واجد شمس الحسن، میموگیٹ سکینڈل کا ایک اورمہرہ
مستقبل کیا ہو گا؟ مستعفیٰ ہونے کیلئے دباؤ ،پکڑے جانے کے خوف سے پاکستان نہیں آئے
واجد کو گرفتاری کاخوف ہے، پاکستان نہیں آئیں گے ،ان کے پاس دوہری شہریت ہے
اسلئے وہیں سے مستعفی ہو جائیں گے ، سفارتکار کی گفتگو
رپورٹ /ایم ارشد
برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کا معاملہ ان دنوں خاصا گرم ہے اور نہ صرف پاکستان بلکہ برطانیہ کے سیاسی ، سفارتی، حکومتی اور عسکری حلقوں میں ان کے مستقبل کے حوالے سے چہ میگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔
اطلاعات ہیں کہ واجد شمس الحسن نے اسلام آباد میں ہونے والی سفیروں کی دو روزہ کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے بعد ایبٹ آباد کمیشن کے سامنے بھی پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا ۔ ادھر عسکری قیادت نے حکومت اور واجد شمس الحسن پر دباؤ بڑھا نے کا فیصلہ کیاہے کہ وہ از خود مستعفیٰ ہونے کا اعلان کر کے پاکستان واپس آ جائیں ۔
ذرائع کے مطابق واجد شمس الحسن کے بارے میں انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹیں بہت اہم ہیں اور عسکری حلقے انہیں بڑی اہمیت دے رہے ہیں ۔ان رپورٹوں میں واجد شمس الحسن کے بارے میں بہت سے راز ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کے واجد شمس الحسن سے استعفیٰ طلب کیا جائے گا ،اور اگر واجد شمس الحسن پاکستان آتے ہیں تو ان کی گرفتاری بھی عمل میں آسکتی ہے۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع کے مطابق عسکری حلقوں کی طرف سے واجد شمس الحسن کو دی جانے والی مختلف آپشنز پر بحث جاری ہے ۔ انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے اور پاکستان واپس لانے کے لئے مختلف آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے جس کے بعد واجد شمس الحسن کو ایبٹ آباد کمیشن کے سامنے پیش ہو کر انکوائری کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ واجد شمس الحسن نے سوموار کو اسلام آباد میں پاکستانی سفیروں کی دو روزہ کانفرنس میں اسی لئے شرکت نہیں کی تھی کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ پاکستان آنے کی صورت میں انہیں واپس نہیں جانے دیا جا ئے گا اور استعفیٰ دینے کے لئے کہا جائے گا اس کے علاوہ انہیں پاکستان سے باہر جانے سے بھی روکا جا سکتا ہے ۔
سفارت کاروں کی اس کانفرنس میں بھی واجد شمس الحسن کی عدم شرکت شدت سے محسوس کی گئی۔ پاکستانی سفیروں نے واجد شمس الحسن کی عدم شرکت اور میمو سکینڈل کے حوالہ سے پاکستانی سفارت کاروں کو اعتماد میں نہ لینے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ۔ بعض سینئر سفارت کاروں نے واجد شمس الحسن کی عدم شرکت اور اس کے حالیہ بیانات پر شدید تنقید کی۔ بعض سفارت کاروں نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ گرفتاری کے خوف سے پاکستان نہیں آرہے ہیں اور نہ ہی وہ پاکستان واپس آئیں گے چونکہ ان کے پاس دوہری شہریت ہے لہٰذا وہ وہیں سے مستعفی ہو جائیں گے ۔
واجد شمس الحسن پریشان۔۔۔۔
واجد شمس الحسن کو ایبٹ آباد کمیشن نے طلب کیا تو ان کی پریشانی میں اضا فہ ہوا۔ انہیں دسمبر کے آخری ہفتے میں کمیشن کے سامنے طلب کرنے کا فیصلہ کمیشن نے اپنے سوموار12دسمبر کو ہونے والے اجلاس میں کیا۔ا جلاس میں قانونی ماہرین جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال ،وسیم سجاد اور سینیٹر ایس ایم ظفر کو بلایا گیا تھا اور ان سے قانونی مشاورت کرنے کے بعد ہی واجد شمس الحسن طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ان کے طلب کرنے کی وجہ خود کے اپنے بیانات تھے ۔ انہوں نے ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف ہونے والے مبینہ آپریشن سے متعلق بیان دیتے ہوئے برملا کہا تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ پاکستانی حکام کو اس آپریشن سے متعلق پہلے سے اطلاع ہو۔
واجد شمس الحسن ایبٹ آباد کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے اس لئے بھی انکاری ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایبٹ آباد کمیشن انہیں براہ راست طلب نہیں کر سکتا۔ صرف دفتر خارجہ کے ذریعے ہی بلایا جا سکتا ہے۔ واجد شمس الحسن کے مطابق فی الحال انہیں کوئی سمن موصول نہیں ہوا۔ جب دفتر خارجہ رابطہ کرے گا تو دیکھا جائے گا۔
واجد شمس الحسن کیا کہتے ہیں ؟
ایبٹ آباد کمیشن کی طرف سے طلب کئے جانے کے بعد برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے ایک بیان جاری کیا جس کی ایک کاپی ’’ فیکٹ ‘‘ کے پاس بھی موجود ہے۔ اس بیان میں واجد شمس الحسن نے طویل وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کو 2 مئی کے اسامہ آپریشن کی کوئی خبر نہیں تھی اور کسی بھی مرحلہ میں انہیں، فوجی یا سول قیادت کو اس کا علم نہیں تھا ۔ واجد شمس الحسن کے بیان کے مطابق جب سے میمو اسکینڈل سامنے آیا ہے تب سے میڈیا کے لوگ جن کی جمہوری حکومت کے خاتمے کی پیشن گوئیاں غلط ثابت ہوئیں انہیں اپنے لئے آکسیجن کی نئی خوراک مل گئی ہے۔ میڈیا کے لوگ میرے ایبٹ آباد آپریشن پر سابقہ بیانات کو غلط استعمال کر رہے ہیں اور وہم پھیلا رہے تاکہ میرے خلاف چارج شیٹ شروع ہو سکے۔ میڈیا کے ایک حصہ نے میری میڈیا کو دی گئی تصحیح کو موڑ توڑ کر پیش کرکے پیشہ ورانہ اخلاقیات کو بھی نظرانداز کر دیا ہے۔ اسامہ قتل کے نتیجے میں مختلف چینلز میرے بیانات کو اوپر نیچے کرنے کی چارہ جوئی کرتے رہے ہیں۔ میڈیا نے اسامہ کو جن پراسرار حالات میں قتل کیا گیا ان حالات کو نظرانداز کر دیا ہے۔ میں ان کو یاد دلانا چاہوں گا کہ ابتدا میں اسامہ آپریشن کے بارے میں ہر چیز غیر واضح تھی، کچھ سرکردہ کالم نویسوں اور ٹی وی اینکرز نے پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے بار ے میں گھٹیا بیانات دیئے کہ وہ ملکی خودمختاری کا دفاع کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئے۔ ان معروف کالم نگاروں اور اینکرز نے پاکستانی فوج، آئی ایس آئی اور حکومت پر شدید تنقید کی۔ ان کے بیانات پاکستان کی سکیورٹی آلات کے بارے میں بھی گمراہ کن تھے۔ پاکستانی حکومت پر یہ الزامات مایوس کن ہیں کہ اس کی سول اور فوجی حکومت قیادت آپریشن سے پہلے جانتی تھی۔ جیسا کہ دو مئی کے آپریشن کے متعلق بہت کم علم ہے میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ہم 2002ء سے القاعدہ کے خلاف آپریشنز میں امریکہ سے تعاون اور خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتے رہے ہیں۔ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ تھے اور امریکہ کو ہمیں اپنے حلقے میں رکھنا چاہیے تھا تاہم بدقسمتی سے جب ہمیں اس کا معلوم ہوا تو میرے نزدیک ہمارے دوستوں نے ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپا تھا۔ دو مئی کے یک طرفہ اقدام کی اس سے سخت مذمت نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کو اعتماد میں نہ لینے کی تصدیق امریکی انتظامیہ کی جانب سے بھی ہوئی جب انہوں نے کہاکہ صدر اوباما، وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور دیگر چند شخصیات کے علاوہ امریکی حکومت میں بھی کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ میڈیا کو میرے فوری ردعمل اور تاثرات میں میں نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان اسامہ کو پکڑنے میں امریکہ کی مدد کررہا ہے اور ہماری مدد کے بغیر امریکیوں کے لئے اسامہ کو تلاش کرنا ممکن نہیں تھا۔ میری اس بات کی تصدیق 3 مئی کو حکومت پاکستان کے بیان سے بھی ہوتی ہے کہ حکومت پاکستان اسامہ بن لادن کی موت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم سنگ میل سمجھتی ہے اور پاکستان اور اس کے ادارے اسے انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے سنجیدہ کوششیں کرتے آئے ہیں۔ یہ بات اس پس منظر میں تھی کہ امریکی صدر اوباما نے اپنے بیان میں پاکستان کے تعاون پر شکریہ ادا کیا تھا۔ یہاں یہ بھی واضح کیا گیا کہ حکومت پاکستان نے ان میڈیا رپورٹس کو مسترد کر دیا جن میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کی سول و عسکری قیادت کودو مئی کے آپریشن کا پہلے سے علم تھا۔ اوپر ذکر کئے گئے بیان میں مزید کہا گیا کہ ایبٹ آباد اور اس کے گردونواح کے علاقے 2003ء سے خفیہ ایجنسیوں کی فوج کا مرکز تھے اور آئی ایس آئی کی جانب سے اعلیٰ تکنیکی تعاون کے نتیجے میں 2004ء میں القاعدہ کے ایک ہائی ویلیو ٹارگٹ کی گرفتاری ہوئی۔ جہاں تک ٹارگٹ کمپاؤنڈ کا تعلق ہے تو آئی ایس آئی، سی آئی اے اور دیگر دوستانہ خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ 2009ء سے معلومات کا تبادلہ کر رہی تھی۔ اپریل 2011ء تک مسلسل معلومات کا تبادلہ ایبٹ آباد اور اس کے گردونواح میں غیر ملکیوں کی موجودگی ظاہر کرتا ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ سی آئی اے اور دیگر دوستانہ خفیہ ایجنسیاں آئی ایس آئی کی جانب سے فراہم کی گئی خفیہ معلومات سے بڑے پیمانے پر فائدہ اٹھا چکی ہیں۔ القاعدہ کے خلاف اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آئی ایس آئی کی اپنی کامیابیاں دنیا کی کسی بھی خفیہ ایجنسی سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہمارے تعاون کی بناء پر ہی سی آئی اے اسامہ کو پکڑنے میں کامیاب ہوئی۔ تاہم یہ امر قابل افسوس ہے کہ ہمیں چھرا گھونپا گیا اور ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
he should be here in Pakistan for trail
in k pahoon kabron ma han magar per b in ko pason ke aves lagee huhi ha.jes k leya ya log madar e watan ko bach rahy han allah ke bashumar laneth in per