شریف نے رائے ونڈ کیوں بلوایا؟ اس بارے میں ذرائع بتاتے ہیں کہ نواز شریف کو شبہ تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں انہیں جاسوسی کا خطرہ تھا ۔ چونکہ وزیر اعظم ہاؤس میں جاسوسی کے آلات نصب ہیں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا مضبوط نیٹ ورک موجود ہے ، اس لئے نواز شریف نہیں چاہتے تھے کہ اس ملاقات میں ہونے والے بات چیت ’’ لیک ‘‘ ہو۔اس لئے ملاقات کا اہتمام رائے ونڈ میں کیا گیا ۔اب بھولے بادشاہ کو کون بتائے ؟انہیں کون سمجھائے کہ یہ جاسوسی نیٹ ورک توشریف فیملی کے رائے ونڈ محلات میں بھی موجود ہے۔
nawaz-zardari***
نواز شریف کچن کیبنٹ
نواز شریف اور ان کی کچن کیبنٹ کے اراکین بھی بادشاہ آدمی ہیں ۔معلوم ہوا ہے کہ نواز شریف کو ان کی کچن کیبنٹ کے ایک رکن نے مشورہ دیا ہے کہ میاں صاحب!آپ اس ملک کے وزیراعظم ہیں ، آپ کے پاس فوج کے سربراہ کو مقرر کرنے کا اختیار تو ہے لیکن بہت سے اختیار ایسے بھی ہیں جو ابھی آپ کے پاس نہیں ہیں ۔ بھولے بادشاہ نواز شریف کو بھی یہ سن کر تعجب ہوا تو انہوں نے پوچھا وہ کون سے اختیارات ۔۔۔تو نواز لیگ کے اس رکن نے کہا کہ آپ آئین میں ترمیم کر یں کہ کورکمانڈر کی تقرری اور ترقی کے اختیارات بھی وزیر اعظم کو تفویض کئے جائے۔ اس طرح جمہوری حکومت کی گرفت ریاستی اداروں پر مضبوط ہوجائے گی اور ریاستی ادارے کوئی غیر آئینی اقدام نہیں اٹھا سکیں گے۔ نواز شریف یہ سن کر خاموش ہو گئے اور انہوں نے اس سلسلے میں کوئی مثبت اشارہ نہیں دیا ۔
ا ب آپ خود اندازہ کریں کہ نواز شریف کو کیسے کیسے مشورے دےئے جا رہے ہیں ؟
***
عوامی تحریک کی ایف آئی آر اور حکومتی رد عمل
ڈاکٹر طاہر القادری اپنی مرضی کی ایف آئی آر تو کٹوانے میں کامیا ب ہو گئے ہیں ۔ یہ ان کی فتح ہے ۔ حکومت کے برے دن شروع ہو چکے ہیں ۔ یہ ایسا واقع ہے جو ساری عُمر ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ اب یہاں اسی واقعے سے جڑا ایک واقع سن لیجئے۔تاہم اس پہلے قارئین کو بتاتے چلیں کہ شہباز شریف کے پی ایس او (پرسنل سٹاف آفیسر)ندیم شیرازی جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں شہباز شریف کے فائرنگ کرنے کے احکامات کو آ گے پاس کیا تھا وہ فرار ہو کر کنیڈا چلے گئے ہیں ۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ وہ کنیڈا گئے نہیں بلکہ بھجوائے گئے ہیں ۔ کس نے بھجوایا ہو گا ، اس ابارے میں کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ، لوگ سب جانتے ہیں۔اب آگے سنیں کہ سانحہ ماڈل تاؤن کی آر میں کچھ ہوتا رہا؟
17 جون2014 کو ادارہ منہاج القرآن میں جو کچھ کیا گیا اوراس کے بعد دس اگست کو جو شہادتیں ہوئیں چاہے وہ پولیس کی ہوں یا عوامی تحریک کی، یہ قومی نقصان تھا۔ جن پولیس والون کے ہلاک ہونے کی اصل وجوہ ٹوئسٹ کی جارہی ہیں وہ اخلاقی طور پر اور مذہبی طور پر کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ کیا پنجاب کے حکمرانوں کو پانچ سے زیادہ خفیہ اداروں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ پولیس کے یہ لوگ عوامی تحریک والوں نے نہیں مارے بلکہ ان میں سے ایک سپیشل جج بینکنگ کورٹ احمد نواز رانجھا کاگن مین محمد اشرف بیلٹ نمبر 9005 لاہور ہے، جو فیروز پور روڈ پر ٹریفک حادثے میں اور دوسرا ڈاکوؤں کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا۔
شہباز شریف کی بے خبری کہہ لیں یا سیاسی سکور کرنے کی کوشش، کہ ان کی جانب سے نارووال سے تعلق رکھنے والے پولیس کانسٹیبل اشرف کی ہلاکت پر جب ان کے پس ماندگان کیلئے ایک کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا گیا اور مرحوم کانسٹیبل کی برادری کے کچھ لوگوں نے جب ایک کروڑ روپے معاوضہ کی خبر سنی، تو حسد سے جلنے والے کچھ ’’شریکوں‘‘ نے میڈیا کے چند لوگوں کو اصل اور سچی بات پہنچا دی اور پھر جنرل ہسپتال کے ڈاکٹروں نے سار ابھید کھول دیا۔ ہسپتال کی انتظامیہ کا کارنامہ دیکھیں کہ حادثے میں مرنے والے کی ہلاکت کو قتل میں تبدیل کرتے ہوئے تھانہ نصیر آباد میں بے گناہ لوگوں کو اس کے مقدمہ قتل میں ملوث کیا گیا۔ عدالت عالیہ میں کنٹینر کیس کی سماعت کے دوران میڈیا کی جانب سے اس سارے جھوٹ کو پردہ اس طرح چاک ہوا کہ اسی کانسٹیبل کا بھائی بول اٹھا کہ اس کا بھائی حادثے میں ہلاک ہوا۔ لیکن سب نے دیکھا کہ حکمران سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز پر اس کا نسٹیبل کے خاندان اور ’’شہریوں‘‘ کے تاثرات اس طرح دکھاتے رہے جیسے اشرف کانسٹیبل کو دہشت گردوں کے کسی گروپ نے قتل کر دیا ہے۔
اب ایک اور خبر یہ کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے واقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی ہدایت پر سپیشل برانچ متحرک ہوئی اور تحقیقات بھی شروع کیں جس میں شہباز شریف نے آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا سے مطالبہ کیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں فائرنگ کرنے والے پولیس اہلکاروںtahir-ul-qadri کے خلاف تحقیقات مکمل کر کے انہیں گرفتار کیا جائے جس پر ایک روز سوچنے کے بعد آئی جی پنجاب نے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرنے سے معذرت ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان پولیس اہلکاروں کو گرفتار نہیں کر سکتے کیونکہ ان پولیس اہلکاروں نے کسی کے حکم پر گولیاں چلائی تھیں اور بغیر حکم کے پولیس اہلکار کسی پر گولیاں نہیں چلا سکتے اس لیے وہ ان پولیس اہلکاروں کو گرفتار نہیں کر سکتے۔
کہا جاتا ہے کہ اس بات پر شہباز شریف اور مشتاق سکھیرا کے درمیان گرما گرمی اورتلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔مشتاق سکھیرا غصے میں وزیر اعلیٰ ہاؤس سے چلے گئے۔جاتے ہی انہوں نے یہ کیا کہ ماڈل ٹاؤن آپریشن میں حصہ لینے والے ایس پیز اور دیگر ایس پیز کے تقررو تبادلے کے احکامات جاری کر دئیے گئے ۔یعنی انہیں اپنی طرف سے بچانے کی کوشش کی ۔ ماڈل ٹاؤن آپریشن میں پیش پیش ایس پی مجاہد شکواڈ عبدالرحیم شیرازی کو ایس پی انوسٹی کمیشن ڈی جی خان ،ایس پی ہیڈ کوارٹرز معروف داہلہ کو ایس پی انوسٹی کمیشن ریجنل ڈی جی خان تعینات کر دیا۔اس طرح آپریشن میں حصہ لینے والا اب کوئی بھی ایس پی لاہور میں نہیں رہا ،ایس پی صدر ملک اویس کو بھی پہلے ہی تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اب نئی ایف آئی آر کے اندارج کے بعد ممکن ہے کہ ان کے خلاف کوئی مزید کارروائی ہو۔

Leave a comment