Published On: Fri, Dec 16th, 2011

سقوط مشرقی پاکستان کا سبق

Share This
Tags
16 دسمبر1971ء مسلمانوں کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔برعظیم میں مسلمانوں کی ہزار برس کی تاریخ میں یہ سانحہ پہلی بار پیش آیا کہ مسلح افواج ہندووں کی افواج کے سامنے ہتھیارڈالنے کی ذلت اٹھانی پڑی اور 90 ہزار فوجی اور شہری بھارت کے قیدی بن گئے۔ اس سانحے سے محض 24 برس قبل برعظیم کے مسلمان قیام پاکستان کی صورت میں معجزانہ کارنامہ انجام دے چکے تھے۔ نئی مملکت خداداد عصر جدید کی سب سے بڑی مسلمان مملکت تھی۔ یہ مملکت صرف شمال مغربی ہند اور بنگال کے خطے کے مسلمانوں ہی کی مملکت نہیں تھی بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے حفاظتی قلعے کی حیثیت رکھتی تھی۔ ملت اسلامیہ کی تاریخ فتح وشکست سے بھری ہوئی ہی‘ لیکن معاصرعہدکی سب سے بڑی فوج کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کی ذلت اور اس سے بڑ کر سقوط ڈھاکا کے سانحے نے اس دن کو پوری ملت اسلامیہ کے لیے سیاہ ترین دن بنادیا۔ 1971ء کے بعد آج 2011ء کا دسمبر بھی ختم ہورہاہے۔ اس مدت میں پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکاہے۔ عالمی حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ سقوط ڈھاکا کا سانحہ جس وقت پیش آیا تھا اس وقت عالمی سطح پر دنیا قطبین میں تقسیم تھی۔ روسی کمیونزم اور امریکی سرمایہ دارانہ امپیریلزم کے درمیان سردجنگ جاری تھی۔ اس وقت کی صف بندی کے اعتبارسے پاکستان کو اس کے حکمرانوں نے پاکستانی قوم کی رائے اور مرضی کے علی الرغم امریکی کیمپ کا حصہ بنادیاتھا جبکہ بھارت روسی کیمپ سے قربت رکھتا تھا۔ کمیونزم کی سامراجیت کے مقابلے میں امریکی سامراجیت کا آلہ کار بننے اور خط اول کی ریاست قرارپانے کی وجہ سے پاکستان روس کا دشمن تو تھا ہی اس لیے اس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لیے بھارت کی سرپرستی کی لیکن امریکی امپیریلزم بھی پاکستان کی مدد کے لیے آگے نہیں آیا۔ سقوط ڈھاکا کے سانحے کے بعد پاکستان کی قوم اور اس کے حکمرانوں کے لیے دوستوں اور دشمنوں کے حوالے سے بہت سبق تھے ‘ لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے تاریخ کے سب سے بڑے المیے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس سانحے کو قوم کے اجتماعی حافظے سے کھرچنے کی مسلسل کوشش جاری رکھی ہے۔ قوم کو مطمئن کرنے کے لیے محدود دائرے میں حمودالرحمن کمیشن ضرورقائم کیاگیا‘ لیکن اس کی حقیقی رپورٹ بھی آج تک شائع نہیں کی گئی۔ حالانکہ صرف سقوط ڈھاکا کے المیے کے بعد اس سانحے کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے حقیقی تجزیہ کیاجاتا تو آج ہم ملی اور اجتماعی مصائب کے اسباب تلاش کرکے نئی راہ عمل بھی متعین کرسکتے تھے۔ سقوط ڈھاکا کا سانحہ نو آبادیاتی حکمرانی کے خاتمے کے بعد پاکستان کی ہئیت مقتدرہ کے جرائم کا ثبوت ہے۔ قیام پاکستان جغرافیائی اور وطنی قومیت کے دورمیں ملت کے تصورکی بنیاد پرقائم ہونے والی مملکت تھی۔ پاکستان کے دونوں بازووں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ ملک کے دو بازووں کو کلمہ طیبہ کی زنجیر نے ایک دوسرے سے منسلک رکھا ہواتھا۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے ’’مسلم قومیت‘‘کی بنیاد پر قائم ہونے والے ملک کو ’’اسلامی ریاست‘‘ بنانے سے شعوری طورپر گریزکیا۔ اسلامی ریاست کے تقاضوں سے بچنے کے لیے پھر وطنی قومیت کے تصورکا سہارالیا۔ اس کا لازمی نتیجہ علاقائی‘ صوبائی اورلسانی تعصبات کی صورت میں نکلنا تھا۔ لسانی‘صوبائی اور ثقافتی تنوع کو سیاسی قیادت ایک لڑی میں پروسکتی تھی لیکن فوج اور بیوروکریسی نے قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کے جانشینوں کو حکومت ہی نہیں کرنے دی۔ قائد اعظم کی جانشینی کرنے والوں میں سرفہرست مشرقی پاکستان کے مسلمان تھی‘ جن میں خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی اور اے کے ایم فضل الحق‘ سرفہرست تھے۔ یہ افراد قیام پاکستان سے قبل بھی متحدہ بنگال میں مسلمانوں کی حمایت سے وزیر اعظم رہ چکے تھے لیکن جنرل اسکندرمرزا‘ جنرل ایوب خان اور ملک غلام محمدجیسی افسرشاہی نے محلاتی سازشوں کے ذریعے حکومتوں کی اکھاڑپچھاڑ کے جس کھیل کا آغاز کیا ‘ اس کا نشانہ سب سے پہلے قائد اعظم کے جانشین اور دوسرے گورنرجنرل اوردوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین بنے اس وقت کی دستورسازی اسمبلی کے سربراہ یعنی اسپیکر بھی ایک بنگالی رہنما مولوی تمیزالدین تھی‘ اس کے بعد سے پاکستان پر عملاً فوج اور بیوروکریسی کی حکومت رہی۔ خواجہ ناظم الدین کی برطرفی اور دستور ساز اسمبلی کی معطلی پاکستان میں فوجی آمریت اور سقوط مشرقی پاکستان کی بنیاد بن گئی۔ اس کھیل کا سبب بھی یہی تھا کہ عالمی قوتوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ پاکستان میں فیصلہ سازی کا اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کو نہیں دیناہے۔ پاکستان کو امریکی امپیریلزم کے علاقائی ڈیزائن کا حصہ بنناہے اور یہ کام قائد اعظم کی جانشین اور دیانتدار قیادت ہرگزکرنے کو تیارنہیں ہوتی۔ اس وقت کی فوجی قیادت یعنی جنرل ایوب خان امریکیوں سے مسلسل رابطے میں تھے۔ محدود فوجی ذہن اور دور غلامی کی تربیت نے اثر دکھایا۔ دوسری طرف ملّی وحدت کے تصورکو مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ پاکستان کے تصورسے محبت اور مضبوط وابستگی رکھنے والے سیاسی رہنماوں کو غیرموثرکیاگیا۔ سقوط مشرقی پاکستان کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کوئی فوج کسی بھی ملک کے عوام سے نہیں لڑسکتی۔ 1970ء میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے تھے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔ لیکن اس وقت کی فوجی قیادت نے سب سے بڑی منتخب جماعت کو اقتداردینے کے بجائے مغربی پاکستان کی دوسری بڑی جماعت کو ساتھ ملاکر فوجی ایکشن شروع کردیا۔ اگر اس وقت عوامی لیگ کو اقتداردے دیاجاتا تو چند ہی برسوں میں بنگالی مسلمان بنگالی قوم پرست عوامی لیگ کو مستردکردیتے۔ اس کا مشاہدہ ہم نے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بنگلہ دیش میں دیکھ لیا۔ اس لیے کہ بنگالی مسلمان بھی ملت اسلامیہ کا حصہ ہیں اور برصغیر میں سب سے زیادہ سیاسی شعور رکھنے والی قوم ہے جس نے طویل مدت تک آزادی کی لڑائی لڑی ہے۔ سقوط ڈھاکا کا سانحہ ہمیں یہ سبق دیتاہے کہ ایک مستحکم سیاسی نظام ہی قوم کی بقا اور استحکام ضامن ہے۔ مارشل لا کی صورت میں فوجی آمریت ہو یا سویلین حکومت کے پردے میں پس پردہ فوجی حکمرانی سیاسی نظام عدم استحکام کا شکارہوتاہے اور ادارے قومی اتفاق رائے سے محروم ہوتے ہیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے تلخ تجربات کے بعد فوجی آپریشن کے تجربے سے گریزکرنا چاہیے تھا لیکن آج بھی قبائلی علاقوں ‘سوات‘بونیراور بلوچستان میں فوج کشی جاری ہی‘ جبکہ دفاع پاکستان کے ذمہ دارامریکی حملوں کو برداشت کررہے ہیں۔
Displaying 2 Comments
Have Your Say
  1. muhammad zaffar iqbal mughal says:

    AOA app nay skote Dhaka ky bary jo tehreer kia 100% durst tehreer kia . waqae ham nay ya hamary hokmaranono ny as sy koe sabak hasil nahe kia . halan kay jamhore hakomten bhe aate rhe hain. mashrake pakistan main hamre foj bare dalere say lar rhe the jan bojh kar ak plan ky mutabiq awami league ko hakomat na de gae kyon ky maghrabi pakistan mian Z.A.bhooto iqtadar ki hawas rkhta tha woh hargez na chata tha ky as mulk par koe awr hakomat bnay ase plan kay tahat sh,Mujeeb sy mil kar “Adhar ham Udhar tum ” ka nara lagaya awr mashraki pakistan ko bangla desh bnany ky leye kom ko 90 hazar foji ki wapse sy mshrot kia magar kom nay saf inkar kardya jes par bhato nay un fojiyon ko gale bhe de awr kaha ky agar tum manzor nahe to mujhy bhe manzor nahen leken andron khana khel jare rakha awr akher kar masharki pakistan B.D ban gia jahan tak mujhy yad parta hay B.D ban jany par larkana main ak keek kata gia jis par Msraki awr maghrabi pakistan ka mep bna hoa tha us keek par dono bazo juda juda kar dey. us waqt ki akhbarat main us keek ki fhoto bhe chape the. KHUDA kary ky koe asa sabab bany ky ye pakistan pher sy Qouid Azam ka pakistan ban jay do bchrry bhae dobara mil jaeen ( ammin)

  2. pervaiz akbar says:

    I do appriciate the patriotic views and deeply love for the united pakistan and i must say that people like you must keep an eye over the changing situation rapidly in pakistan and in the region and we must do 2 things first,one is creating hormony among the new generation of pakistan ,100% education in pakistan and exchanging students/journalist/educationalist/thinker.policymaker/religious scholor in each province every month and do listen and learn the 4 local languages but promote Urdu as a common language to get understand each other problems and suggest solution of them and get published and discussed in electronic media as well,ban indian films and their cultural promotion silently and lastly search the inner enemy in our decision maker who are on top level, ie in army,bureaucracy,banned religious organisations and politicians through our true muslim and pakistani in our intelligence agencies.

Leave a comment